میراث۔۔۔محمود چوہدری

برطانیہ میں گاڑی کی رویژن کرانا ہر سال لازمی ہوتی ہے ۔ جس میں مکینک آپ کی موٹر گاڑی کا مکمل چیک اپ کرتا ہے اور اس کے بعد ایک سرٹیفیکیٹ جاری کرتا ہے کہ آپ وہ گاڑی روڈ پر چلا سکتے ہیں ۔ اسے ایم او ٹی کہتے ہیں ۔ ایم او ٹی نہ کروانے کی صورت میں آپ کو  بھاری جرمانہ ہوسکتا ہے ۔ مکینک کے پاس گیا تو وہ کہنے لگا تھوڑا وقت لگے گا ۔ مجھے کہنے لگا آپ دفتر میں جا کر انتظار کریں ۔دفتر میں داخل ہوا تو پتہ چلا کہ اسی دفتر میں ایک ٹیکسی بیس سسٹم بھی ان کے ساتھ جوائنٹ آپریشن کر رہا تھا ۔یعنی وہی دفتر ایک ٹیکسی کمپنی کے زیر انتظام تھا۔ جس میں ایک برطانوی لہجے میں پنجابی بولنے والا خوش لباس نوجوان ٹیکسی آپریٹر کے فرائض انجام دے رہا تھا ۔وہ میرے ساتھ بڑے اخلاق سے پیش آیا ۔پوچھنے لگا میں آپ کے لیے چائے بناﺅں ۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہنے لگا کہ اس کو فون بج گیا ۔ میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے کہا کہ آپ اپنی ڈیوٹی کریں ۔

یہ ٹیکسی بیس سسٹم اتنا پرانا تھا کہ جب کوئی سواری ٹیکسی بک کروانے کے لئے فون کرتی تو اس نوجوان کو اس علاقے میں موجود ٹیکسی ڈرائیوکو ریڈیو سسٹم سے مطلع کرنا ہوتا تھا کہ فلاں گلی سے جا کر سواری اٹھا لو۔ اوبر و دیگر جدید ٹیکسی فرم کے آجانے سے اب اس طرح کا ریڈیوٹیکسی سسٹم ختم ہوتا جارہا ہے ۔ موبائل ایپس نے ریڈیو سسٹم تقریبا ً نا پید کر دیا ہے ۔اب آ پ جب ٹیکسی بک کرتے ہیں تو اسے لمحے ٹیکسی ڈرائیور کے سسٹم پر آپ کا ایڈریس پہنچ جاتا ہے ۔ اسی ایپ میں نیوگیشن سسٹم ڈرائیور کو آپ کے ایڈریس پر لے آتا ہے اور اسی سسٹم سے آ پ آنے والی ٹیکسی کو ٹریک کر سکتے ہیں کہ آپ کا ڈرائیور آپ کے پاس کتنی دیر میں پہنچے گا اور اس وقت وہ کس جگہ پہنچا ہے ۔

خیراس ٹیکسی بیس میں میرے بیٹھتے ہی بیس میں بہت سی کالیں آنا شروع ہوگئیں ۔ میں نے جو حیران کن بات نوٹ کی وہ یہ تھی کہ نوجوان کالز تو ساری انگریزی میں ریسو کر رہا تھا ۔ لیکن ٹیکسی ڈرائیورز کی سہولت کے لئے انہیں ریڈیو سسٹم پربات پنجابی میں کرتا ۔ شاید اکثر ڈرائیور پنجابی بولنے والے ہی ہوں گے ۔ جو دوسری بات میرے لئے چونکا دینے والی اور حیرت انگیز تھی و ہ یہ تھی کہ نوجوان ٹیکسی ڈرائیورز کو ان کے نمبر سے پکارتا تو ان کے نمبر کے ساتھ جی کا لفظ استعمال کرتا۔ مثلاً وہ پوچھتا نمبر ۱۲۱ جی ، تسی کتھے او ۔ یعنی نمبر ۱۲۱ جی آپ کہاں ہیں ۔ پھر وہ کہتا ڈرائیورنمبر ۴۲ جی آپ فلا ں گلی میں چلے جائیں ۔ یا پوچھتا ۲۳۲ جی آپ کتنی دیر میں فری ہوجائیں گے ۔نوجوان کی جانب سے بولا جانے والا یہ لفظ ”جی“اور ڈرائیورز کو تسی یا آپ کا تخاطب میرے دل میں گھر کر گیا ۔ میں نے اسی وقت بیٹھے بیٹھے اندازہ لگا لیا کہ اس نوجوان کی پیدائش بھلے ہی برطانیہ میں ہوئی ہوگی ۔ اس نے بھلے ہی اپنی ابتدائی تعلیم برطانیہ میں گوروں سے لی ہوگی ۔ لیکن اس کے لہجے میں یہ ہر مخاطب ڈرائیور کو ”جی “ اور تسی آ پ کہنا ۔ اور اتنے ادب سے پیش آنا اسے ضرور اس کی ماں نے یا کسی مشرقی استاد نے سکھایا ہوگا ۔

مغربی سکولوں میں جدید طرزتعلیم تو ہو سکتا ہے لیکن کسی کو جی یا تسی کہنے والا ادب خالصتا مشرقی ہے خالصتا پاکستانی ہے ۔ اس کا اس طرح سب ڈرائیورز کو جی کہنا مجھے اپنے بچپن میں لے گیا ۔ میری ماں نے بھی مجھے یہی سکھایا کہ جو تم سے عمر میں بڑا ہو اسے چاچا جی یا ماموں جی یا بھائی جی کہہ کر مخاطب کرنا ہے کبھی اس کا نام نہیں لینا ۔ہوا یوں کہ ایک دفعہ ابا جی نے مجھے اللہ دتا نائی کو بلانے کے لئے بھیجا جو ہماری خاندانی سیپی تھا۔ میں اسے بلانے گیا تو وہ لوگوں کی حجامت بنا رہا تھا ۔ میں نے اسے جا کر کہا ”چاچا جی نائی جی “ آپ کو ابا جی بلارہے ہیں

حجامت بنوانے والے سارے چوہدری ہنسنا شروع ہوگئے ۔ کہ یہ چاچا جی نائی جی کیا ہوتاہے ۔ لیکن اللہ دتے نائی کے دل میں ہمارے خاندان کا اور ہمارے ماںباپ کی تربیت کا گہرا احترام بیٹھ گیا ۔وہ ہمیشہ یہ واقعہ بڑی محبت سے سناتا۔برطانیہ کے اس چھوٹے سے پرانے اسٹائیل کے ٹیکسی بیس پر بیٹھ کر میرے دل میں بھی اس نوجوان کی ماں یا اس استاد کے لئے ڈھیروں احترام بیٹھ گیا جس نے اپنے بیٹے کے دل میں برطانیہ میں بھی مشرقی ادب پیدا کر دیاتھا ۔

اسی طرح کا ایک واقعہ میرے ساتھ اٹلی میں بھی پیش آیا ۔ میں  اطالوی بچوں کوایک سکول میں مشرقی ثقافت پڑھانے جاتا تھا ۔ایک سکول گیا تو ایک دن ساری استانیاں اور ہیڈ ٹیچر میرے پاس آئے تو کہنے لگے کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ تمہارا بھتیجا بھی اسی سکول میں پڑھتا ہے ۔ میں حیران ہوگیا میں نے کہا کہ میرا تو کوئی بھتیجا اس سکول میں نہیں پڑھتا ۔ انہوں نے ایک بچے کا نام لیا جو ابھی ابھی پاکستان سے آیا تھا ۔مجھے یاد آیا کہ وہ بچہ مجھے مخاطب کرتے ہوئے زیو محمود انکل محمود۔۔ کہتا تھا تو سکول کے دوسرے اطالوی بچوں نے سمجھ لیا کہ میں واقعی اس کا انکل ہوں ۔کیونکہ اٹلی میں کسی بھی شہری کی عمر چاہے کتنی ہی کیوں نہ ہو اسے اس کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ اور کلا س میں استاد کو بھی اس کے نام سے پکارا جاتا ہے یہ ان کا فلسفہ ہے کہ استاد کو اگر نام سے پکارا جائے تو بچوں میں بچپن سے ہی خود اعتمادی پیدا ہوجاتی ہے ۔میں نے انہیں بتایا کہ ہمارے ہاں کسی بھی استاد کا نام نہیں لیا جاتا ، بلکہ کسی بھی اجنبی کو بھی اس کو احترام دینے کے لئے اس سے کوئی رشتہ استوار کر لینا پڑتا ہے ۔ یہ بچہ ابھی نیا نیا پاکستان سے آیا ہے تو ابھی اس کی پاکستانی تربیت جھلک رہی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

سلام ہے اس ماں کو، سلام ہے اس استاد کو ، سلام ہے اس پاکستانی تربیت کو ، سلام ہے اس ادب کے مزاج کو جوایک برطانوی نوجوان کو کسی ڈرائیور کا نام بھی نہیں لینے دیتا اور ان کے ڈرائیور نمبر کے ساتھ جی کا اضافہ کراتا ہے ۔سلام ہے ان والدین کی تربیت کو جو اٹلی کے سکول میں پڑھنے والے پاکستانی بچے کو سکھاتے ہیں کہ اپنے سے بڑی عمر کے دوسرے پاکستانی کو انکل یا زیو کہنا ہے ۔ وہ بچہ یا نوجوان شاید اب نہ جانتے ہیں کہ سوشل میڈیا کی مہربانی سے اب پاکستانی کلچر بھی پراگندہ ہو گیا ہے۔  اورر اب ہم بھی  اپنی اخلاقی میراث  کھونے کے قریب ہیں ۔  فیس بک پر بیٹھا کسی سیاستدان کا ذہنی غلام بھلے ہی کسی سیاسی حریف کو گدھی کا بچہ یا گندے القابات سے نواز کر اپنے آپ کو بڑا دانشور سمجھتا پھرے لیکن جب تک ہماری ماﺅں کی تربیت  میں مشرقی اقدار موجود ہیں  ہم شستہ انگریزی بولتے ہوئے ابھی بھی دوسروں کو جی اور  آپ کہہ کر خطاب کرتے اور اٹالین بولتے ہوئے اپنے سے بڑی عمر والے کو انکل کہتے رہیں گے  ۔ یقین مانئے احترام آدمیت کی جو تربیت ہماری ماﺅں کی گود کر سکتی ہے وہ نا آکسفورڈ کے پاس ہے ، نہ ہارورڈ کے پاس اور نہ ہی ادب کے لحاظ سے معروف ویٹی کن کی تربیت یافتہ اطالوی ثقافت کے پاس ہے ۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply