• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • صرف گرین ہاؤس گیسز ہی ماحول کو نقصان کیوں پہنچاتی ہیں؟ ۔۔۔ ڈاکٹر پرویزبزدار

صرف گرین ہاؤس گیسز ہی ماحول کو نقصان کیوں پہنچاتی ہیں؟ ۔۔۔ ڈاکٹر پرویزبزدار

ماحول کو نقصان پہنچانے والی  گیسز کو عام طور پر گرین ہاؤس گیسز کہا جاتا ہے اور یہ ہماری زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ کا باعث بنتی  ہیں۔ ان گیسز  میں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی اور گیسز  جیسے نائٹرس آکسائیڈ یا میتھین وغیرہ بھی شامل ہیں۔ نائٹرس آکسائیڈ وہی گیس ہے  جس کا مزہ شاید آپ نے کسی ڈینٹیسٹ کے کلینک میں چکھا ہو، اسے لافنگ گیس (ہنسانے والا گیس) بھی کہا جاتا ہے۔ میتھین گیس اس قدرتی گیس کا ایک لازمی جزو ہے جو ہم کھانا پکانے کےلیے چولہے میں جلاتے ہیں یا پھر پانی گرم کرنے کےلیے گیزر  وغیرہ میں استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو اس کی مقدار کی وجہ سےسب سے  زیادہ  بُرا سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت میں اگر یہ دیکھا جائے کہ کس گیس کا ایک مالیکیول کتنا نقصان دہ ہے تو اس میں دوسری گیسز کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھی زیادہ نقصان دہ ہیں۔

مثال کے طور پر فضا میں پہنچنے والا میتھین کا ایک مالیکیول کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ایک مالیکیول سے ایک سو بیس گنا زیادہ درجہ حرارت میں اضافہ کرتا ہے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ میتھین کے مالیکیول فضا میں اتنی دیر تک نہیں رہ سکتے جتنی دیر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مالیکیول رہتے ہیں۔ گیسز کی اس تقسیم کو ختم کرنے کےلیے عام طور پر بقیہ گیسز کو بھی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اس طرح شامل کیا جاتا ہے کہ اس سے درجہ حرارت میں تبدیلی کا صحیح اندازہ لگایا جا سکے۔ اصل میں گرین ہاؤس گیسز کی مقدار اہم نہیں ہے بلکہ اصل اہمیت اس کی ہے کہ درجہ حرارت میں کتنی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ جب سب گیسز کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے تو یہ مقدار سالانہ اکاون ارب ٹن کے برابر ہے۔ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار سینتیس ارب ٹن ہے جبکہ کاربن کی مقدار دس ارب ٹن ہے۔ اس لیے شاید آپ کو یہ تینوں نمبر کہیں نا  کہیں ملیں۔

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ گرین ہاؤس گیسز سے زمین کے ٹمپریچر میں کیسے اضافہ ہوتا ہے؟ مختصر جواب تو یہ ہے کہ ان گیسز کے مالیکیول حرارت جذب کرکے فضا میں پھنس کر رہ جاتے ہیں ۔آپ اس کی مثال آئے روز گاڑیوں میں دیکھتے رہتے ہیں۔ فرض کیا آپ اپنی گاڑی گرمیوں میں دھوپ میں کھڑی چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ وقت بعد جب آپ اپنی گاڑی میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کی گاڑی ماحول سے زیادہ گرم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گاڑی کی ونڈ شیلڈ حرارت کو اندر آنے تو دیتی ہے مگر باہر نکلنے سے روکتی ہے۔ یہ وجہ گاڑی کو ماحول سے زیادہ گرم رکھتی ہے۔

شاید اس وضاحت سے آپ کے ذہن میں مزید سوال پیدا ہوئے ہونگے۔ کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ سورج کی حرارت تو گرین ہاؤس گیسز سے گزر کر زمین تک پہنچے مگر پھر وہی حرارت واپسی پر فضا میں پھنس کر رہ جائے؟ کیا کاربن ڈائی آکسائیڈ ایک یک طرفہ شیشے  کے طور پر کام کرتا ہے؟ اگر کاربن اور میتھین حرارت جذب کرکے درجہ حرارت میں تبدیلی کا باعث بنتے ہیں تو باقی گیسز جیسے آکسیجن وغیرہ کیوں نہیں؟

ان سب سوالوں کا جواب فزکس اور کیمسٹری کے  چند بنیادی اصولوں میں پوشیدہ ہیں۔ ہم فزکس کے  بنیادی اصولوں سے جانتے ہیں کہ تمام مالیکیول وائبریٹ کرتے ہیں، اور وائبریشن کی رفتار جس قدر تیز ہو وہ اس قدر زیادہ گرم ہوتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی مخصوص مالیکیول سے اگر کسی مخصوص ویو لینگتھ کی روشنی ٹکراتی ہے تو وہ مالیکیول اس ویو لینگتھ کی روشنی کو بلاک کرتا ہے اور اس کی انرجی یا حرارت کو اپنے اندر جذب کرتا ہے اور یوں اس کی وائبریشن میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور لامحالہ اس مالیکیول کی گرمائش میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ہر روشنی اس ویو لنگتھ کی نہیں ہوتی جو جذب ہو جائےاسی لیے سورج کی طرف سے آنے والی روشنی کی لہریں گرین ہاؤس مالیکیولز میں جذب ہوئے بغیر زمین تک پہنچتی ہیں اور زمین کی درجہ حرارت میں اضافہ کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

زمین یہ درجہ حرارت اپنے اندر دیر تک محفوظ نہیں رکھ سکتی اور لامحالہ خارج کرتی ہے۔ ویسے اگر زمین یہ درجہ حرارت اپنے اندر محفوظ رکھتی تو یہ ویسے بھی رہنے کے قابل نہ ہوتی۔ اب جب زمین یہ حرارت خارج کرتی ہے تو کچھ انرجی بالکل اسی ویولینگتھ سے خارج ہوتی ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ یا میتھین کے جذب ہونے کےلیے موزوں ترین ہے۔ اس کی وجہ سے وہ حرارت فضا میں پھنس کر ہی رہ جاتی ہے اور اس کی گرمائش زمین تک پہنچتی رہتی ہے۔ ویسے ان گیسز کی ایک مقدار زندگی کےلیے ضروری ہے ۔ اگر ان گیسز کا وجود ہی نہ ہو تو زمین اپنی ساری انرجی یا حرارت رات کے وقت فضا میں بھیج دے اور اس کا درجہ حرارت اس قدر کم ہوجائے کہ اس پر رہنا ناممکن ہو جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

باقی گیسز جیسے آکسیجن اور نائٹروجن وغیرہ کے مالیکیول میں چونکہ ایک ہی قسم کے ایٹم ہوتے ہیں اس لیے وہ حرارت کو جذب کرنے کی بجائے گزرنے دیتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس وہ سب گیسز جیسے میتھین یا کاربن ڈائی آکسائیڈ جن کے مالکیولز مختلف ایٹمز سے بنے ہوتے ہیں وہ حرارت جذب کر لیتے ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر پرویز بزدار
مضمون نگار نے کائسٹ جنوبی کوریا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کر رکھی ہے اور اب جنوبی کوریا میں مقیم ہیں۔ وہ موبائل اور کمپیوٹر کے پروسیسرز بنانے میں آرٹی فیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) کو استعمال کرنے کے طریقوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply