کرونا وائرس اور میڈیا۔۔ منصور مانی

جنوری کے آخر میں چائنہ سے کچھ احباب کے پیغام وصول ہوئے۔کہ کوئی وائرس ہے جس کا نام کرونا ہے اس نے وہان نامی شہر میں بہت جانی نقصان کیا ہے اس کے بعد کچھ پاکستانی طلبہ کی وڈیوز بھی موصول ہوئیں جسے میں نے اپنے ایک شو میں آن ائیر کروایا اور اس پر بات کی اس وقت تک ہمارا فوکس صرف یہ تھا کہ ہمارے پاکستانی چائنہ میں مصیبت میں ہیں اور ان کی مدد کرنی چاہیے۔اس وقت پاکستان کے کسی بھی میڈیا ہاوس کا فوکس یہ نہیں تھا کہ یہ وائرس پاکستان آ سکتا ہے۔
ہماری بدقسمتی کہ کرونا پاکستان آ گیا۔
کرونا کے پاکستان میں آتے ہی میڈیا کے ہاتھ میں ایک ایسا کونٹینٹ آ گیا کہ جس نے سیاست سمیت ہر چیز کو پس پشت ڈال دیا۔
پاکستان کا ہر چینل ہر اخبار کرونا پر خبریں کالمز تجزیے اور شوز کرنے لگا۔
ڈاکٹرز پیرا میڈیکل اسٹاف معاشرے کے ہیرو ثابت ہوئے جو اس عالمی وبائی مرض کرونا سے لڑ رہے تھے اور لوگوں کو بچا رہے تھے صوبائی حکومتیں اور وفاق کچھ جاگ رہے تھے اور کچھ سو رہے تھے۔
پھر اس وائرس نے زور پکڑا اور پاکستان میں کرونا کے کیس بڑھنے لگے تعداد آج ہزار سے اوپر جا چکی ہے۔۔!
سندھ حکومت 3 ارب کا فنڈ اس کے لیے وقف کر چکی ہے وفاق اس پر فنڈز کا اعلان کر چکا ہے چائنہ 4 ملین ڈالر دے چکا ہے ایشین ڈیلوپمینٹ بینک پچاس ملین ڈالر دے چکا ہے۔

لاک ڈاون لگ چکا ہے کرفیو کا عالم ہے۔ پاکستان خاص کر سندھ کے پچانوے فیصد عوام اپنے گھر میں بیٹھے ہیں۔ تمام تعلیمی ادارے نجی کمپنیز کارخانے ہر چیز بند ہے۔۔
اہسپتال عوام کے لیے کھلے ہیں ڈاکٹرز اور پیرا میڈیک اسٹاف اپنا کام۔کر رہا ہے اور تعریف کا مستحق ہے۔
پولیس رینجرز اور فوج تک آ چکی ہے اور عوام کے لیے اپنی ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں یہ سب تعریف کے مستحق ہیں سب ان کو سلام پیش کر رہے ہیں۔۔۔! کرنا بھی چاہیے! یہ ادارے اپنے پورے وسائل، بہترین آلات اور حفاظتی چیزوں سے لیس آپ کے لیے کھڑے ہیں!
لیکن کیا آپ جانتے ہیں پاکستان میں ایک ایسا شعبہ بھی ہے جس کے پاس وسائل نہیں اور نہ ہی حفاظتی سامان چند ایک کے علاوعہ۔۔!
کیا آپ جانتے ہیں اس شعبے کے لوگوں کو کئی کئی ماہ تنخواہ بھی نہیں ملتی۔۔!
یہ وہ شعبہ ہے جو چوبیس گھنٹے جاگتا ہے ہفتے کے سات دن اور سال کے تین سو پینسٹھ دن یہ جاگتا ہے اس کے لوگ اپنی عوام کے لیے جاگتے ہیں ان کے لیے سوچتے ہیں!
یہ شعبہ ہے خبر کا۔۔۔!
یہ فیلڈ ہے میڈیا کی۔۔!
یہ بات ہے صحافیوں کی۔۔۔!
یہ میڈیا تھا جس نے آپ کو بتایا کہ کرونا کیا چیز ہے!
یہ میڈیا تھا جس نے آپ کو آگاہی دی کے کرونا سے کیسے بچنا ہے!
یہ میڈیا ہی تھا جس کی بدولت سندھ حکومت بروقت ایکشن لینے میں کامیاب ہوئی۔۔!
یہ میڈیا ہی تو ہے جو آپ کو مسلسل ہر لمحے کی خبر دے رہا ہے آپ سے آپ کی سلامتی کی اپیل کر رہا ہے!
یہ میڈیا ہی ہےجس کی وجہ سے لاک ڈاون کا فیصلہ لیا گیا۔۔!
یہ میڈیا یہ تھا جس لی بدولت آئسیشنز سنٹرز میں جاری عوام۔کے ساتھ بدسلوکی کو روکا گیا۔۔!
یہ میڈیا ہی کا خوف تھا جس کی بدولت سرکاری اہسپتالوں میں عوام کے لیے سہولیات کو بہتر بنایا گیا
یہ میڈیا ہی ہے جس کی وجہ سے اروبوں روپوں کے فنڈز جاری کیے گئے!
یہ میڈیا کا ہی خوف ہے جو ان فنڈز کو کام۔میں لایا جا رہا ہے کرپشن کم ہے۔۔!
ہم نے آپ کو آگے رکھا ہر خبر دی بتایا کرونا مریضوں کے پاس گئے آئسولیشنز سینٹر میں گئے روڈ پر۔نکلے اور نکل رہے ہیں۔۔!
آج کئی صحافیوں کو کرونا لگ چکا ہے!
اس کے باجود صحافی روز اپنی ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں ڈرے نہیں پیچھے نہیں ہٹے!
جب آپ سوشل میڈیا پر لکھتے ہیں کہ صحافی تو لفافے لیتے سنسنی پھیلاتے اس وقت صحافی لاک ڈاون میں پولیس یا رینجرز کے ہاتھوں زلیل ہو رہا ہوتا کہ اسے اپنے ادارے جانا ہے خبر دینی ہے! اور وہ خبر آپ کے لیے ہوتی ہے!

جس وقت آپ ٹک بسکٹ میں کتنے سوراخ ہیں اور آپ کے گھر میں کتنی ٹائلز ہیں بتا رہے ہوتے اس وقت صحافی سنسان سڑک پر گھر واپسی کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔۔!
آپ اپنی فیملی کے پاس ہوتے ہیں اور صحافی اپنی فیملی سے دور ہوتا ہے صرف آپ کی آگاہی کے لیے!

Advertisements
julia rana solicitors london

جنگ ہوتی تو سرحد پر ہوتا ہے کہ آپ کو خبر دے سکے آپ کی دعائیں اپنی فوج کے لیے ہوتی ہیں اور نظریں خبروں پر ان خبروں پر جو سرحد پر کھڑے صحافی آپ کو دے رہے ہوتے جن کے لیے آپ کے پاس دعا نہیں بس سوال ہوتے ہیں۔۔!
ملکی حالات اچھے ہوں یا خراب بروقت اطلاع آپ کو صحافی ہی دیتا سیاست کی بات ہو یا ملکی معیشت کی خبر تو آپ کو ہم۔سے ہی ملتی اور آپ بھی تو ہر مشکل اور پریشانی میں میڈیا ہی کو پکارتے کہتے کہ اگر میڈیا پر آ گیا تو بات بن جائے گی آپ کی بات تو بن ہی جاتی ہے!
نہیں بنتی تو بس ہماری۔۔!
بارش گرمی سردی دھماکے وبا عید محرم آپ رک سکتے ہیں گھر میں رہ سکتے ہیں
ہمیں مگر نکلنا ہوتا ہے ہمارے لیے کوئی چھٹی نہیں۔۔!
ہمارے لیے آپ کے پاس صرف گالیاں ہیں ستائش نہیں وہ آپ فوج پولیس ڈاکٹرز اور باقی لوگوں کو۔دیتے ہیں!
ہم مار دیے جاتے ہیں کبھی بھوک سے تو کبھی تشدد سے کبھی گولی سے تو کبھی لاپتہ کر دیے جاتے ہیں اور جانتے ہیں کس جرم میں۔۔؟؟؟
آپ کو سچ بتانے کے جرم میں!
آپ۔کو سچ دکھانے اور بتانے کے جرم میں ہم گولی بھی کھاتے ہیں اور گالیاں بھی۔۔!
لیکن ایک بات ہے گولی سے صرف جان نکلتی ہے!
لیکن آپ کی گالی سے دل ٹوٹ جاتا ہے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں۔یہ۔سب نہیں۔لکھتا اگر میری نظر اس اسٹیٹس پر نہیں پڑھتی اس اسٹیٹس میں چھپا دکھ شاید آپ نہیں سمجھ پائیں یہ ہمارے دوست امتیاز احمد نے لکھا تھا امتیاز ڈی ڈبلیو نیوز جرمنی میں ہوتے ہیں آپ نے لکھا
“ماشااللہ سے میں اتنی متبرک فیلڈ میں آیا ہوں۔ ان آفتوں کے دور میں ہر اُس شخص کی تعریف کی جا رہی ہے، جو سروس فراہم کر رہا ہے۔ ڈاکٹروں، نرسوں، رضاکاروں، خوراک تیار کرنے والوں، فروخت کرنے والوں حتی کہ ڈنڈے مارنے والی پولیس کی تعریف بھی کی جارہی ہے۔
لیکن ماشااللہ، میڈیا والوں کو سارے سال کی طرح اب بھی حسب توفیق گالیاں ہی پڑ رہی ہیں۔”
منصور مانی میں عوام

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply