داستانِ زیست۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط18

گزشتہ قسط:

کڑی چُپ چاپ چھوڑ دی اب گاڑی بھی مانگتا ہے کمینہ  کہیں کا ۔۔ پتہ نہیں  کدھر سے نازل ہو گیا۔ ۔مردود ۔۔
وہ بائیک سٹارٹ کر کے چلا گیا۔ ہم کافی دیر کھڑے سوچتے رہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے ؟
چانسری سے چھٹی کر کے لیڈی سیکرٹری کو آتے دیکھا۔ جھٹ سے کار سٹارٹ کردی ۔۔۔۔۔
پتہ نہیں  کیوں لگا وہ مجھ سے یہ کار چھین لینا چاہتی ہے۔ ۔
بعض اوقات بندہ سب کچھ پاس ہوتے  ہوئے بھی  کسی شے کا مالک نہیں  ہوتا !

نئی قسط:

نئی کار سفیر کی ہو یا فقیر کی وہ نئی دلہن کی طرح پورچ میں کھڑی نہیں  کی جاتی، اس کے لیے  صاف ستھرا گیراج اورسجا سجایا بیڈ روم لازمی ہوتا ہے۔ بروز ہفتہ سفیر صاحب نے حکم دیا کہ ان کی رہائش گاہ میں موجود گیراج کاٹھ کباڑ کا سٹور بنا ہوا ہے، وہاں پارک شیورلے تو جا چکی ہے گیراج کی صفائی  اور پینٹ ایک دن میں ہونا چاہیے ۔۔

اتوار کو فرحی کی پنڈی میں بارات بھی تھی۔ ہم نے ایف سکس ون والے پورشن میں کچھ سامان مرسیڈیز میں شفٹ کیا۔۔۔۔گیٹ کی چوڑائی  کم تھی ۔کار کی سائیڈ پہ  لگی بلیک سٹرپ اتر گئی۔شام کو شفٹنگ کا پروگرام تھا جس کے لیے  ایمبیسی کے ٹھیکےدار کی ٹیوٹا پک اپ ارینجنڈ تھی۔

ہمارے جاننے والے مشہور ماہر نفسیات ڈاکٹر جنہیں ہم پاگلوں کا ڈاکٹر سمجھتے تھے ،ایک دفعہ میرے ساتھ پنڈی سے میری کار پر  اسلام آباد آئے۔ راستے میں ڈرائیونگ کے ساتھ سگریٹ کے کش لگاتے، موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ، ویگن کو اوورٹیک کرتے ،اس کے ڈرائیور کی ایسی تیسی کرتے دیکھ کے کہنے لگے ،تم انڈر پریشر بہترین پرفارم کرتے ہو ۔۔
ہم نے ٹھیکے دار کو فون کر کے پک اپ، پینٹ برش، مستری اور مزدور سب سامان لے کر  سفیر صاحب کے گھر پہنچنے کا کہا۔ سفیر صاحب کو بتایا کہ آج ہی گیراج ٹھیک کرانے جا رہے ہیں ۔
گیراج میں سوائے ایک بار کاؤنٹر کے باقی بے کار سامان تھا وہ باہر پھینکوا کے پینٹ شروع کرایا ۔ کاؤنٹر پک اپ  پر اپنے گھر لے آئے۔ کوہسار مارکیٹ کے کباڑیے نے ڈبل بیڈ، صوفہ ، ٹیبل ۔ مطلب پورشن گفٹ میں فرنش  کر کے دینا تھا وہاں سے سامان اٹھوایا ۔ قالین اپنے تھے۔یہ سامان جب تک پہلی منزل پہ پہنچا ،پنڈی والا سامان بھی پہنچ گیا۔ مغرب تک ڈیرہ ورکنگ آرڈر میں ہو گیا۔ بڑا کمرہ بیٹھک پلس بار بن گیا ۔ بیڈ روم بھی تیار ہو گیا۔ بس اے سی لگنے رہ گئے۔سفیر صاحب کے گھر گئے تو گیراج پینٹ ہو چکا تھا اور پینٹ کے داغ دھبے دھل رہے تھے۔
سفیر صاحب ہماری سپیڈی پرفارمنس سے بہت خوش تھے۔ ہم نے بنا بریں احتیاط بار کاؤنٹر لے جانے کا ذکر کیا۔
اچھے موڈ میں تھے۔ کہنے لگے کاؤنٹر تو خالی نہیں  رکھتے۔ سکاچ، واڈکا کا مکس کیس اور بیئر کے چار کارٹن گفٹ مل گئے۔۔
ہم ادب سے سلام کر کے ٹھیکےدار کی ٹیم کے ہمراہ رخصت ہوئے۔

اپنے گھر پہنچے۔ ۔ ڈر کے مارے مرسیڈیز نچلے پورشن کے مین گیٹ سے اندر کھڑی کی۔ پائلٹ صاحب گھر تھے انہوں نے ویلکم ڈنر کی آفر کی۔ ہم نے قبولیت کا اظہار کیا۔ انکا ہاتھ پکڑا اور اوپر اپنے پورشن میں لے آئے۔ ڈرنکس ہم کار پارک کرنے سے پہلے سجا گئے تھے۔ فریج کچن میں آن تھی، فریزر میں بیئر لگی تھی، پائلٹ صاحب حیران !
کہنے لگے ، میں سوچ بھی نہیں  سکتا تھا کہ اتنا با ذوق پڑوسی نصیب ہو گا، سچی میں تو تمہیں چکوال کا پینڈو سمجھا تھا۔۔

ٹیریس پہ  نشست لگائی ، انہیں بیئر کا کین دیا ۔ ٹیپ ریکارڈر پہ  منی بیگم کی کیسٹ لگائی  ۔ انہیں بٹھا کے ہم شاور لینے گئے۔
شاور لے کے چکوال کا روایتی سلیپنگ سُوٹ دھوتی کرتا پہن کے ٹیریس پہ  آئے تو منظر ہی بدلا ہوا تھا۔ مدہم لائیٹ  آن تھی۔ انگلش میوزک کی کیسٹ چل رہی تھی، میز پر دو گلاس اور آئس باکس کے ساتھ ڈرائی  فروٹ کی ٹرے اور بلیک لیبل کی بوتل۔۔ مجھے دیکھ کے وہ جوش سے اٹھا۔ جپھی ڈال کے بولا۔ میں پرویز تمہارا بھائی، تم آج میرے گیسٹ ہو۔ یو آر اے گریٹ پرسن اینڈ مائی  فرینڈ۔ ۔ ہم نے بھی اسے پیار سے بھینچا  اور کہا۔۔
آپ مجھے خان بلا سکتے ہو۔ آئی  ایم لکی ٹو گٹ سچ اے نائس فرینڈ اینڈ برادر لائک یو۔۔
اس نے پیگ بنائے۔ چیئرز کیے، جام ٹکرائے ۔ یوں ہماری اسلام آباد میں پہلی شام کلیان منائی  گئی۔
پرویز کا نوکر کھانا بھی اوپر لے آیا ۔ رات گئے تک گپ شپ ہوتی رہی ۔ پھر اس کی بزرگی جاگ گئی ،کہنے لگا تم تھکے ہوئے ہو اب سو جاؤ۔ میری بھی کل فلائیٹ ہے ۔

اگلی صبح ہماری اسلام آباد  بیوٹی فل۔۔ دارالحکومت میں پہلی اور خوشگوار صبح تھی۔ ٹریک سوٹ اور جوگرز پہن کے ناظم الدین روڈ کراس کر کے بلیو ایریا کی مین روڈ پر جاگنگ کی۔ واپس جاتے سیکٹر کی چھوٹی مارکیٹ میں حلوہ پوری کا ناشتہ کیا۔ ہوٹل والے سے یارانہ گانٹھا۔ دودھ پتی بنوا  کے پی سٹریٹ میں واپس آتے گردن خود ہی کچھ افسرانہ فیل سے اکڑ سی گئی۔ ماحول نے رنگ ڈھنگ،چال ڈھال بدل دی۔ ہمارے گھر کے سامنے سرکاری کوارٹرز میں شاید  سارے افسر ہی رہتے تھے۔ کسی سے بھی ملاقات بنا بھی محسوس ہونے لگا کہ ہم بھی بڑی شے ہیں ۔۔۔

پچھلے ہفتے  حسن کے ہوٹل گئے تو اس کے پاس مزدا 1300 گرین کلر۔کار دیکھی جو برائے فروخت تھی۔ گیس پراجیکٹ میں جب تھے تو ایک کولیگ نے 1975 ماڈل زیرو میٹر گولڈن کلر خریدی تھی۔ ہمیں اس پے بہت رشک آتا تھا۔

دوپہر کو تیار شیار ہو کے نکلے ۔ فرحی کی بارات دن کی تھی۔ ویڈنگ ہال والے دوست نے بتایا تھا کھانا تین بجے تک ختم ہو گا۔ اس سے ملاقات بھی طے تھی۔ہم حسن کے ہوٹل پہنچے کار سامنے کھڑی تھی اسے بلوایا۔ میلوڈی کا اسی کار پہ  ایک راؤنڈ لگایا یہ بھی پچھتر ماڈل اور پرفیکٹ کنڈیشن تھی۔ باڈی سکریچ لیس ، ٹائر بیٹری نئے، اور پالش سے  چمکتی ہوئی ۔ لنچ حسن کے ساتھ کیا۔ اس نے پہلے کار کے پینتالیس ہزار مانگے، پھر ہوتے ہوتے چالیس پہ  آیا۔۔۔
ہم نے اپنے احسان جتلائے جو فنکشن اس کے ہوٹل کو دئیے۔ آخر کار اس نے قسم کھا کے بتایا کہ کار اسے سینتیس ہزار میں پڑی ہے، پلاٹ خریدا ہے اس لیے  بیچ رہا ہے۔ ہم نے بلف ماری کہ ہمارے پاس ہوں گے پینتیس ہزار۔۔دس ہزار اس کے ہاتھ میں تھمائے، اس نے لے لیے۔کاغذات اس نے زبردستی چیک کرائے، ہم نے یہ پیسے فرحی کے لیے گفٹ خریدنے کو رکھے تھے۔ حسن کے ساتھ جیولرز شاپ پہ گئے ۔ سونے کے بندے اور گانی کا سیٹ خریدا۔۔
یہ نو ہزار کا بنا۔ ڈائمنڈ رنگ انگلی سے اتار کے صاف اور بکس کرائی ، حسن کو ضامن کیا کہ پیمنٹ  اگلے دن ہو گی۔۔۔
ہم نے مرسیڈیز ایمبیسی میں پارک کی ،اسے ہوٹل اتارا اور تین بجے ویڈنگ حال پہنچ گئے۔
لوگ کھانا کھا کے نکل رہے تھے۔ ہال میں رخصتی کی تیاری ہو رہی تھی۔ ویڈنگ ہال والا دوست ساتھ تھا۔فرحی کی بہن اور بہنوئی  کو مبارک دی۔ انہوں نے غیر حاضری کا گلہ کیا۔ معذرت اور مجبوری گھڑ کے بتائی۔۔
سٹیج پہ  فرحی دلہن بنی خوب سج رہی تھی، کزن پہ   دولہا کا روپ ہمیں نہیں لگ رہا تھا۔ دوست نے بندوبست کا پوچھا۔ ہم نے اس کی  ویڈنگ ہال اور اپنی طرف سے مشترکہ بتاتے گفٹ پیش کیے ۔ دلہن اور دولہا نے اٹھ کے  شکریہ کہنے کی کوشش کی، ہم نے روک دیا۔ فرحی کے سر پہ  شفقت کا ہاتھ پھیرا۔ دولہا سے ہاتھ ملا کے کھسک آئے۔۔
دوست نے ضد کی کہ دفتر میں چلیں اور کھانا کھائیں۔ ہم اسے بازو سے پکڑ کے پارکنگ میں لے آئے۔ کار دکھائی  ،مبارک لی۔ شکریہ ادا کرتے اجازت لی اور کمرشل مارکیٹ سے نکل کے مری روڈ پر ایسے آئے جیسے یہ سب سرعت اور عجلت میں لکھا جا رہا ہے، یہی کیفیت تھی۔ پنڈی کی حد فیض آباد سے اسلام آباد ہائے وے پر موڑ مڑتے  عجیب سا مفارقت کا احساس ہوا۔ جیسے پنڈی میں اتنے سال رہنے کا تعلق ٹوٹ رہا ہو۔ فرحی کی نہیں ہماری رخصتی  ہوئی  ہو۔ کار بھی بہت آہستہ چل رہی تھی۔ شکر پڑیاں چوک پہ  رُک گئے سوچا کنول جھیل کی پتلی سڑک پر جائیں  ۔۔جی نہیں  مانا۔ سر کو زور سے جھٹکا، چند آنسو بہہ نکلے۔ سگریٹ سلگائی  ،تین چار لمبے کش لیے  ۔ زیرو پؤانٹ کی طرف چلے  ،خود سے بات کی، کہ یہ حادثاتی تعلق تھا۔ نہ پیار تھا نہ محبت تھی، بس چلتے چلتے کچھ عرصے کی اکٹھی مسافت طے ہوئی ۔۔۔۔وقت اچھا گزرا اور بس ۔۔

لیکن یہ عجیب خیال آیا کہ تم نے پرائی  مرسیڈیز چند دن چلائی  اب یہ اتنی اچھی کار ہے۔۔پر وہ ڈرائیو نہیں ۔کمفرٹ نہیں وہ بات ہی نہیں ، اسی طرح فرحی کے بعد ۔۔۔۔ ہم نے پوری شدت سے یہ خیال  ذہن سے جھٹک کے نکال پھینکا۔ سیدھے گھر پہنچے۔ شام تک بیڈ پہ  پڑے رہے۔ آج تو پرویز بھی فلائیٹ پر تھا۔
ایک دل کیا چار پانچ ڈرنک چڑھا لوں، پھر سوچا راجپوت ہو کے ہار جانا تو ہو سکتا ہے ،ہوا ہے۔۔ لیکن ہار ماننی ؟؟
ٹریک سوٹ جوگر چڑھائے، کار نکالی اور ٹریل تھری کی پارکنگ میں پارک کر کے واک شروع کی ۔ گھڑی پہ  ٹائم رکھ کے پینتیس منٹ میں ماؤنٹ آف ہیپی نیس پر پہنچ گئے جہاں چند دوست پہلے سے سستا رہے تھے۔
زندگی رواں دواں رہتی ہے، علت بدلتی رہتی ہے۔ وقت بدلتا رہتا ہے تو بندہ بھی بدل جاتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply