میڈیا اورعوام کے حقیقی مسائل۔۔۔صاحبزادہ امانت رسول

کیا یہ بات حیرانی کی نہیں ہےکہ الیکٹرانک میڈیا ،پرنٹ میڈیا اور سو شل میڈیا پہ قوم کی تربیت اور شعور و آگہی کے لیے کوئی لائحہ عمل نہیں اور نہ ہی ہمارے پاس اس کیلیے وقت ہے ۔سیاست،سکینڈلز اور مخصوص مسالک کے مخصوص ایام کے لیے وقت ہی وقت ہے ۔سیاست بھی ایسی جس میں سوائے تہمت ،تعصب اور ابن الوقتی کے کچھ نہیں ہے ۔سکینڈلز ایسے جن میں غیر ضروری دلچسپی اور بے مقصد توجہ حاصل کر نے کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔مذہبی تہوارو میں فرقہ واریت اور مخصوص فر قوں کے نظر یات و عقائد کی اشاعت کے سوا کوئی اور مقصد دکھائی نہیں دیتا ۔یہ وہ خدمت ہے جو آج کا میڈیا سر انجام دے رہا ہے۔ پاکستان نازک دور سے گزر تا ہی رہتا ہے لیکن سماجی اقدار کا کمزور ہو نا،اجتماعی طور پراخلاقی بے راہ روی اور لو گو ں کا راہِ راست پہ نہ چلنا یہ بہت بڑا بحران ہے جو کسی بھی قوم میں اگر ہوتو اس کی زندگی کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا۔

گزشتہ مہینوں میں زینب کیس جیسے بہت سے کیس سامنے آئے اور ابھی تلک یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ۔زینب کیس پہ ہونے وا لا شور شرابا ایک سیاسی اور مذہبی حلقوں کی طرف سے اشتعال انگیزی کے لیے استعمال کیا گیا لیکن مضبوط و مستحکم بنیادوں پہ کسی نے بھی فکر مندی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔آج زینب کیس کا کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی اس جیسے کیسز پہ کسی سیاسی اور مذہبی جماعت کو مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جا تا ہے ۔پاکستان میں بہت سے مسائل ہیں اور ان میں بہت سے مسائل سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں جن میں پانی کا مسئلہ ،آبادی میں اضافے کا مسئلہ ،بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا مسئلہ ،ٹریفک کے مسائل وغیرہ وغیرہ۔ذرا غور تو کریں کہ یہ میڈیا اِن سنگین مسائل پہ عوام کو کتنا آگاہ کر رہاہے ،عوام میں کتنا شعور پھیلارہا ہے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ کسی چینل کے پاس 30سیکنڈ بھی نہیں ہیں کہ وہ عوام میں شعور و آگہی کی مہم چلائے۔لو گو ں کو ان مسائل کے بارے میں صرف آگاہ نہ کر ے بلکہ ان کے حل میں اپنا حصہ شامل کر نے کی تربیت کرے۔ایسا محسوس ہو تا ہے ہم حقیقی مسائل کا علم نہیں رکھتے یا علم رکھنے کے باوجود ان سے مجر ما نہ غفلت کے مر تکب ہورہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

چند سال پہلے ایک دو چینل سیاسی اور سماجی مسائل پہ بہت اعلیٰ پروگرام نشر کرتے تھے جن میں پاکستان کی علمی شخصیات شریک ہوتیں ، پر مغز اور عمدہ گفتگو کر تی تھیں۔اگر چہ یہ پروگرام رات تاخیر سے نشر ہو تے لیکن دیکھے اور پسند کیے جا تے تھے ۔ان پروگرامزکو پاکستان کے فقط علمی اور سیاسی حلقوں میں ہی نہیں ،گھروں میں بھی مو ضو عِ بحث بنا یا جا تا تھا ۔اس کے بعد یہ وقت مزاحیہ پروگراموں کو دے دیا گیا کیو نکہ ان پروگراموں کی ریٹنگ زیادہ آنے لگی ۔آغاز میں سیاسی ٹاک شو کا وقت 8بجے شام سے نو بجے تک ہو تا تھا ۔اب سیاسی ٹاک شوز تقریباً 5بجے سے رات بارہ بجے تک جاری رہتے ہیں ۔ان اوقات میں کوئی ٹاک شو ایسا ہو گا جس میں کوئی سنجیدہ اور اہم مسئلہ زیربحث آتاہو گا ۔ سو شل میڈیا بھی اسی بھیڑ چال کا شکار دکھائی دیتا ہے ۔تمام دن سیاست بازی کا یہی کھیل سو شل میڈیا پہ بھی جاری رہتا ہے ۔افسوس یہ ہے کہ سو شل میڈیا عوام کا میڈیا ہے اورجن مسائل کا ذکر کیا گیا ہے یہ تمام عوامی مسائل ہیں جن سے عوام ہی پریشان دکھائی دیتی ہیں لیکن لوگ سو شل میڈیا پہ اپنے سنگین اور حقیقی مسائل کو مو ضوع بنانے کی بجائے سیاست میں الجھ کر اپنا وقت ضائع کر تے ہیں ۔عوام کا رویہ اس بات کا غماض ہے کہ جب انہیں اپنے مسائل کی سنگینی کی فکر نہیں تو کسی اور کو کیا پڑی کہ وہ اس کی فکر کر تا پھرے

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply