• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • واقعہ کربلا،اسلام اور انسانیت کی بقاء کے لیےا ہل بیت اطہار کی عظیم قربانی۔۔۔عمران علی

واقعہ کربلا،اسلام اور انسانیت کی بقاء کے لیےا ہل بیت اطہار کی عظیم قربانی۔۔۔عمران علی

” اسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ رہتی دنیا تک واحد ایسا آفاقی مذہب ہے کہ جس کے پاس اس کے پیروکاروں کے لیے تا ابد قرآن مجید کی صورت میں نسخہ ہدایت موجود ہے، جو کہ زندگی کے تمام پہلوؤں کا نہ صرف احاطہ کرتا ہے بلکہ ہر معاملے میں مکمل اور بھرپور معاونت بھی کرتا ہے، ہمارے پیارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوری دنیا میں دین اسلام کو اس طرح سے پھیلایا کہ آج بھی دینا کی 100 عظیم ترین ہستیوں پر لکھی جانے والی کتاب میں  آقا کا نام سر فہرست لکھا گیا، بلاشبہ آپ بعد از پروردگار عالم کائنات کی عظیم ترین ہستی ہیں،آپ کی ہی نسبت سے آپ کے اہل بیت کائنات کی عظیم ترین ہستیاں ہیں، حضرت امام حسین علیہ السلام آپ کے جان سے پیارے نواسے، جناب حضرت امام حسن علیہ السلام کے چھوٹے بھائی، جناب سیدہ فاطمہ زہرا کے لعل اور جناب حضرت علی علیہ السلام کے نور چشم تھے، حضرت امام حسین علیہ السلام کی تربیت کائنــــات کی عظیم ترین ہستیوں کے ہاتھوں سے ہوئی کہ جن کی مثال کائنات میں نہیں مل سکتی، آپ کی ذات نہایت ہی اعلیٰ و ارفع خصوصیات کی مرکب تھی، آپ بچپن سے ہی عابد، ساجد اور شجاعت کا پیکر عظیم تھے، آپ کو دین اسلام کی محبت نانا، بابا، بھائی اور والدہ کی گود سے ہی ایسی ملی تھی کہ آپ سراپا   دین اسلام تھے، آپ کو یزید کی نیت معلوم تھی کہ یہ فاسق و فاجر انسان کسی طور بھی اسلام کے بنیادی قواعد و ضوابط کی پاسداری نہیں  کرے گا، یزید خلافت کی آڑ میں اسلامی نظام کو تباہ کرنا چاہتا تھا، جب آپ کربلا کی طرف روانہ ہوئے تو آپ کو راستے میں ہی حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کی شہادت کی غمگین خبر مل چکی تھی، جس سے یزید کے ناپاک ارادے مزید عیاں ہو گئے، کوفہ سے کربلا کی طرف کرفیو کا سماں تھا۔ہر طرف لشکر ابن زیاد کا پہرہ تھا ۔کسی کو کوفہ سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی، نہ کوفے میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔رات کی تاریکی میں حبیب ابن مظاہر بےچین اپنے گھر میں ٹہل رہاتھا اور زیرلب یہی کہہ رہا تھا۔مولا حسین علیہ السلام کوفے کی طرف عازم تو نہیں خدا خیر کرے، کوئی  خبر نہیں کیسے مولا تک پہنچوں ۔اسی اثناء میں دروازے پر بڑی مدھم دستک ہوئی۔حبیب فوری تلوار لیکر دروازے کی طرف لپکا اورجرات سے پکارا کون ہے آوازآئی حبیب دروازہ کھولو عبداللہ ہوں تیرے لئے ایک خبر ہے ۔حبیب نےفوری عبداللہ کو اندربلایا اور اس سے خبرکےمتعلق پوچھنا شروع کیا۔حبیب بڑی مشکل سے آپ تک پہنچاہوں ہر طرف پہرہ ہے یہ ایک خط مجھے دیا گیا تھا آپ تک پہنچادوں اس کے علاوہ دیگر معززین کےنام بھی حسین ابن علی کے خط ہیں کچھ پکڑے گئے ہیں اور کچھ پہنچ چکے ہیں۔آپ کی قسمت اچھی تھی یہ خط آپ تک پہنچ گیا ۔مجھےاجازت دیں لشکر والے انتظار کررہے ہونگے۔خدا تمہاری اس عبادت کو قبول فرمائے اے عبداللہ لشکر ابن زیاد میں ہوتے ہوئے فرزند زہرا کے لئے خدمت انجام دیتے ہو، خدا اس کا اجر عطاکرے ۔عبداللہ اجازت لیکر چلاگیا۔حبیب نے بے چینی سے خط کو سینے سے لگایا ۔بوسہ لیا اور کھول کر پڑھنے لگا۔ سلام ہو میرے دوست حبیب ابن مظاہر میں حسین اپنے اہل و عیال کے ساتھ سرزمین نینوا میں گھیر لیا گیا ہوں ہوسکے تو وعدے کے مطابق میری نصرت کو آؤ۔جلد پہنچ جانا ورنہ عصر عاشور کے دن خدا کے دربار  میں ملاقات ہوگی ۔والسلام حسین فاطمہ، حبیب نے اشکبار آنکھوں سے خط کو بوسہ دیا ۔فوری اپنے اہل وعیال کو چند وصیتیں کیں۔ غلام کو فوری بھیجا چند دیگر مصاحبوں تک خبر پہنچانے کے لئے اور صبح کے قریب کوفے سے نکلنے کا عزم کرلیا۔ تھوڑی دیر میں حبیب اپنے چند باوفا دوستوں کےساتھ کوفے کے جنوبی حصے کی طرف جمع ہوگئے اور پلان یہ بنایا کہ مختلف اطراف سے کربلا کی طرف پہنچا جائے۔درہم ودینار ساتھ رکھے گئے تاکہ رستے میں آنے والے لالچی پہرے داروں کو خریدا جاسکے۔حبیب اور اس کا غلام تیزی سے کربلا کی جانب نکل پڑے ۔ ادھر خیمہ گاہ حسینی میں حسین ابن علی شہدائے کربلا کے انتظار میں موجود ہیں ۔کہ کب یہ بہتر72 پورے ہونگے اور حسین مقتل کو اپنے خون سے سرخ کریں گے۔ حبیب ابن مظاہر بڑی سرعت سے کربلا کی طرف رواں دواں ہیں ۔اچانک حبیب کو دور لشکر ابن زیاد کا ایک جم غفیر نظرآتا ہے جو خیمہ زن ہیں اور ہر طرف لشکر ابن زیادکے خیمے نظرآرہے ہیں ۔حبیب ابن مظاہر نےخود کو کسی ٹیلے کی اوٹ میں چھپا لیا اور رات ہونے کا انتظار کرنے لگے ۔ایک ایک لمحہ حبیب پر گراں گزر رہا تھا ۔بس کسی طرح مولا حسین ابن علی کی خدمت میں پہنچوں ۔حسین ابن علی کےخط نے حبیب کو بہت پریشان کردیا تھا ۔کیونکہ مولا نے حسین فاطمہ لکھا تھا اور یہ لفظ حبیب جیسا بامعرفت سمجھتا تھا کہ عالم غربت میں لکھا جاتا ہے ۔اپنے غلام سے حبیب نے کہا توجاسکتا ہے میں تجھے آزاد کرتا ہوں کربلا پہنچ چکا ہوں رات کو اپنے مولا کی خدمت میں پہنچ جاؤں گا مگر غلام بھی بامعرفت تھا کہنے لگا میرے آقا کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اس مصیبت کی گھڑی میں حسین ابن علی کو تنہا چھوڑ دوں جب تک زندہ ہوں آپ کے ساتھ رہوں گامجھے اس سعادت سے محروم نہ کریں ۔حبیب نے غلام کےحق میں دعا کی۔رات کےوقت حبیب غلام کو ساتھ لے کر آہستہ آہستہ خیام کی طرف بڑھنے لگا ۔اچانک ایک تیز اورمانوس آواز نے حبیب کو رکنے پر مجبور کردیا۔یہ ابالفضل العباس کی آواز تھی خبردار رک جاؤ، یہ خیام حسینی ہے ۔اگر کسی غلط ارادے سے آگے آرہے ہو تو خدا کی قسم عباس کے غضب سےنہیں بچ سکو گے۔حبیب نے آواز دی یا عباس میرا سلام ہو ۔میں حبیب ابن مظاہر ہوں کوفے سے آرہا ہوں ۔مولا عباس نےفوری حبیب ابن مظاہر کا استقبال کیا اور حبیب ابن مظاہر کو خیام حسینی میں لے گئے ۔چند لمحوں میں حبیب اپنے مولا وآقا حسین ابن علی کی خدمت میں پہنچ گئے ۔حبیب نے کانپتے ہاتھوں سے حسین ابن علی کو سینے سے لگایا اور زارو قطار رونے لگے ۔میں قربان جاؤں اے فرزند فاطمہ آپ کو اشقیاء نے گھیر لیا ہے ۔جب تک میری رگوں میں خون کا ایک ایک قطرہ ہے میں آپ کی حفاظت کروں گا۔مولا حسین نے حبیب ابن مظاہر کے حق میں دعا کی۔کوفے کے حالات پوچھے اور سخت نالاں ہوئے کیونکہ حبیب نے کوفے کے صحیح حالات مسلم کی شہادت سے لیکر ابن زیاد کی سختیوں تک سب کا کھل کر ذکر کیا۔کس طرح ابن زیاد اپنی سازش اور ظلم سے لوگوں کو ڈرا اور بہکا رہا ہے ۔اور کوفے والے بھی ڈر کر خاموش ہوگئے ہیں ۔یہاں مولا نے ایک آہ بھری اور لوگوں کےحق میں دعا کی۔اور ابن زیاد پر نفرین کیا جس نے مسلم اور ہانی کو بیدردی سے شہید کیا۔ حبیب ابن مظاہر منتظر تھا کہ کب اس کی جان حسین ابن علی پر فدا ہو کیونکہ حبیب کو بشارت تھی کہ وہ اشقیاء کےہاتھوں شہید ہونگے اور وہ وقت بھی آگیا جب حبیب جنگ اولیٰ میں نہایت جوانمردی سے لڑتے ہوئے اپنے غلام و دیگر ساتھیوں سیمت حسین ابن علی پر فدا ہوگئے۔مولا حسین حبیب کے سرہانے آئے حبیب آخری سانسیں لے رہا تھا مولا قریب آئے اور اشکبار آنکھوں سے حبیب کو جنت کی بشارت دی ۔حبیب کے لب ہل رہے تھے مولا نے قریب جاکر سنا حبیب کہہ رہا تھا مولا میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ آخری وقت جنت کے سردار کے دامن میں میرا سر ہے مگر مولا میں اس وقت کو دیکھ رہا ہوں جب آپ یک و تنہا ہونگے اے کاش مجھے دوبارہ زندہ کیا جاتا تو مولا آپ پر اپنی جان دوبارہ قربان کردیتا۔ کربلا میں جنگ نہیں بلکہ اہلیبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ بدترین مظالم کی داستان رقم کی گئی، لیکن کیا کہنے خانوادہ رسالت مآب کے، کہ جہاں پر صبر مشکل تھا وہاں پر شکر بجا لاتے تھے، کربلا کے ہر شہید نے اپنی شہادت سے قبل نماز ادا کی اور دنیا پر ثابت کیا کہ یہ جنگ اقتدار کی نہیں بلکہ اہلیبت نے اپنی جانوں کر نذرانہ پیش کر کے اسلام کی سربلندی و سرفرازی کو تاحشر زندہ و جاوید کردیا اور تمام انسانی رشتوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر کر دیا بقول نسیم لیہ،

پرچم خدا کے دین کا لہرا کے دم لیا ۔جو

کچھ کہا زباں سے وہ دکھلا کے دم لیا

تونے فنا میں راز بقا پا کے دم لیا،

تاریخ اسمعیل دہرا کے دم لیا،

افسانہ خون سے لکھ دیا تلوار پر حسین ؓ،

Advertisements
julia rana solicitors

قربان تیرے جذبہ ایثار پر حسینؓ۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply