برطانیہ میں ہتھیار زنی کے جرائم میں اضافہ/فرزانہ افضل

برطانیہ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں سے ایک ہے جو مجموعی ملکی پیداوار یا جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا کی چَھٹی سب سے بڑی معیشت ہے۔ جب کہ قوت ِخرید کے لحاظ سے دسویں بڑی معیشت ہے۔ برطانیہ کو ایک اعلی ٰآمدنی والی معیشت سمجھا جاتا ہے اور انسانی ترقی کی درجہ بندی کے لحاظ سے دنیا میں چودھویں نمبر پر ہے۔ مگر اس کے باوجود تشدد اور ہتھیار زنی کے جرائم کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

گزشتہ برس 2022 میں بہت سے چاقو زنی ، قتل اور تشدد کے جرائم ہوۓ ہیں۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق جون 2022 میں ختم ہونے والے سال میں قتل کے 679 مقدمات درج ہوئے جبکہ چاقو زنی کی وارداتوں کی تعداد 49،991 تھی جو کرونا کے دو سال کی نسبت 9 فیصد کم ہے اس کی وجہ لاک ڈاؤن کی پابندیاں تھیں۔ ہراسگی اور پیچھا کرنے کے واقعات 718،317 تھے جبکہ گھریلو تشدد کے912،181 جرائم وقوع پذیر ہوئے۔ یہ خیال رہے کہ بہت سے جرائم کی رپورٹ ہی نہیں ہوتی کیونکہ لوگ دھمکیوں یا خوف کے ڈر سے ایسا نہیں کرتے۔

ابھی حالیہ کرسمس 2022 کے روز برطانیہ کے شہر لیورپول میں ایک 26 سالہ خاتون کو سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ یہ حملہ ایک پب میں ہوا جہاں پر وہ خاتون اور باقی لوگ کرسمس منا رہے تھے۔ حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور قتل کی منصوبہ سازی کے الزام میں ایک خاتون کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

26 دسمبر 2022 باکسنگ ڈے سیل کی خریداری کے دوران سٹوک آن ٹرینٹ کے ایک شاپنگ سینٹر میں ایک تیرہ سالہ لڑکے کی گردن اور ٹانگ میں چھرا گھونپ دیا گیا، ایک چودہ سالہ لڑکے کو قتل کی کوشش میں گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ 23 سالہ فٹبالر کوڈی فشر کو چاقو کے وار سے قتل کر دیا گیا یہ حملہ باکسنگ ڈے کی رات کو برمنگھم کے ایک کلب کے ڈانس فلور پر ہوا۔

گزشتہ کرسمس پر ایک اور ہولناک واقعہ ہوا ، 54 سالہ کلاڈیئس فرانسس کو شمالی لندن کے علاقے میں اس کے گھر میں چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا گیا ۔چاقو زنی کی وارداتیں عموماً بڑے شہروں میں ہوتی ہیں ۔ جن میں لندن ، مانچسٹر اور ویسٹ مڈ لینڈ شامل ہیں۔ چاقو زنی کے حملوں کی نوعیت دو قسم کی ہوتی ہے ڈکیتی یا پُرتشدد حملے۔ ان میں زیادہ تر نوجوان افراد ملوث ہوتے ہیں ۔ ریسرچ کے مطابق زیادہ تر بولو گانا جادو کا نشانہ بنتے ہیں جو خود کی حفاظت کے خیال سے چاقو یا کوئی ہتھیار اپنے پاس رکھتے ہیں، ہدایت کے مطابق ایسے افراد کے زخمی ہونے کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے لڑائی جھگڑے میں وہی ہتھیار ان پر استعمال ہوتا ہے۔ یہ لوگ تین طرح کی وجوہات کی بنا پر ہتھیار اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اپنی حفاظت یا دفاع کے لئے ، گلی محلے میں خود کو بڑا بدمعاش ثابت کرنے کے لئے تاکہ لوگ اس سے ڈر کر اس کی عزت کریں، چوری ،ڈکیتی، جنسی جرائم یا تشدد کے واقعات میں ہتھیار سے مدد لینے کے لیے ۔

جرائم کی تعداد میں اضافہ کی وجہ پولیس پر اعتماد کا نہ ہونا بھی ایک بہت بڑا عنصر ہے۔ پولیس پر اعتماد کی کمی ممکنہ طور پر متاثرین کے مجرم بننے کا سبب بن سکتی ہے۔ کیونکہ وہ پولیس کے طریقہ کار پر انحصار کرنے کی بجائے انتقام لینے کے لیے تشدد کا ذریعہ اختیار کر سکتے ہیں۔ بہت سے ایسے طلباء جن کو اسکولوں میں بُرے رویے کی بِنا پر نکال دیا جاتا ہے وہ  مجرمانہ گینگ میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں۔

برطانیہ میں اوسطاً 22 بچےہر روز سکول سے نکالے جاتے ہیں۔ یوتھ سینٹرز کی تعداد  میں کمی  ہو گئی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ مزید یوتھ سینٹرز کھولے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل کیئر اور غیر نصابی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کی جاۓ۔ اسکول سے اخراج کو کم کرنے اور نتائج کو بہتر بنانے کے لئے تعلیمی مدد فراہم کی جائے۔ نوجوان کی مدد، تعلیم اور بحالی کے لیے خاندانوں اور کمیونیٹیز کے ساتھ مل کر کام کیا جائے ۔ اعتماد پر مبنی تعلقات کو بحال کرنے کے لیے کمیونٹی پر مبنی پولیسنگ میں سرمایہ کاری کی جاۓ۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین کا فرض ہے کہ وہ بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر چیک اور کنٹرول رکھیں کیونکہ ڈارک ویب کے ذریعے بہت سے جرائم ہو رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سناک نے گزشتہ کرسمس کے موقع پر ہوئے جرائم کے بعد اپنے ایک بیان میں یقین دلایا کہ حکومت سنگین جرائم سے نمٹنے کے لیے پولیس کے وسائل میں اضافہ کرے گی اور کہا کہ وہ پولیسنگ میں ملک بھر میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ۔ اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہر شخص کو اس بات کا اطمینان اور یقین ہو کہ وہ محفوظ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply