• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • عورت مارچ کی تاریخ , مقاصد اور اثرات۔۔مفتی عمیر احمد ہزاروی

عورت مارچ کی تاریخ , مقاصد اور اثرات۔۔مفتی عمیر احمد ہزاروی

8 مارچ کو عالمی سطح پر یوم خواتین منایا جاتا ہے جس سے امت مسلمہ کے اذہان میں مختلف قسم کے سوالات جنم لیتے ہیں کہ آخر وہ کون سا حق  ہے،جو اج تک اسلام اور آئین پاکستان نے عورتوں کو نہیں دلوایا ? کہ وہ آج وہی حق مانگنے نکلتی جارہی ہیں۔۔۔۔۔

اس عورت مارچ کی ابتداء دراصل ان مقاصد کے حصول کے لیے نہیں ہوئی،جس کے لیے آج یہ مارچ کیا جارہا ہے بلکہ ابتداء عورت مارچ کے مقاصد الگ تھے اور آج اسی عورت مارچ کے مقاصد الگ ہیں کیونکہ ابتداء  میں اس کا مقصد عورتوں کو  بنیادی حقوق دلوانا    ہوتا تھا جبکہ آج اس مارچ کا انعقاد فحاشی , عریانی اور بے حیائی جیسے ناپاک عزائم کے لیے کیا جاتا ہے۔

عورت مارچ کی ابتداء دراصل 1907  میں نیو یارک ہی میں ایک فیکٹری کی ملازمین کو قلیل معاوضہ دینے پر احتجاجی مظاہرے سے ہوئی، جس کے ساتھ بعد میں تقریبا ً ستر ممالک کی عورتوں نے  مل کر ایک سیمینار منعقد کیا اور اسی میں یہ قرارداد پاس کی  کہ ہر سال آٹھ مارچ کو خواتین کے حقوق کے طور پر منایا جائے گا ۔یہی قراداد 1977 میں اقوام متحدہ نے بھی پاس کرکے عالمی قانون کی حیثیت دیدی۔

اگر گزشتہ سالوں کی تاریخ دیکھ لی جائے تو  آپ کو کہیں بھی یہ بات نہیں ملے  گی کہ کسی مذہبی , سیکولر اور لبرل حلقے کےلوگوں نے اس مارچ کے خلاف جنگ کا عَلم بلند کیا  ہو ،لیکن آج آخر کیا وجوہات ہیں کہ تمام حلقوں کے لوگوں نے اس کے خلاف میدان جنگ میں عملی طور پر قدم رکھا ہے۔

دراصل انہی مارچ میں عورتوں نے ایسے نعرے بلند کیے جس سے پاکستان کے عوام میں اشتعال پیدا ہوا،کیونکہ دو تین سالوں کے علاوہ اب تک آٹھ مارچ کو خواتین مارچز ہوئے ہیں ان سب میں اب تک کوئی غیر اسلامی , غیر آئینی  اور غیراخلاقی نعرہ نہیں لگایا تھا لیکن اب انہوں  نے اپنا مقصد ترک کرکے غیروں کے پیروکار بن کر ایسے عجیب وغریب نعرے, پلے کارڈز , بینرز وغیرہ استعمال کیے جس پر ہر حلقے کے لوگوں نے مذمت کی جس میں صرف مذہبی لوگ شامل نہیں تھے بلکہ سیکولر , لبرل اور ماڈرن خواتین نے بھی مختلف اخبارات , ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر مذمتی کالمز لکھے سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ سب کسی خاص این جی اوز اور ذہن سازی کے  تحت ہوا، کیونکہ خواتین کے مسائل اور ہیں اور ان کے پلے کارڈز و بینرز   پر کچھ اور لکھا  ہے،جو لکھا گیا وہ دیکھنے , سننے اور کہنے کے  قابل نہیں، جس سے دین واسلام , پاکستان , پاکستانی عوام , پاکستانی قومیت , غیرت , حمیت , شناخت , آئین پاکستان اور شعائر اسلام کا مذاق اڑایا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان میں یہ لوگ آستین کے سانپوں کا کردار ادا کرتے ہوئے سادہ لوح عوام کے ذہنوں میں عجیب و غریب شکوک و شہبات پیدا کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔۔۔۔
لہذا، ان لوگوں سے خود بھی بچتے رہیے اور دوسروں کو بچاتے رہیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply