عموماً ہمارے معاشرے میں (دین کے محدود تصور کی طرح)امانت کا مفہوم بھی مالی امانت کے ساتھ خاص سمجھ لیا جاتا ہے ۔ عموماً اس کا دائرہ کار صرف ودیعت کے طور پر رکھے جانے والے مال کی حفاظت کرنے اور اسے لوٹا دینے تک محدودکرلیا گیاہے۔عربی زبان میں”امانت”کے معنی کسی شخص پر کسی معاملے میں بھروسہ اور اعتماد کرنے کے آتے ہیں۔(المعجم الوسیط)
شریعت کی نظرمیں امانت ایک وسیع المفہوم لفظ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔امانت کہتے ہیں” ہر صاحبِ حق کو اس کا حق پورا پورا ادا کرنا اور اپنی ذمہ داری کو ٹھیک طرح سے نبھانا” نکلتا ہے۔قرآن کریم اوراحادیثِ مبارکہ کے ذخیرہ میں میں امانت کے لفظ کا اطلاق بہت سارے معانی اور ذمہ داریوں پر کیا گیا ہے۔چنانچہ فتح مکہ کے موقع جب حضوراکرم ؐ عثمان بن طلحہ شیبی سے بیت اللہ کی کنجی لے کر اندر داخل ہوئے اور نماز پڑھ کر باہر آئے تو آپ ؐکی زبان مبارک پر یہ آیت جاری تھی”إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا”(النساء :58)۔جس میں اماتیں ان کے حقداروں تک پہنچانے کا حکم دیاگیا۔جس کے مطابق آپ ؐنے کعبۃ اللہ کی کنجی عثمان بن طلحہ کے حوالہ کردی۔(معارف القرآن)
اس آیت میں”کنجی”پر امانت کا اطلاق کیا گیا جبکہ کنجی کو ئی اہم مال نہیں بلکہ یہ خانہء کعبہ کی خدمت کی علامت ہے جس کا تعلق مال سے نہیں بلکہ عہد ے سے ہے ۔ اسے امانت سے تعبیر کرکے “عہدہ اور منصب”کو امانت قرار دیا گیا۔ نیز اس آیت میں الأَمَانَاتِ جمع کا صیغہ استعمال کر کے اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ امانت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔جن کی ادائیگی ہر صاحب ِ ایمان پر لازم ہے۔
ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! اللہ اور رسول سے بے وفائی نہ کرو اور نہ جان بوجھ کر اپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب ہونا ۔(سورہ انفال ۔آسان ترجمہ قرآن) یہ آیت غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر نازل ہوئی جب حضرت ابو لبابہ ابن المنذر رضی اللہ عنہ نے اپنے اہل و عیال کے تحفظ کی غرض سے نبی کریم ؐ کے راز کو ظاہر کر دیا تھا ۔( اگرچہ بعد میں آپ کو سخت ندامت ہوئی ،پھراللہ رب العزت کی طرف سے معافی کا پروانہ بھی عطا ہوا) اس آیت میں رازفاش کرنے کو امانت میں خیانت قرار دیا گیا ۔
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی امانت کا اطلاق متعدد چیزوں پر ہوا ہے۔چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور اکرمؐ مجلس میں کچھ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک اعرابی نے آکر پوچھا، قیامت کب آئے گی؟ آپ ؐنے فرمایا:جب امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔اعرابی نے پوچھا : امانت کا ضیاع کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:جب معاملات /مناصب ناا ہل لوگوں کے سپرد کر دئیے جائیں (صحیح بخاری)۔ اس حدیث پاک میں عہدے اور منصب پر امامت کا اطلاق کیا گیا۔
ترمذی شریف کی ایک روایت میں مشورہ کو امانت قرار دیا گیا۔ (الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ۔ سنن الترمذی )
اسی طرح ایک حدیث میں مجلس کی باتوں کو امانت کادرجہ دیا گیا ہے۔(الْمَجَالِسُ بِالأَمَانَۃِ۔سنن أبی داود )
صحیح مسلم کی روایت کے مطابق میاں بیوی کے باہمی تعلقات بھی امانت ہیں۔(صحیح مسلم)
ان آیات و احادیث کو ذکر کرنے کا مقصد شریعت کی نظر میں امانت کے وسیع مفہوم کی نشاندہی کرنا ہے ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امانت نہ صرف ودیعت کے طور پر رکھے جانے والے مال کی حفاظت کرنے اور اسے لوٹا دینے میں شامل ہے بلکہ ہر وہ چیز جو دوسرے کو اس بھروسے پر سپرد کی جائے کہ وہ اس کا حق ادا کرے گا،امانت ہے۔
چنانچہ علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ امانت دین کی تمام شرائط و عبادات کا نام ہے (تفسیر قرطبی)۔ا مام رازی اپنی شہرہ آفاق تفسیر”تفسیر کبیر”میں لکھتے ہیں کہ “امانت کا باب بہت وسیع ہے چنانچہ زبان کی امانت یہ ہے کہ اسے جھوٹ، غیبت، چغلی، کفرو بدعت اور فحش گوئی وغیرہ سے بچایا جائے اور آنکھ کی امانت داری یہ ہے کہ اس کو حرام دیکھنے کے لئے استعمال نہ کیا جائے ۔ اور کانوں کی امانت داری یہ ہے کہ لہو و لعب،، فحش اور جھوٹ وغیرہ سننے میں انہیں استعمال نہ کیا جائے”۔امانت داری کی اہمیت و عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امانت کو ایمان اور دینداری کا معیار اور کسوٹی قرار دیا گیا ہے ۔”جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں”(سننِ بیہقی)۔
دوسری جانب امانت میں خیانت کرنا کبیرہ گناہ اور انتہائی گھناؤنا جرم قرارپایا۔ جس کے مضر نتائج نہ صرف خیانت کرنے والے کی ذات بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ جو شخص اللہ اوریومِ آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ کسی کی امانت میں خیانت نہیں کر سکتالیکن جس کے دل میں ایمان ہی نہ ہو یا ماحول نے ایمانی کیفیت کمزور کردی ہو تو خیانت کر نے میں ایسے شخص کو کوئی تردد نہیں ہوتا ۔ امانت داری کی اس قدر اہمیت کے باوجود آج معاشرہ میں اسے کوئی وزن نہیں دیا جاتا ، اچھے بھلے لوگ جو عرف میں دین دار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی امانت اور حق کی ادائیگی کا پاس ولحاظ نہیں رکھتے۔
یا توانہیں اس بات کا احساس نہیں ہوتاکہ امانت کی حفاظت اور اس کی مکمل طور پر ادئیگی دینی اور اخلاقی فریضہ ہے،یا پھر اس بات کا شعور تو ہوتا ہے ور امانتداری کے تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کا جذبہ بھی موجود ہوتا ہے لیکن کم علمی کی وجہ سے امانت کے محدود تصور(مالی امانت )سے اس کے وسیع مفہوم کی طرف ذہن مائل ہی نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ خیانت والے پہلوؤں پر عمل پیرا نظر آتے ہیں ۔
Facebook Comments
اچھی معلومات