ماہرین معاشیات کے مطابق دنیا پچھلی دہائی سنۂ ۲۰۰۸ اور ۲۰۰۹ کے بعد ایک مرتبہ پھر شدید ترین معاشی بحران اور کساد بازاری کی طرف پیش قدمی کرتی نظر آ رہی ہے۔
ماہرین اقتصادیات و معاشیات کے مطابق بہت سے عوامل اس وقت دنیا میں کارفرما ہیں، جو کہ گلوبل معاشی کساد بازاری اور بحرانوں کو جنم دے رہے ہیں۔ ان میں سب سے بڑا حصہ ممالک کے اوپر قرضوں کے بوجھ کا ہے، جو کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ اس وقت امریکہ کے اوپر تقریباً ۲۲ ہزار ارب ڈالر سے زائد کا قرض ہے۔ یورپی یونین اور برطانیہ پر بھی مجموعی طور پر تقریباً ۲۲ ہزار ارب ڈالر کا قرض واجب الادا ہے۔ اس کے علاوہ بھی چائنہ اور شاید ایک آدھے ملک کو چھوڑ کر دنیا کے تمام کے تمام ممالک قرضے کی سنگین دلدل میں دھنس چکے ہیں۔
عالمی ساہوکاروں کو گروی رکھنے اور ان کے فیصلوں کو اپنے عوام الناس کی زندگیوں پر نافذالعمل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس تمام عمل میں اقوام عالم کی مجموعی خودمختاری چند نجی ہاتھوں میں مرکوز ہو چکی ہے اور وہ نجی ہاتھ دنیا کو اپنی ڈگر پر چلا رہے ہیں۔ اس تمام عمل میں اقوام ِ عالم کا مقصدِ حیات صرف اور صرف عوام الناس کی جیبوں کو خالی کرکے عالمی ساہوکاروں کی جیبوں کو بھرنا ہی بچا ہے، جس سے عوام الناس اپنے بیشتر سماجی، معاشی، معاشرتی اور انسانی حقوق سے یا تو محروم ہو چکے ہیں، یا پھر بہت تیزی سے اس عمل سے گزر رہے ہیں۔
اس تمام صورتحال کی وجہ سے بنی نو ع انسانیت کو بحیثیت مجموعی ایسے شدید ترین اخلاقی انحطاط، پستی اور زوال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس میں انسان اپنی انسانیت کو بھول کر حرص، لالچ، بغاوت، سماجی و اخلاقی جرائم میں بہت تیزی سے گِرتا جارہا ہے، اور اگر بنی نوع انسانیت نے بحیثیت مجموعی اس پر غور و فکر نہ کیا تو خدشہ ہے کہ انسانیت اپنی دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت کو بھی اپنے ہی گناہوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے ضائع و فنا کر دے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں