علامہ اقبال کی غیر فطری شاعری۔۔سلطان محمد

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی،

اور۔۔

من بندہِ آزادم عشق است امامِ من
عشق است امامِ من، عقل است غلامِ من

اقبال نے پہلے تو عشق (یا دِل) اور عقل (یا خرد) کو ایک دوسرے کے مقابلے میں پیش کیا، اور پھر پہلے کو “امام” جبکہ دوسرے کو “غلام” قرار دیا ہے۔
علامہ اقبال کی اسی خلاف فطرت شاعری نے پچھلے سو سال سے قوم کو عقل استعمال کرنے اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے راستے پر چلنے سے روکا ہوا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

سیاسیات کا ایک ادنیٰ طالبعلم بھی جانتا ہے کہ قوم اور ملت دو مختلف مفہوم رکھنے والے الفاظ ہیں۔ آسانی کے لئے یوں سمجھیں کہ پاکستانی اور عرب مسلمان اسلام کی بنیاد پر ایک ملت تو ہیں، مگر ایک قوم ہرگز نہیں۔ مندرجہ بالا شعر میں علامہ صاحب نے ملت اور قوم کو ایک ہی مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ تو کیا علامہ صاحب جدید سیاسی تصورات سے نا بلد تھے یا ویسے ہی شعر بنانے کے لئے جو  چاہا ، کہہ دیا؟ سوچیے گا  ضرور۔۔

لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روشِ مغربی ہے مدِّنظر
وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گُناہ
یہ ڈرامہ  دِکھائے گا کیا سِین
پردہ اُٹھنے کی منتظرِ ہے نگاہ

مفکر پاکستان حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال لڑکیوں کی جدید تعلیم کے خلاف تھے۔ کیا پھر بھی آپ سمجھتےہیں کہ  وہ  اجتماعی زندگی میں کسی قوم کی رہنمائی کرسکتے تھے؟ رہنمائی فرمائیں۔

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اور

اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے

پوچھنا یہ تھا کہ بغیر تیغ و تفنگ اور مناسب تیاری کے لڑنے سے فتح کی کتنی امید ہے؟ نیز ممولے اور شہباز کی لڑائی میں جیت کس کی ہوگی؟ کیا یہ افکار عملی زندگی میں اپنانے کے لئے مفید ہیں؟

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقّی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

ایک ایسی  شخصیت  ، جو لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کی بھی جدید تعلیم کا مخالف ہو اور جدید تعلیم کو الحاد کا پیش خیمہ سمجھتی ہو، مفکر اور قومی رہنما کا درجہ دینے والی قوم سائنس اور ٹیکنالوجی میں کتنا آگے جا سکتی ہے؟ کبھی وقت ملے تو اس پر ضرور غور فرمائیے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ :مضمون آزادی ء اظہارِ رائے کی پالیسی کے  تحت شائع کیا جارہا ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply