کشمیر کی سنو ۔۔۔ محمد فیاض حسرت

زمانے میں رہا تیری طرح اب تو نہیں کوئی
کسے غم ہو جہاں تیرے سوا آزاد ہے سارا ( م ف ح)
ہاں میں کشمیر ہوں ، ہاں وہی کشمیر جس کو خدا نے جنت کی صورت بنایا تھا مگر اب وہ کشمیر ، کشمیر نہیں رہا ۔ دنیا والوں نے میرے چار ٹکڑے کیے اور پھر ان چارٹکڑوں کو چارسو پھینک دیا ۔ ایک ٹکڑا مشرق کی اور ، ایک ٹکڑا مغرب کی اور ،   ایک ایک ٹکڑا شمال و جنوب کی اور پھینک دیا ۔ لوگ مجھ کو دنیا کی جنت کہتے ہیں ، ارے لوگو ! کہاں کی جنت ؟ کیسی جنت ؟ اب تو حال یہ ہے کہ میرے چار ٹکڑے چارسو بکھرے پڑے ترستے ہیں کہ ہم پھر سے واپس ایک ہو جائیں ، ہم پھر سے جڑ جائیں مگر ایسا ہونا کہاں ممکن ہے ؟
تری اک سمت ہوتی تو کوئی صورت نکلتی نا
بٹا بھی چار سُو ہائے ، ترا کیسا مقدر ہے ( م ف ح)
اے دنیا والو !مجھ میں بستے لوگوں نے میرے ٹکڑوں کو سمیٹنے کی کوشش تو بہت کی ، یہاں تک کہ اپنی جانیں مجھ پر نثار کر دیں ۔ یہاں کوئی گھر ایسا نہیں جس میں سے کوئی لاشہ نہ اٹھا ہو ، یہاں کوئی گھر ایسا نہیں جس میں بچے نہ یتیم ہوئے ہوں ، یہاں کوئی گھر ایسا نہیں کہ جس میں بیویاں بیوہ نہ ہوئی ہوں ، یہاں کوئی گھر ایسا نہیں جس نے اپنا لہو نہ پیش کیا ہو ، یہاں کوئی گھر ایسا نہیں کہ جس میں ماں نے اپنے بچے قربان نہ کیے ہوں  ۔
پرندے پھڑپھڑا کے گر رہے ہر روز جنت میں
پریشاں ہیں فرشتے بھی کہ کیوں ایسا یہ منظر ہے (م ف ح)

یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں جب ان کے کسی اپنے کا لاشہ اٹھتا ہے تو یہ روتے نہیں ، یہ رونا چاہیں بھی تو ان کی آنکھوں سے اشک نہیں ٹپکتے ، ان کے چہرے پر خوشی کے آثار پہلے سے بڑھ کر نمودار ہوتے ہیں ۔ اور عہد کر تے ہیں کہ جو ہو جائے یہ دنیا والے کچھ بھی کر جائیں ہم ڈرنے والے نہیں ، نہ موت سے نہ کسی اور سے جب تک ہمارے اندر لہو کا آخری قطرہ رہے گا ہم ان چار ٹکڑوں کو سمیٹنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور وہ دن دور نہیں جب ہم اس میں کامیاب ہوں گے ۔
اب کشمیر سے پوچھیے !
ہوئی سرزد بتا کشمیر تجھ سے کیا خطا آخر؟
ملی تجھ کو یہ کیوں ہائے غلامی کی سزا آخر؟
گلہ تجھ سے لیے لاکھوں چلے آئے تری جانب
کہ دیکھ آئیں ، ہماری کیوں نہیں سنتا خدا آخر؟
تری خاطر ترے ہر فرد نے جاں وار دی تم پر
مگر پھر بھی تجھے کیونکر نہیں ملتا صلہ آخر ؟
بھلا جنت میں بھی کوئی غلامی کا تصور ہے ؟
تصور یہ مقدر کیوں بنا کشمیر کا آخر ؟
تجھے امید تھی اب فیصلہ تیرا وہاں ہوگا
خدا کے در بھی ٹھکرائی گئی تیری دعا آخر ؟
سبھی ماں نے کیے لختِ جگر قرباں مگر اب بھی
وہ سوچے ہے کہ اب قرباں کروں میں اور کیا آخر؟
ہماری چاہ بارے بھی، کوئی تو پوچھتا ہم سے
ہمیں خاموش رکھ کر کیوں کِیا یہ فیصلہ آخر؟
غلامی کا ڈسا حسرت نہ جی پائے نہ مر پائے
خدایا اب کہاں سے لاؤں میں اس کی دوا آخر؟

Advertisements
julia rana solicitors

( م ف حسرت )

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply