تامل ٹائیگرز کے دیس میں (پانچواں حصّہ)۔۔خالد ولید سیفی

چلچلاتی دھوپ نے گلہ خشک کر دیا۔ عرفان کے رکشے میں سانس بھی پوچھ پوچھ کر آتی تھی۔ کسی شاپ کے ساتھ ٹک ٹک رکوا کر پانی کی دو چار بوتلیں لیں، تو جان میں جان آئی اور ساتھ جہان آیا۔

کولمبو فورٹ پر کچھ وقت گزارا، کچھ سڑکوں کی آوارہ گردی رہی۔ یہاں سے کولمبو کے سب سے قدیم بازار “پٹہ مارکیٹ” گئے۔ یہ بہت بڑا بازار ہے، پھیلا ہوا ہے، پرانا کولمبو یہیں ہوتا تھا، آج کا کولمبو بہت پھیل چکا ہے، مگر پٹہ کی اہمیت بڑھتی گئی ہے، پٹہ بازار کے بغیر کولمبو کا سفر ادھورا تصور کیا جاتا ہے، یہاں صبح کے اوقات بہت رش ہوتا ہے، کھوے سے کھوا چلتا ہے، ہول سیل کی بڑی بڑی دکانیں ہیں، کولمبو کا قدیم ترین کاروباری مرکز ہے، دوکانوں سے باہر تھڑوں پر بھی اشیا رکھی ہوئی ہیں، جیسے اپنا جوڑیا بازار، راستے بہت تنگ مگر صاف ستھرے ہیں، مکھیوں کی بھنبناہٹ نہیں ہے ، ہم نے آٹو رکشہ ایک دوسری جگہ پارک کی اور پیدل بازار گھومتے رہے، شاید ہی ضرورت کی کوئی ایسی چیز ہو جو یہاں نہ ملے۔

ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو ہم پٹہ بازار میں عرفان کے بتائے ہوئے ” بڑا مسجد” میں نماز پڑھنے گئے۔ جس کا نام جامعہ الالفرا ہے، سرخ اور سفید رنگ کی دھاریوں سے مزین یہ مسجد خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے، مغل طرز کے آرکیٹکچرز پر تعمیر کی گئی ہے، باہر سے جتنی خوبصورت ہے اندر سے اس سے زیادہ ہے، یہاں ریڈ مسجد ( لال مسجد) کے نام سے بھی مشہور ہے، اس کی تعمیر 1909 ہوئی ہے، یہ کولمبو کی سب سے بڑی اور سری لنکا کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے جو پٹہ کے بیچ بازار میں ہے اور قدیم طرز تعمیر کا خوبصورت شاہکار ہے۔

سری لنکا میں اسلام عرب تاجروں کے ذریعے آٹھویں صدی عیسوی کو آیا، تجارت کی غرض سے آنے والے تاجروں نے یہاں مقامی لوگوں میں شادیاں کیں اور یہیں بس گئے۔ سری لنکا میں مسلمانوں کو سری لنکن مور، مالے مسلم اور انڈین مسلم کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے، اندلس میں بھی مسلمانوں کو مور کہا جاتا ہے۔

“آل سیلون جمعیت العلما” (ASJU) سری لنکن مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے جو بطور اقلیت ان کے مسائل کی نگرانی کرتی ہے، کولمبو سمیت سری لنکا کے بعض علاقوں میں مسلم بدھ فسادات رونما ہوتے رہتے ہیں۔

(ایک دن ہمارے ڈرائیور عرفان کے ہاتھوں مسلم بدھ فسادات رونما ہوتے ہوتے رہ گئے، شکر کہ عرفان کے پاس کوئی چاقو نہ تھا ہم نے بیچ بچاؤ کر کے معاملہ رفع دفع کیا۔ تفصیل آگے آئے گی)۔

مذہبی فسادات کے ان معاملات کو سلجھانے میں آل سیلون جمعیت العلما کلیدی کردار ادا کرتی ہے، سری لنکن مسلمان اپنے مذہب اور مذہبی روایات سے متعلق کافی حساس ہیں۔ تبلیغی جماعت کا بڑا اثرو رسوخ ہے، تبلیغی اجتماع میں لاکھوں مسلمان شریک ہوتے ہیں۔
مقامی مسلمانوں کے لیے سری لنکا میں کمپنیز کی طرف سے حلال خوراک کی تیاری بہت بڑا مسئلہ رہتا ہے۔ جس سے انھیں پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ جس طرح ہمیں تلاش میں پریشانی رہی ہے۔

نماز کی ادائی کے بعد، میں مسجد کے دفتر میں گیا جو خالی تھا، ایک ٹیبل، چند کرسیاں، کمپیوٹر اور کچھ فائلز و کتابیں تھیں، چند لمحوں بعد ایک نوجوان داخل ہوا، مجھے دیکھ کر کچھ ٹھٹک سا گیا، تاہم خود کو سنبھال کر سلام کے بعد ٹیبل کے ساتھ جڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ یہ آفس انچارج ٹائپ کی کوئی چیز تھا، میں نے اپنا تعارف کرایا، اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ان سے دو چار جملوں کا تبادلہ ہوا ، بقول صحافتی اصطلاح کے، ہمارے درمیان باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو ہوئی، مسجد کے بارے میں معلومات لیں، اس نے مجھے سری لنکا میں مسلمان راہنما کا نام بھی بتایا جو اس وقت میرے ذہن سے محو ہوگیا ہے۔

ہماری گفتگو جاری تھی کہ محمد ہاشم اور منیر احمد، عرفان سمیت پہنچ گئے۔کچھ دیر بعد ہم نے اس خوش شکل نوجوان کو رخصت کیا، وہ مسجد گیٹ تک ہمیں چھوڑنے آئے۔

پٹہ کے راستے تنگ تھے مگر بے ہنگم نہ تھے، موٹر سائیکلیں ایک طرف سیدھی قطار میں کھڑی کی گئیں تھیں، لوگ مہذب تھے اور ان میں شہری شعور موجود تھا، دھکم پیل اور عجلت کے مظاہرے نہ تھے، سکون سے آتے جاتے تھے، ہمارے شہروں میں آپ کو بے جا شور اور جلد بازی نظر آتی ہے، جیسے صور پھونکا گیا ہو اور ابھی زمین ان کے پاؤں سے کھسک جائے گی، عجلت غیر منظم لوگوں کا دین ہے۔ تنگ راستوں میں بھی ٹریفک جام کا مسئلہ نہ تھا، ہر سڑک ون وے تھی، کوئی آنے کی کوئی جانے کی۔۔۔ پٹہ کی چھوٹی اور تنگ سڑکوں میں ٹریفک نظم و نسق دیکھ کر کراچی ٹریفک کی یاد بہت ستانے لگی تھی۔

مسجد سے چند قدم آگے گئے تو سڑک کنارے فروٹ کا اسٹال سجا تھا، ہمارے قدم رک گئے، تازہ انناس دیکھ کر رہا نہ گیا، کھڑے کھڑے کٹوا کر کھاتے رہے، پہلی بار درخت سے اتارے گئے تازہ انناس کھانے کا تجربہ ہوا وگرنہ اپنے ہاں پانچ سال بعد ایک بار ڈبوں کا نصیب ہوتا ہے، مہنگی شے ہے اس لیے ہماری روز مرہ زندگی میں جگہ نہ پا سکی، بڑے لوگ روزانہ کھاتے ہوں گے۔ انناس سری لنکا کی ایک بڑی پیداوار ہے اس لیے سستی ملتی ہے اور ہر جگہ ملتی ہے۔ جیسے اپنی کھجور۔۔۔ جسے کراچی کے سیٹھ کوڑیوں کے دام کیچ و پنجگور کے زمینداروں سے خریدتے ہیں اور یہاں اچھے خاصے منافع پر بیچ دیتے ہیں، ساہوکاروں کا کام کیا ہے؛ محنت کشوں کو لوٹنا، ان کا “الف” پیسے سے شروع ہو کر “ی” پیسے پر ختم ہوتا ہے۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ محنت کش کو کبھی بھی اپنی محنت کا صحیح معاوضہ نہیں ملا ہے۔

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
مزدور طبقہ ہمیشہ “ذلتوں کے مارے لوگ” ہوتے ہیں !

مارکس کا رونا بھی یہی ہے، سوشلزم کسانوں، مزدوروں اور جفاکشوں کی تحریک تھی، جس کا نظریہ مارکس نے پیش کیا اور لینن نے اسے ایک تحریک بناکر عملی جامعہ پہنایا، یہ تحریک اس وقت عملآ کمزور ہے، فکری طور پر اس کی جڑیں ابھی تک موجود ہیں، اس کے دبنگ لیڈروں میں کیوبا کے فیڈرل کاسترو آخری نشانی تھے، جو اب نہیں رہے ہیں۔ سوشلسٹ فکر نے یورپ کے ایک بہت بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ دوسری دنیا کو بھی سخت متاثر کیا، مگر آج کی دنیا سرمایہ دارانہ نظام کو قبول کر چکی ہے، حتیٰ کہ چین اور شمالی کوریا جیسے ملک بھی نام کے کمیونسٹ رہ گئے ہیں۔ چیئرمین ماو صرف کتابوں میں ملے گا۔

بات کھجور سے سوشلزم تک گئی اور ہمیں پتہ بھی نہ چلا۔
دنیا کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!

واپس پٹہ بازار آتے ہیں۔

ہم نے عرفان کو بتایا مسلمان ہوٹل تلاش کرو جہاں پاکستانی مزاج کا کھانا ملے، مرچ اور گھی سے لبریز کھانا۔

پاکستان بھی خوب ملک ہے، حرام کمائی کا حلال کھانا ملتا ہے، مگر آج کل لاہور میں کچھ گڑبڑ ہے، زندہ دلانِ لاہور نہ معلوم کیا کچھ کھاتے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کی حفاظت فرمائے، کھانا حلال کھانا چاہیے، آمدنی کی خیر ہے۔

عرفان آگے آگے ہم پیچھے پیچھے۔۔۔ مشن مسلمان ہوٹل کی تلاش تھی، زیادہ دور نہ گئے کہ مسلم ہوٹل ملا، صرف مسلم نہیں بلکہ مولوی ہوٹل بھی تھا، مالک پاکستان کے کسی مدرسے کا فارغ التحصیل تھا۔ سر پر سفید ٹوپی سجائے، خوبصورت داڑھی اور چہرے پر مسکان لیے انھوں نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ روانی سے اردو بولتا تھا، رواں اردو اور نورانی چہرہ دیکھ کر ہمیں تسلی ہوئی کہ کولمبو میں آج ایمان افروز کھانا کھانے کو ملے گا۔ گذشتہ شب کی بے ذائقہ مچھلی کی تلافی ہو جائے گی۔

رش بہت تھا، اوپر سے گرمی کا زور الگ، پیدل گھومتے رہنے سے ہماری ٹانگیں بھی درد کرنے لگی تھیں۔اس لیے یہاں بیٹھ کر کھانے سے ہم نے پارسل لے جانے کو ترجیح دی۔ کھانے کے آرڈر کی ذمہ داری عرفان اور منیر احمد کو دے کر میں اور ہاشم اسی سڑک پر آگے نکل گئے، تھکاوٹ اور گرمی کی وجہ سے زیادہ دور نہ جا سکے، ہاشم ایک طرف کھڑا رہا، جب کہ میرے لیے کھڑا ہونا مشکل اور سڑک پر بیٹھنا ممکن نہ تھا، میں روڈ کے ساتھ کھڑی کی گئی کسی سری لنکن کی بائیک پر بیٹھ گیا۔ اور چاروں قل پڑھنے لگا کہ آدھے گھنٹے تک مالک نہ آئے۔

میں کبھی موبائل سے کھیلتا تو کبھی آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا۔ کمزور بدن، نحیف جسم، سری لنکن لوگ پہلی نظر میں غذائی قلت کے شکار لگتے ہیں۔ مریل مریل سے سانولے مرد و خواتین۔ بچے اٹھاتے، بائیک چلاتے، سودا سیلف لیتے اپنی زبان میں شوں شوں کرتے، اِدھر اُدھر آ جا رہے تھے۔

ظاہر میں جتنے کمزور، اندرسے اتنے مضبوط ہیں، محنت ان کا ایمان ہے، نرم مزاج اور خوش اخلاق ہیں، مسکراہٹ ان کی گھٹی میں پڑی ہوتی ہے۔

تامل ٹائیگرز نے سری لنکا کی کل آبادی کے 70 فیصد ان سری لنکن سنہالیوں کی ناک میں دم کر رکھا تھا، کولمبو سمیت ہر شہر “ایل ٹی ٹی ای” سے ترساں و لرزاں تھا، سری لنکن ایوان لرزتے تھے، تامل ٹائیگرز کی طاقت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس تنظیم نے ایک سری لنکن صدر سمیت انڈیا کے راجیو گاندہی کو خود کش حملے میں ہلاک کیا تھا۔ تامل ٹائیگرز کا تفصیلی ذکر آگے آئے گا۔ فی الحال ہمیں اس پارسل کھانے کا انتظار ہے جو منیر اور عرفان لے کر آنے والے ہیں۔

بھوک بہت طاقتور ہوتی ہے، بھوکے لوگ بھی بہت طاقتور ہوتے ہیں، مگر اکثر اپنی طاقت کی پہچان نہیں کر پاتے ہیں، جن بھوکوں نے اپنی طاقت کا ادراک کرلیا، وہ نقیبِ انقلاب بنے۔ بھرا ہوا پیٹ سویا رہتا ہے، خالی پیٹ بیدار ہوتا ہے، بھوکوں کو منظم کرو اور دیکھو وہ کیا کرتے ہیں، دنیا کے سارے انقلاب کی تاریخ چھان مارو، وہ جس نام سے بھی آئے ہوں اس میں مرکزی کردار بھوک کا رہا ہے۔

ہم بھی اس وقت سخت بھوکے تھے اور اپنے ہوٹل کے کمرے میں جا کر انقلاب کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے، مگر یہ لوگ کافی دیر لگا رہے تھے، تین بجنے کو تھے ، ہمارا انقلاب تاخیر کا شکار ہو رہا تھا، لگتا تھا اس انقلاب کی تکمیل شام سے پہلے نہیں ہونا ہے۔

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے!

دونوں پارسل کے ساتھ نمودار ہوئے۔ پارسل میں کیا تھا ہم معلوم تو نہ کر سکے، البتہ مصالحہ جات کی خوشبو بتا رہی تھی کہ جو کچھ بھی ہے تسلی بخش ہے۔

” عرفان جلدی ٹک ٹک نکالنے کا، ہمارا بہت تھک ہونے کا”
“جی صاب جی صاب” کرتے عرفان نے ٹک ٹک کی جانب دوڑ لگا دی۔ اور میری نظریں منیر احمد کے ہاتھوں میں موجود پارسل پر جمی رہیں، میں نے کن انکھیوں سے دیکھا تو محمد ہاشم بھی پارسل کا ہی مطالعہ کر رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply