• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • وومین یونیورسٹی صوابی کی طالبات مری کے لئے مری جارہی تھیں۔۔۔کائنات خالد

وومین یونیورسٹی صوابی کی طالبات مری کے لئے مری جارہی تھیں۔۔۔کائنات خالد

خواب دیکھنے پر کوئی بھی پابندی نہیں لگا سکتا مگر کچھ خواب جب حقیقت کا روپ دھارتے ہیں تو بہت اچھا لگتا ہے ۔ ہم نے بھی یونیورسٹی میں داخلہ لے کر ایک خواب دیکھا تھا، کہ اپنے نئے کلاس فیلوز کے ساتھ سیر سپاٹے ہوں گے ۔ کیوں کہ یونیورسٹی کا ماحول کالج کے ماحول سے مختلف ہوتا ہے ۔ سو ہم نے بھی اور  دوستوں  کی طرح  اُونچے خواب دیکھے کہ ہم یونیورسٹی میں یہ کریں گے وہ کریں گے ۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ ہمارے خواب کی تعبیر نکلنے والی ہے ۔ یونیورسٹی کی طالبات مری کے ٹرپ پر جارہی ہیں ۔ ہم سمیت ساری لڑکیاں مری کے لئے مری جارہی تھیں۔ پھر وہ دن بھی آیا جب صبح آٹھ بجے ساری لڑکیاں یونیورسٹی کی لان میں موجود تھیں۔کچھ لوگوں کاانتظار ختم ہوا تو گاڑی منزل کی طرف رواں دواں ہوگئی۔ لڑکیوں کی تیاریاں تھیں کہ وہ ختم ہونے کا  نام نہیں لے رہی تھیں ۔ بس ہچکولے کھاتے ہوئے ایک سی این جی  سٹیشن پر رُکی ۔ تب میوزک بھی کچھ دیر کے لئے بند ہوا۔ اور کچھ دیر کو کانوں کو سکون آیا۔۔ یہیں  پر حکم امتناعی جاری کیا گیا کہ کھانے پینے کی اشیا لے لیں کیونکہ درمیان میں کوئی بھی سٹاپ نہیں ہے ۔ ضروری کھانے پینے کی  اشیاءلی گئیں  مگر پھر بھی دکانوں پر ہلہ بول دیا گیا ۔ دکاندار حضرات پریوں کے غول کو دیکھ کر حواس باختہ ہوگئے۔ کچھ کی تو گھگھی بندھ  گئی تھی  ۔ یہاں تھوڑا انتظار کیا گیا ۔ کیونکہ خریداری ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔ چہروں پر ایک چمک اور دلوں میں مری دیکھنے کی آرزو جو پنہاں تھی۔ جس طرح قید سے پرندوں کو رہائی ملی ہو ویسے ہم سب کو رہائی ملی تھی ۔

گاڑی کے اندر اور باہر اتنا شور تھا کہ راستے پر چلنے والے ہم عجیب مخلوق کو دیکھ کر صلوة پڑھ رہے تھے۔ پوری گاڑی میں سیٹوں پر ایک بھی لڑکی نہیں تھی ساری سیٹوں سے باہر تھیں ۔ اور اپنی دنیا میں گم تھیں ۔ موٹروے شروع ہوچکا تھا۔ ہر طرف خوبصورت کھیت   نظر آرہے تھے۔سیلفیوں اور ویڈیوسے کیمرے بھرے جارہے تھے۔ واپسی کی فکر کسی کے بھی ذہن میں نہیں تھی ۔ ہر لمحہ مستی اور مری کے خیالات تھے۔شور شرابے میں یہ احساس ہی نہیں ہوا اور ہم اسلام آباد پہنچ گئے ۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ

لمحے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ یہی حال ہمارا بھی تھا۔ خوبصورت عمارتوں اور بازاروں سے ہوتے ہوئے مری کے راستے پر گامزن ہوئے ۔ پہاڑی سلسلہ جب شروع ہوا ، تو گاڑی میں خاموشی چھاگئی کیونکہ کاکروچ سے ڈرنے والی لڑکیاں اب اونچائی سے بھی ڈر رہی تھیں۔ گانے بج رہے تھے مگر دھیان  کسی کا بھی گانوں کی جانب نہیں تھا۔ ڈر نہ ہونے کی ایکٹنگ کی جارہی تھی۔ آسمان سے بادل زمین پر اُتر آئے  تھے۔ سرسبز وشاداب نظارے آنکھوں کو خیرہ کررہے تھے۔ راستے میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو کندھوں پر بھاری بھر کم بستے اُٹھاتے دیکھا تو اپنا بچپن یاد آیا۔ مختلف لباسوں میں ملبوس بچے بہت پیارے لگ رہے تھے۔ ہمارے ذہن میں تھا کہ یہاں سکول نہیں ہوں گے کیونکہ یہ تو سیاحتی علاقہ ہے یہاں صرف سیر ہی کی جائے گی۔ سکول کا نام ونشان نہیں ہوگا۔ مگر پڑھائی یہاں بھی تھی۔ جس سے ہم تنگ ہیں ۔ یوں سفر جاری رہا اور ہم اونچائی پر پہنچ گئے جہاں سے ہمیں اب دنیا چھوٹی چھوٹی لگ رہی تھی ۔ پھراعلان کیا گیا کہ گاڑی آگے نہیں جاسکتی ۔ تھوڑی اُترائی کے بعد  سوزوکیوں سے بات کی گئی۔ جو کہ ہمارے پکنک کا ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اصل مزہ اب شروع ہونے والا تھا۔ سفر میں سوزوکی نے جو مزہ دیا  وہ کہیں نہیں تھا۔ اوریوں ایک مسجد سے ہوتے ہوئے ہم مری پہنچ گئے۔ جہاں ہم نے اب مری کو سر پر اُٹھانا تھا۔ ہر طرف  جلوے مری کے  پہاڑوں کو آوازیں دے رہے تھے  کہ مری والو تیار ہوجاؤ صوابی کی یوسفزئی حسینائیں آنکھیں خیرہ کرنے آگئیں ہیں ۔ جن کے سامنے مری کے  جلوے کچھ بھی نہیں ہیں ۔ اور ان جلوہ افروزیوں کے لئے مری کے لوگوں نے بھی خوب بندوبست کیا ہوا تھا، جیولری اور کپڑوں سمیت حسن وجمال کو بارہ چاند لگانے کے لئے پورا بندوبست تھا۔ اور یوں ہم سب مال روڈ پر قائم دکانوں میں ایسے گھسی کہ باہر نکلنے کا احساس ہی نہیں تھا۔ ماحول مری کا مصنوعی لگ رہاتھا۔ ہر چیز بناوٹی لگ رہی تھی۔ کوئی بھی دکان دار  ایسا نہیں تھا جس میں مردوں کی  اشیاءرکھی گئیں ہوں ۔ شاید مری کو بنایا ہی خواتین کے لئے ہے ۔ یہاں جو سیلفیاں لی گئیں وہ ایک ریکارڈ ہوگا۔ ہماری طرح اور بھی بہت نادیدہ لوگ برسوں امیدوں کے سہارے آنے والے لوگ بھی مری آئے تھے۔ جن میں لڑکے ، لڑکیاں، بچے ، نوجوان اور بوڑھے بھی شامل تھے۔ ہر کوئی انجوائے کرنے میں مگن تھا۔ جبکہ مری کے لوگوں کی نظریں ہمارے پرسوں پر تھیں کہ یہ خالی کرکے ہی چھوڑیں گے ۔ یہاں ماڈرن ازم کے نام پر فحاشی تھی۔ پل بھر کو لگا کہ کسی مغربی دنیا میں آگئے ہیں ۔ راستے میں کچھ سیڑھیاں نظر آئیں ۔ جو اوپر کو جاتی تھیں ۔ اسی راستے پر ایک گول کالے رنگ کا بورڈ نظر آیا جس پر اللہ لکھا ہواتھا۔ دیکھ کر جو سرشاری دل کو ملی وہ لفظوں میں بیان سے باہر ہے ۔ اللہ کے نام کے دائیں طرف ایک بڑی گھڑی بنائی گئی تھی ۔ جس میں رومن ہندسے لکھے ہوئے تھے۔ بازار سے واپسی پر ایک چرچ بھی دیکھا۔ لڑکیوں نے اس جگہ پر بھی سیلفیوں کی بھرمار کی ۔ اگر اس جگہ کی زبان ہوتی تو وہ ہم لڑکیوں کو ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتے کہ بس کرو خدا کے لئے۔ اتنا بہت ہے ۔ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا اور یوں تین گھنٹے بازار میں گزار کر ہمارا مری کا سفر اختتام پذیر ہوگیا وہ سفر جس کے لئے ہم سب مری جارہی تھیں وہ ختم ہوچکا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply