تہتر سال بعد۔۔آغرؔ ندیم سحر

بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے 11اگست 1947ء کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
آپ دیکھیں گے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو   ,ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان،مسلمان نہیں رہیں گے۔مذہبی معنوں میں نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی معنوں میں وہ ایک ہی ریاست کے برابر کے شہری ہوں گے۔آپ سب آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے،اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے یا کسی بھی اور عبادت گاہوں میں جانے کے لیے۔آپ کا مذہب کیا ہے؟ریاست کا اس بات سے کوئی سروکار نہیں کیونکہ یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے“۔
تہتر سال گزر گئے،یہ تہتر سالہ سفر کتنا کٹھن اور مشکل تھا اس کا اندازہ ہر باشعور پاکستانی لگا سکتا ہے۔تہتر سال قبل جب لٹے پٹے زخم خوردہ اور پریشان قافلے پاکستان داخل ہوئے تھے تو یہاں آتے ہی یوں لگا جیسے چشم ِ زدن میں ہم نہ صرف بحال ہو گئے بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ بہتر صورت حال میں آ گئے ہیں۔اپنی تمام پریشانیوں اور بد حالیوں کے باوجود ایسا لگ رہا تھا کہ ہر طرف پیار اور بہار ہے،تقسیم میں جتنا نقصان کر کے آئے ہیں یہاں آتے ہی ازالہ ہو جائے گا۔دلوں میں عزائم اور امنگوں کا ایک خوش گوار اور حیات افروز محشر برپا تھا۔مگر افسوس صد افسوس!تھوڑی ہی مدت بعد پاکستان کے عوام کو پتا چل گیاکہ پاکستان سے غافل‘پاکستان کو لوٹنے والے اور پاکستان کو ایک کالونی سمجھنے والے جس طرح سیاست دان ہیں،اس طرح کا طبقہ کوئی دوسرا نہیں۔نوکر شاہی‘صنعت کار اور تاجر وغیرہ کو بگاڑنے میں جس طرح کا کردار ہمارے نااہل سیاست دانوں نے ادا کیا‘تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔آج تہتر سال بعد ان خاندانوں سے ملاقات کیجیے گا جو اپنا سب کچھ اس وطن ِ عزیز کے لیے قربان کر آئے تھے،محض ایک نعرے کی خاطر کہ ہم آزاد ہوں گے،ہم آزادی سے سانس لے سکیں گے۔آپ جناح کے وہ خطبات سنیں جو تقسیم ِپاکستان کے تناظر میں کیے گئے،آپ یقینا حیران ہوں گے کہ جس پاکستان کی بنیاد اور جس پاکستان کا خواب میرے عظیم لیڈر جناح دکھا رہے تھے‘کیا یہ وہی پاکستان ہے یا ہمیں آج یہ کہنا پڑے گا کہ”چلے چلو ابھی منزل نہیں آئی“۔آپ کالم کے آغاز میں رقم کیا گیا وہ بنیادی خطاب ہی سن لیں جو تقسیم سے دو روز قبل کیا گیا جس میں قائد نے پاکستان کا پورا نصب العین رکھ دیا تھا۔
کیا اس میں کوئی شک ہے کہ قائد اعظم ایک ایسے ملک کا خواب دیکھ رہے تھے جہاں مسلک تو کیا،مذہب کی بھی کوئی قید نہیں ہو گی۔قائد ایک ایسے ملک کا جہاں مسلمان،مسلمان ہوگا اور ہندو،ہندو۔کسی مذہب کو دوسرے مذہب پر تشدد کا ختیار نہیں ہوگا۔کسی امیر کو کسی غریب پر حکمرانئی کا کوئی حق نہیں ہوگا۔کوئی سرمایہ دار اپنے پیسے اور دولت کے سر پر نچلے طبقے کو پاؤں تلے نہیں روندے گا مگر آپ اس ملک کے سیاسی وڈیروں کی ہٹ دھرمی اور ظلم ملاحظہ فرمائیں۔کہ ہمارا سیاست دان اس ملک کے حالات سے بڑے خلوص کے ساتھ غافل رہا‘بڑے خلوص کے ساتھ اس نے اقربا پروری کی‘بڑے خلوص کے ساتھ اس نے پاکستان کو لوٹا‘بڑے خلوص کے ساتھ اس نے منی لانڈرنگ کی،بڑے ہی اعتماد کے ساتھ اس نے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں اور ہم پر مسلط رہا۔ہم ااج تک اس کی چودھراہٹ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے رہے‘ہم اپنے بزنس مین کے ہاتھوں اس ملک کی باگ دوڑ دے کر خود خاموش ہو گئے اور بزنس مین اور سرمایہ دار طبقے نے وہی کیا جو آزادی سے قبل ہمارے ساتھ انگریز کر رہا تھا۔کیا انگریز کی سوچ اور ہمارے سرمایہ دار طبقے کی سوچ میں کوئی تفریق ہے؟بالکل نہیں بلکہ میرا ذاتی نقطہ نظر ہے کہ ہمارا سرمایہ دار انگریز سے زیادہ خود غرض،لالچی اور ظالم نکلا۔انگریز تو ہمیں اس لیے لوٹتا رہا‘ہم پر ظلم کرتا رہا کہ ہندوستان اس کاملک نہیں تھا‘ہندوستان کے شہری‘اس کے شہری نہیں تھے۔اس کے برعکس پاکستان سرمایہ دار اپنے ہی ملک اور اپنے گھر کے افراد کو لوٹتے رہے،اس سرمایہ دار کے ظلم کی فہرست ناقابلِ بیان ہے۔
مذہبی شدت پسندی ہو یا ملائیت کی منافقت،سیاسی لوٹ مار ہو یا وڈیرا شاہی نظام،تعلیمی میدان میں اساتذہ کی غلام ذہنیت ہو یا نوجوان نسل کی مغرب پرستی۔کس کس کا رونا ریا جائے‘کس کس کی نااہلی اور خاموشی پر ماتم کیا جائے۔تہتر سال واپس جائیں اوران قربانیوں کی فہرست مرتب کریں اور چند لمحے سوچیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں،مجھے یقین ہے ایک باشعور پاکستانی کو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں پر ضرور ندامت ہوگی اور ہونی بھی چاہئے۔پاکستان کی بنیاد کلمہ طیبہ تھا مگر اس کا مطلب بالکل بھی یہ نہیں تھا کہ جو کلمہ طیبہ نہیں پڑھتا‘اسے اس ملک میں رہنے کا حق نہیں۔
یہ ملک سب کا سانجھا ہے‘آپ طالب علم ہیں یا استاد،آپ مذہبی مفکر ہیں یا لبرل دانشور،آپ بائیں بازو سے ہیں یا دائیں بازو سے،آپ کسی بھی سیاسی پارٹی کے حمایتی ہیں یاکسی مذہبی جماعت کے ووٹر،آپ سرمایہ دار ہیں،صنعت کار ہیں،تاجر ہیں یا مزدور،آپ مہاجر ہیں یا انصار،آپ سیاست دان ہیں یا ووٹر،آپ مسلمان ہیں‘ہندو ہیں‘عیسائی ہیں‘قادیانی ہیں یا مجوسی۔آپ سنی شیعہ ہیں یا وہابی و بریلوی،پاکستان آ پ سب کا ہے اور آپ ہی اس کے محافظ ہیں۔یقین جانیں آپ میں سے کوئی ایک طبقہ بھی اس ملک کے بارے منفی سوچے گا یا کوئی نیگٹیو پراپیگنڈا کرے گا تو اس کا نقصان ملک کے صرف ایک طبقے کو نہیں بلکہ پورے پاکستان کو ہوگا۔قائد اعظم کے الفاظ بالکل واضح ہیں کہ یہ ملک ہر اس شخص کاہے جو اس میں رہتا ہے‘یہ ملک ہر اس شہری کا ہے جس نے اس ملک کے لیے قربانی دی اور جس کے آباؤ اجداد نے اس ملک کے لیے خون بہایا اور ہجرت کی۔ایک بہترین اور باشعور پاکستانی ہونے کے ناطے آپ سب کا فرض ہے کہ ایسے تمام شرپسند عناصر کا قلع قمع کریں،ان کے خلاف جہاد کریں،ان کے خلاف سیسہ پلائی ہو دیوار بن جائیں جو اس ملک کو بال برابر بھی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں،آپ مذاہب و مسالک اور نظریات سے بالاتر ہو کر اس ملک کی بہتری کے لیے سوچیں کیونکہ یہ ملک جس ازم پر کھڑا ہے‘وہ ہے کلمہ طیبہ۔اس کے علاوہ کوئی ازم بھی اس ملک میں قابلِ قبول نہیں ہوگا۔اگر آپ کلمہ طیبہ پڑھنے والوں زندگیاں دیکھنی ہیں تو نبی کریم ﷺ اور اصحابِ رسولﷺ کی زندگیوں کا مطالعہ کر لیجیے اور ہمیں بالکل ایسے ہی پاکستان کی ضرورت ہے جو ریاستِ مدینہ کا حقیقی عکس ہو۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply