نیل کے سات رنگ-قسط9/انجینئر ظفر اقبال وٹو

یہ ہنگامہ تھوڑی دیر جاری رہا اس کے بعد مقامی سیکیورٹی والے بس میں سوار کچھ ا فراد کو گرفتار کرکے ساتھ لے گئے- ہم بھی دیوار کی اوٹ سے نکل کر گاڑی میں اکر بیٹھ گئے –اتنی دیر میں اغبش بھی چوکی سے واپس آگیا – وہ بتا رہا تھا کہ مقامی سیکیورٹی والے ہمیں آگے دریسا ڈیم سائٹ پر جانے کے لئے نہیں چھوڑ رہے تھے کیونکی حالات کشیدہ تھے-وہ الجنینہ میں اپنے باس سے رابطہ کر رہا تھا تاکہ وہ منسٹر سے کہ کر کوئی راستہ نکال سکیں- دن کا ایک بج ریا تھا اور ہمارے پاس ڈیم سائٹ پر جانے کا وقت کم سے کم ہو رہا تھا کیونکہ ہم دن کی روشنی میں ہی وہاں جا سکتے تھے -اتنے قریب آکر ڈیم سائٹ دیکھے بغیر واپس جانے کا مطلب اپنے پچھلے سات ماہ کے انتظارر پر پانی پھیرنا تھا-
کچھ دیر گاڑی میں بیٹھنے کے بعد میں اور شاہ جی چائے کی تلاش میں نکل پڑے-شاہ جی کو جامنی کپڑے والی چائے والی کا ‘ٹھیا ‘ اسی ‘ہیری پوٹر’ والی سرائے کے ساتھ ہی نظر آگیا تھا اور وہ میرا ہاتھ پکڑ کر ادھر کھینچتے لے گئے تھے- آپ کو سوڈان کے طول و عرض میں ہر جگہ ان چائے والیوں کے ٹھئے نظر آیئں گےجن کے پاس عربی گہوئے کی مختلف قسمیں،بلیک ٹی،دودھ والی چائے، مقامی کافی وغیرہ مل جاتی تھیں-ان کے ٹھئے زیادہ تر فٹ پاتھوں پر ہوتے جن کے ارد گرد چوکیوں پر آٹھ دس لوگ بیٹھے مشروب پی رہے ہوتے اور آپس میں گپ شپ لگا رہے ہوتے- یہ چائے والی بھی گپ شپ میں ‘بار ٹینڈر’ کی طرح شریک ہوتی لیکن اس کا سارا دھیان چائے بنانے اور برتن صاف کرنے پر ہوتا- ہمیں اکثر مقامی معلومات ان ٹھئوں سے ہی ملتیں-
شاہ جی نے پودینے والی سبز چائے کا آرڈر دیا اور ہم وہاں پڑی چوکیوں پر بیٹھ گئے-ادھر بیٹھے لوگ ابھی تازہ پیش آنے والے واقعے پر گفتگو کر رہے تھے – ‘جبل مرہ” سے واپس آنے والے مزدوروں کی لڑائی زیر بحث تھی- ‘جبل مرہ’ کا نام سن کر جسم میں ہلکی سی گدگدی ہونے لگی تھی کیونکہ یہ سوڈان کی ان جگہوں میں سے تھی جو میری سوڈان کی “ضرور” دیکھنے والی جگہوں کی لسٹ میں شامل تھیں- میں کم از کم ایک رات کے لئے اس کی چوٹی پر واقع قدرتی جھیل پر کیمپ کرنا چاہتا تھا جہاں رات کو پریاں اترتی تھیں – یوں تویہ پہاڑی کوئی پچاس سے ساٹھ کلومیٹر کے وتر والے دائرے کی شکل میں پھیلی ہوئی تھی لیکن یہ جھیل اس کے بالکل مرکز میں واقع پہاڑی چوٹی کے بالکل اوپر تھی- یہ چوٹی ایک کیل کی مانند زمین میں گڑی ہوئی تھی جس نے پیڈسٹل فین کے تین پروں کی طرح عظیم تر دارفور کی تینوں ریاستوں کو ایک مرکز پر اکٹھا پکڑ کر رکھا ہوا تھا کی شائد وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جایئں- ان تینوں ریاستوں کی سرحد یں اس جھیل پر آپس میں ملتی تھیں اور جبل مرہ پہاڑی کا تقریبا ایک تہائی حصہ ہر ایک ریاست میں آتا تھا-
‘جبل مرہ’ عظیم تر دارفور کی تینوں ریاستوں کے لئے ایک ماں کی حیثیت رکھتی تھی جس کے دامن سے پھوٹنے والے پانی کے سوتوں پر تینوں ریاستوں کی زندگی کا دارومدار تھا-اور یہ بھی ایک ماں کی طرح سب کا خیال رکھتی تھی-اس کے مشرق کی طرف سے جانے والے بارشی اورس سیلابی دریاؤں اور نالوں پر مشرقی دارفور ریاست کا انحصار تھا- مشرقٰ دارفور کے دالحکومت ‘الفاشر” کے پاس سے گزرنے والی”گولو” وادی پر ہم سلسلہ وار چار ڈیم بنا نے کے پراجیکٹ کا ڈیزائن کررہے تھے- جو الفاشر کے پینے کے پانی کی ضروریات کے علاوہ گولو وادی کے اطراف کی زمینوں پر کھیتی باڑی اور میاجرین کے کیمپوں کی پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے مقصد کے لئے استعمال ہونا تھے- اسی طرح ‘جبل مرہ” سے جنوب کی طرف جانے والے بارشی اور سیلابی پانیوں پر جنوبی دارفور ریاست کا انحصار تھا جس کے دارلھکومت “نیالہ” کے قریب ہم دو ڈیم بانے کے منصوبے پر ڈیزائن کا کام کر رہے تھے-
‘دریسا’ ڈیم بھی جبل مرہ سے مؑرب کی طرف جانے والے بارشی اور سیلابی پانیوں کے رستے عظیم تر وادئٰ “ازووم” پر بنانے کا منصوبہ تھا جس کے لئے ہم اس وقت ‘مورنی’ کے مرکزی اسکوائر میں ‘ایکشن” کے بلکل درمیان موجود تھے- تاہم دارفور کی ماں ‘جبل مرہ’ آج کل ان سے ناراض تھی –اس نے ان کی خانہ جنگیوں سے تنگ آکر ان کی طرف جانے والے بارشی پانیوں کو روک لیا تھا لہذا خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ ہی لوگ خشک سالی اور قحط کے عذاب سے بھی دوچار تھے- ‘جل مرہ” کی چھاتیاں ان کو پانی پلا پلا کر سوکھ چکی تھیں – اب ان کو ڈیم بنانے کا خیال آیا تھا- شائد اس طرح یہ ان سے خوش ہو کر دوبارہ سیلابی پانیوں کو ان کی طرف بھجنا شروع کر دیتی-
‘جبل مرہ” پانی کے ساتھ ساتھ کئی اور خزانوں کو بھی اپنے اندر سمائے ہوئے تھی-یہاں یورینئم کے اچھے خاصے ذخائر موجود تھے جن پر دسترس کے لئے شائد اس علاقے کے امن وامان کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خراب کیا گیا تھا- عالمی طاقتوں کی اس علاقے میں خاص دلچسپی تھی اور کئی یورپی ادارے مختلف طریقوں سے اس علاقے میں کام کر رہے تھے – یو این کی افواج کا بھی تینوں ریاستوں میں آکر بیٹھ جانا اس سلسلے کی ایک کڑی تھی-ہم نے اپنے کام کے دوران ان اداروں کی دارفور میں بے انتہا دلچسپی دیکھی جو سوڈان کے باقی پر امن علاقوں میں نہ تھی-اپنے پراجیکٹوں کے ڈیزائن کے سلسلے میں معلومات اکٹھی کرتے ہوئے ہمارے ہاتھ کچھ یورپی اداروں کی ایسی دستاویزات بھی لگ گئی تھیں جو ہمارے لئے بہت حیرت کا باعث تھیں اور ہمیں خطرے میں بھی ڈال سکتی تھیں-
میں اپنے خیالوں سے اس وقت بایر آیا جب چائے والی نے پودینے والا قہوہ اور پانی کا گلاس میرے سامنے تپائی پر رکھا- اتنی دیر میں شاہ جی اس سے اس کا نام معلوم کر چکے تھے- ‘ہالا’ تقریباً بیس سال کی عمر مہاجرلڑکی تھی جو تھوڑی ٹوٹی پھوٹی انگلش بول سکتی تھی- چائے رکھنے کے بعد اس نے پو چھا کی’آپ لوگ کہاں جا رہے ہیںٌ- شاہ جی نے مجھ سے پہلے ہی جواب دیا کہ “دریسا” گاؤں کے پاس ڈیم کی سائٹ دیکھنے’- میں نے ناراضگی سے شاہ جی کی طرف دیکھا کی اس طرح منزل کا پتہ دینا سیکیورٹی پروٹوکول کے خلاف تھا- لیکن اتنی دیر میں ‘ہالا’ کی آنکھوں سے آنسو چھم چھم برسنا شروع ہو گئے تھے- گو وہ ہماری طرف نہیں دیکھ رہی تھی اور چائے بنانے میں مصروف تھی مگر اس کی آنکھوں سے آنسؤوں کی جھڑی لگ چکی تھی- وہ بار بار دوپٹے سے اپنے آنسو پونچھ رہی تھی- اس کی بڑی بڑی افریقی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں- وہ اپنے کالی حنا لگے ہاتھوں سے بار بار اپنے آنسؤوں کو پونچھ رہی تھی-شاہ جی کا دل اس کے رونے سے “خفا” ہو رہا تھا- ہمیں سمجھ نہیں آرہی تھی کی اس کو کیا ہو گیا ہے-
میں نے ماحول بدلنے کے لئے اس سے پوچھا کی وہ انگریزی کیسے جانتی ہے- اس نے بتانا شروع کیا کہ خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے ان لوگوں کا ہنستا بستا خاندان ‘دریسا’ گاؤں میں مقیم تھا اور وہ وہاں کے مقامی سکول میں ساتویں تک پڑہی تھی-پھر ایک دن جنجوید آگئے اوران کے سارے گاؤں میں لوٹ مار کی- جو سامنے آیا اس کو ختم کردیا- گھروں اور غلے کے ذخائر کو آگ لگا دی- اسے اور کچھ اور جوان لڑکیوں کو گاؤں کے کچھ لوگوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر جنجوید کے ظلم کا شکار ہونے سے بچایا تھا- وہ کئی دن کی بھوک پیاس اور جان کے خطرے کے باوجود پیدل چلتے چلتے ‘مورنی ‘ پہنچی تھین جہاں وہ ایک کیمپ میں مقیم تھیں- چند سال بعد ایک مہاجر نے ا کو اپنی تیسری بیوی بنا لیا تھا اور تب سے وہ اس کے ساتھ رہ رہی تھی-
اسے نہیں پتا تھا کی اس کے باقی بین بھائیوں اور والدین کے ساتھ کیا بیتی تھی – کیا ان کو قبر بھی نصیب ہوئی تھی یا ان کی لاش کو بھی جلا دیا گیا تھا- وہ تب سے مورنی سے باہر نہیں نکلی تھی- آج ہمارے ‘دریسا’ جانے کا سن کر وہ بے قرار ہو گئ تھی- اسے اپنے والدین کی قبروں پر مٹی ڈالنے جانا تھا-شاید اس کی گڑیا ابھی بھی ان کے سرخ اینٹوں سے بنے کمرے کی کسی ‘کنس’ پر پڑی ہو-شائد ابھی بھی اس کے سکول سے “ایک دونی دونی دو دونے چار” کی آواز آرہی ہو-شائد ان کی لمبے سینگوں والی گائے ابھی بھی باڑے میں بندھی ہو اور اسے کسی نے پانی نہ پلایا ہو-وہ اپنی ‘مانو بلی” کو دیکھنا چاہتی تھی- وہ رو رہی تھی اور اس کی خاموشی ہمیں کہ رہی تھی کی ‘دریسا’ کے درودیوار کو میرا سلام کہنا جس کی ہر گلی میں میرا بچپن پڑا ہے-میرے بابا کی قبر پر دہ مٹھی مٹی ہی ڈال دینا-ہان شائد وہ یہی کینا چاہ رہی تھی-

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply