صحیح اسلامی تاریخ، ایک معمہ۔۔۔۔آصف وڑائچ

بارہ سو سال سے اب تک اسلام کی ابتدائی تاریخ و فقہ پر لکھی جانے والی کتب کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تمام کتب قرونِ اولیٰ کے چند افراد کی جانب سے مرتب کئے گئے مواد کی تحریف و اضافہ شدہ شکل ہیں۔ قرونِ اولیٰ سے میری مراد رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد کے دو سو سال کا ایک طویل عرصہ ہے۔
زمانہء رسول اللہ ﷺ کے غزوات، خلیفہ دوئم، سوئم اور چہارم کی شہادتیں اور سانحہ کربلا سے لے کر مختار ثقفی(متوفی 67ھ) ، حجاج بن یوسف ثقفی(متوفی 95ھ) اور خلیفہ عمر بن عبدالعزیز (متوفی 101ھ) تک کے تاریخی واقعات سے متعلق مذہبی کتب میں روایات کا ایک جمگھٹا درج ہے۔ تاہم ان روایات کا ابتدائی منبہ تلاش کیا جائے تو پیچھے چند افراد ہی انہیں بیان کرتے نظر آئیں گے۔ ان میں ابنِ اسحاق (وفات 156ھ)، ابو مخنف الکوفی ( وفات 157ھ) اور واقدی (وفات 207ھ) معروف ہیں۔ انہی کو ابن سعد (وفات 230ھ) نے طبقات ابن سعد میں من و عن نقل کیا۔ ابنِ ہشام (وفات 218ھ) نے اپنا سارا تاریخی مواد ابنِ اسحاق کے شاگرد بقائی سے نقل کیا۔ پھر ابنِ جریر الطبری(وفات 310ھ) نے بھی اسی مواد کو اپنی تاریخ میں حوالہ بنایا۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ واقدی کی تاریخ کا بنیادی  راوی  ابو مخنف الکوفی (وفات 157ھ) تھا۔ جبکہ ابنِ سعد کا مرکزی راوی خود واقدی تھا۔ ابنِ ہشام کا بھی واحد راوی ابنِ اسحاق کا شاگرد بقائی تھا۔ یاد رہے کہ ابو مخنف الکوفی وہ شخص تھا جس نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے متعلق ایک کتاب ‘مقتلِ حسین” لکھی تھی۔ جو کہ واقعہ کربلا پر لکھی جانے والی تاریخ کی پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے۔ بعد میں پیدا ہونے والے مؤرخین کے پاس واقعات کو نقل کرنے کا وہی زریعہ تھا۔
واقدی، عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں مقاماتِ مقدسہ کا گائیڈ تھا جب ہارون الرشید مدینہ آیا تو واقدی نے اسے تمام مقاماتِ مقدسہ کی بڑے ماہرانہ و عاجزانہ انداز میں زیارت کروائی جس پر خلیفہ نے خوش ہو کر اسے شاہی دربار میں جگہ دے دی۔ واقدی نے درباری مراسم سے کئی فوائد سمیٹے یہاں تک کہ مامون الرشید کے زمانے میں اسے قاضی القضاۃ کا منصب عطا کر دیا گیا۔ واقدی کے عباسی وزیر یحییٰ برمکی سے بھی انتہائی قریبی تعلقات تھے۔ واقدی نے وسیع عباسیہ سلطنت کے زیرِ کفالت متعدد تاریخی واقعات قلمبند کئے۔ واقدی کے بعد تقریباً تمام مؤرخین نے اسے نقل کیا یعنی ابن جریر طبری سے لے کر ابنِ خلدون (وفات 808ھ) تک یہی حال ہے البتہ واقدی کے زمانے یعنی قرونِ اول اور قدرے بعد یعنی قرونِ وسطیٰ کے معروف محدثین نے اسے ضعیف اور کذاب قرار دیا۔
اول الذکر ابتدائی مؤرخین کے علاوہ اس وقت کی اسلامی خلافت میں کئی دیگر معروف محدثین بھی موجود تھے مثلاً ہمام بن منبہ (شاگرد ابو ھریرہ) ، سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک، معمر بن راشد، سفیان بن عینیہ (متوفی 198ھ) وغیرہ۔
اس وقت کئی فقہا بھی مشہور تھے مثلاً امام جعفر صادق، امام مالک، عطا ابنِ ابی رباح، ابو حنیفہ، شہاب زہری، شافعی، ابنِ حنبل اور ظاہری وغیرہ۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ان فقہا کے مدارس تو الگ الگ تھے البتہ مساجد الگ الگ ہونے کا نظریہ ابھی وجود میں نہیں آیا تھا۔ یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ فقہی اعتبار سے ان تمام فقہاء کے مذاہب الگ الگ تھے یا سب کا ایک ہی مشترکہ مذہب تھا البتہ قرونِ اولی کے بعد حکومتیں تبدیل ہونے، فقہی و نظریاتی اختلافات کے بڑھنے، جغرافیائی حالات تبدیل ہونے اور  مزید  محدثین و فقہاء پیدا ہونے کے بعد مساجد بھی الگ الگ ہو گئیں اور مزید ماہ و سال گزرنے کے بعد عبادات و عقائد میں بھی فرق پیدا ہو گیا۔ متعدد نئی جماعتوں اور فرقوں نے جنم لے لیا جو اپنے اپنے نظریات کے مطابق احادیث، فقہ و تواریخ لکھنے لگے اگرچہ قرونِ وسطیٰ میں بعض شارحین نے احادیث کی اقسام، اسما الرجال، جرح و تعدیل کا فن ایجاد کیا اور اس کے تحت فقہی و تاریخی مسائل حل کرنے کے لئے احادیث کی تخریج اور قرآن کی متعدد تفاسیر لکھیں لیکن اختلافی نکات جوں کے توں رہے اور مذاہب و فرقوں میں اضافہ نہ رکا۔
اکثریت نے اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید کی یعنی اگر کسی بزرگ سے فقہی و اجتہادی استنباط میں بھول چوک ہوئی یا کسی تاریخی واقعہ کو قلمبند کرنے میں غلطی کر دی تو ان کے تلامذہ و مقلدین نے اسے غلط ماننے کے بجائے اس کا ہر انداز سے دفاع کیا۔
مختلف مذاہب و فقہ جات کی موجودہ کتب کا باریک بینی سے جائزہ لیجئے تو آشکار ہو گا کہ حنبلی و اہلحدیث مذہب احمد بن حنبل، ابنِ حزم اور ابنِ عبدالبر سے لے کر ابنِ تیمیہ اور پھر شوکانی اور ناصر البانی کو نقل کرتا آ رہا ہے۔ (یہ لوگ بخاری و مسلم نامی محدثین کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں)
حنفی و دیو بندی فرقہ ابو حنیفہ کے شاگردوں محمد الشیبانی اور ابو یوسف سے لے کر بدر الدین عینی، رشید گنگوہی سے لے کر مودودی تک کو چند اضافوں کے ساتھ نقل کر رہا ہے۔
حنفی مذہب کی ایک اور ہندی شاخ یعنی بریلوی فرقہ ابو حنیفہ کے شاگردوں سے نیچے چلتے ہوئے طحاوی، خطیب بغدادی، ملا علی قاری سے لے کر احمد رضا خان بریلوی تک شخصی تقلید کرتے آ رہے ہیں۔
اہلِ تصوف ابنِ عربی، عبدالقادر جیلانی و غزالی سے ہوتے ہوئے جنید بغدادی و مولانا رومی تک صوفی نظریات کی بنیادوں میں پانی دیتے آ رہے ہیں۔
اہلِ تشیع مکتبہ فکر کے تمام مرکزی و ذیلی فرقہ جات (ماسوائے زیدیہ کے) سلیم بن قیس، شیخ صدوق، سید شریف رضی سے کلینی، طوسی و مجلسی تک اپنے اماموں و بزرگوں کے اقوال میں بتدریج اضافہ کرتے آ رہے ہیں۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ تمام مذاہب و فرقہ جات کی کتب میں بیان اقوال، تاریخی واقعات، اعتقادات و عبادات ایک دوسرے سے مماثلت نہیں رکھتے (لوگ اپنے اماموں کے اقوال کو نقل کرتے ہیں لیکن تصدیق کرنا مشکل ہے کہ منسوب شدہ اقوال واقعی اماموں کے ہیں یا نہیں)۔
اسلامی تاریخ سے جڑے چودہ سو سال پرانے واقعات کی تحقیق و جستجو کی جدوجہد میں غیر جانبدار (نیوٹرل) محققین و علماء ڈھونڈے سے بھی نظر نہیں آتے جبکہ واقعات ایسے گنجلگ ہیں کہ جن پر صدیوں سے بحث  و مباحثے ہونے کے باوجود بیل منڈھے نہیں چڑھتی۔ ہر پچاس ساٹھ سال بعد مذہبی پیشواؤں نے تاریخی واقعات کے متعلق نئے سرے سے بحٹ چھیڑی اور واقعات کو اپنے ذاتی عقائد و خواہشات میں ڈھال کر بیان کیا جس کی وجہ سے نت نئے نظریات بھی جنم لیتے رہے۔
سچ پوچھیے تو اس لسی کو اسقدر رڑکا گیا ہے کہ اب مزید مکھن نکلنا محال ہے اور مزید تحقیق کا اب نہ صرف وقت نکل چکا ہے بلکہ بے سروپا مواد کو کھنگالنا بھی وقت کا ضیاع ہو گا۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو خلفاء سوئم اور چہارم کی شہادتوں اور اس کے بعد ہونے والے سانحہ کربلا کے بنیادی محرکات کو جانچنے کی خواہش ہو اور وہ مولانا مودودی کی ‘خلافت و ملوکیت’ کا بغور مطالعہ کر لے تو اس سے بنیادی معلومات تو حاصل ہو جائیں گی لیکن شبہات کی گتھی پھر بھی نہیں سلجھے گی بلکہ ذہنی الجھنیں مزید بڑھ جائیں گی لہذا بہتر ہے کہ بحث و مباحثے سے مکمل اجتناب برتا جائے کیونکہ یہ واقعات اب تاریخی مواد سے زیادہ مذہبی عقائد کا روپ دھار چکے ہیں، بحث کی صورت میں بدمزگی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
دوبارہ عرض کر دوں کہ بد قسمتی سے یہ (غیر تصدیق شدہ) تاریخی مواد اب مذہبی عقائد کا روپ دھار چکا ہے اس لیے بحث مباحثے کی صورت میں بدمزگی و نفاق کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ تاریخی کتب میں بیان کردہ متعدد واقعات ایسے ہیں جن کی ترتیب و تفصیل کتب احادیث میں یکسر مختلف ہے۔ تطبیق کے باوجود یہ جاننا مشکل ہے کہ آیا تاریخی کتب میں درج واقعہ درست ہے یا احادیث والا درست ہے کیونکہ مختلف اسکول آف تھاٹس کا فقہی رجحان اور ذاتی میلان بھی اس میں کارفرما ہے۔
مثلاً خلفاء سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہم کی شہادتوں کے ضمن میں اہلِ سنت علما نے اپنی کتب میں ابنِ سبا نامی ایک شخص کا بہت زیادہ زکر کیا ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ قرونِ اولیٰ کی احادیث و تاریخی کتب میں اس شخص کا کوئی واضح تذکرہ نہیں ملتا۔
میرے ذاتی مطالعہ و تحقیق کے مطابق ابن سبا نامی شخص کو غیر معمولی اہمیت شیعہ مؤرخین کے مخالف علماء کی جانب سے دی گئی حالانکہ باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو ابن سبا معمولی حیثیت کا کوئی گمنام شخص معلوم ہوتا ہے جس کا عثمان و علی و حسین رضی اللہ عنہما کی شہادتوں اور شیعہ مذہب کے پرچار میں کوئی کلیدی کردار نظر نہیں آتا لہذا ابن سبا کی “خدمات” کے متعلق موجودہ اہلِ سنت علماء کی پر اسرار سازشی کہانیاں من گھڑت ہیں۔
اسی طرح دیگر کئی روایات و کردار ایسے ہیں کہ جن کی اگر آپ باریک بینی سے تحقیق کریں گے تو بے ساختہ کہہ اٹھیں گے ‘کھودا پہاڑ نکلا چوہا’ یا پھر آپکو معاملے کا سرا ہی نہیں ملے گا اور نہ ہی کسی حتمی نتیجے پر پہنچ پائیں گے کہ آخر اصل کہانی تھی کیا۔ مثلاً،
‘بخاری’ میں ہے کہ غزوہ خندق ،غزوہ احد کے ایک سال بعد یعنی 4 ہجری میں ہوا جبکہ سیرۃ ابن اسحاق و سیرۃ ابن ہشام میں درج ہے کہ غزوہ خندق 5 ہجری میں ہوا۔
‘مسلم’ میں ہے کہ رسول اللہ سے ام حبیبہ کا نکاح فتح مکہ کے بعد ہوا لیکن سیرۃ ابن اسحاق و سیرۃ ابن ہشام میں درج ہے کہ نکاح فتح مکہ سے پہلے ہو گیا تھا۔
تمام لوگوں نے خلیفہ کیلئے حضرت ابوبکر کی بیعت کر لی مگر حضرت سعد بن عبادہ نے بیت نہیں کی۔ انکار پر دیگر کچھ صحابہ نے انہیں جماعت سے نکال دیا جس کے بعد حضرت سعد بن عبادہ نے حضرت ابو بکر کی امامت میں نماز پڑھنا چھوڑ دیا(تاریخ طبری اردو حصہ دوم، خلافت راشدہ حصہ اول مترجم محمد ابراہیم صفحہ 34)
اس کے بعد حضرت سعد بن عبادہ شام چلے گئے اور سنا ہے کہ وہاں جنّات نے ان کا قتل کر دیا (تاریخ ابن خلدون حصہ اول صفحہ 200 ،مترجم ڈاکٹر عنایت اللہ)
اسی موقع کے متعلق بخاری کے باب مناقب ابوبکر میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر ہاتھ پر سب لوگوں نے بلا اعتراض بیعت کر لی تھی۔
صحیح مسلم میں ہے کہ جنگِ خیبر میں یہودی سپہ سالار مرحب کو حضرت علی نے مقابلہ کر کے قتل کیا جبکہ سیرۃ ابن ہشام اور واقدی کی بلوغ الامانی میں درج ہے کہ حضرت محمد بن سلمہ نے لڑائی کے دوران مرحب کی دونوں ٹانگیں کاٹ دی تھیں جس کے بعد حضرت علی نے اپنی تلوار سے مرحب کا سر قلم کر دیا۔
بخاری میں ہے کہ آیت ‘انالذین یشترون بعھداللہ وایمانھم ثمناً قلیلاً’ اشعث بن قیس اور ان کے چچیرے بھائی کے درمیان ایک مقدمہ کے سلسلے میں نازل ہوئی جبکہ تاریخ طبری میں ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے متعلق نازل ہوئی جب انہوں نے قسمیں اٹھا کر کہا تھا کہ ‘توریت میں محمد رسول اللہ کا ذکر موجود نہیں ‘
اس طرح کی اتنی مثالیں ہیں کہ انہیں شمار کرنے کے لئے بھی طویل عرصہ درکار ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ صحیح تاریخی واقعات کو یقینی طور پر جاننا کسقدر مشکل ہے۔ یہی وجہ تھی کہ احمد بن حنبل الشیبانی اور ان کے قریبی دوستوں یحییٰ بن معین اور اسحاق بن راہویہ نے کہا تھا کہ تین قسم کی کتب ناقابلِ اعتبار ہیں یعنی مغازی، تفاسیر اور شورش پر لکھی جانی والی کتب۔
یاد رہے کہ احمد بن حنبل کی وفات 241 ہجری میں ہوئی، اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے اس وقت ہی اپنے ارد گرد موجود تاریخی مواد کو غیر ثقہ قرار دے دیا تھا، تو یہاں سوال بنتا ہے کہ 241 ہجری کے بعد پیدا ہونے والے محدثین و تاریخ دان قرونِ اولی کے واقعات کہاں سے درج کرتے رہے؟ حالانکہ تاریخی مواد تو پہلے ہی متنازعہ قرار دیا جا چکا تھا۔ یعنی اہل سیر اور تاریخ پر لکھی جانے والی کتب پر محدثین نے اعتبار نہیں کیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مختلف مکاتبِ فکر کے علماء نے ایک دوسرے کے محدثین، مؤرخین و فقہا پر اعتبار نہیں کیا۔ ہر ایک کی جانب سے ایک دوسرے کی کتب کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا گیا۔ محققین نے کہا کہ تمام تاریخی و فقہی کتب میں درج واقعات، تفاسیر اور مسائل میں جھوٹ کی بے بہا آمیزش ہے۔
محدثین و فقہا ایک دوسرے پر رافضی، ناصبی، معتزلہ، خارجی اور منافق وغیرہ کے الزامات بھی لگاتے رہے ہیں۔
آج بھی ہر ایک مکتبہ فکر کا نمائندہ خود کو حق سچ کا راہی بتاتا ہے، حالانکہ یہ فیصلہ کرنا انتہائی مشکل ہے کہ کون سراغ کو پا گیا اور کون سیراب میں گرفتار رہا۔ ہر مسلک کی اپنی شریعت اور ہر شریعت کے اپنے اپنے غازی و شہداء، ہیرو اور ولن ہیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد جیسے پر امن مذہبی اسکالر نے بھی اپنی کتاب ‘ سانحہ کربلا ‘ میں ابن سبا کو بغیر تحقیق کے رگڑا لگایا ہے۔ دوسری جانب شیعہ علماء و ذاکرین نے بھی ایسی من گھڑت کہانیوں کا انبار لگا رکھا ہے جن کی کوئی مصدقہ سند روئے زمین پر دستیاب نہیں۔
علامہ ذہبی اور ابنِ ندیم نے متعدد تاریخی افراد کے نام قلمبند کئے ہیں جن میں اکثریت مختلف مکتبہ فکر کے مقلدین کی ہے۔ جبکہ جو فقہاء مجتہدین کے درجے پر فائز تھے انہوں نے یا تو خود کوئی کتاب نہ لکھی یا پھر انکی لکھی کتب جنگوں اور حوادثِ زمانہ میں گم ہو گئیں۔ البتہ ان کے بعد ان کے مقلدین اپنی مرضی سے ان کے اقوال سے منسوب کتب لکھتے رہے۔
سانحات اور جنگوں کی وجہ سے بھی بہت سا اسلامی و تاریخی مواد گم یا ضائع ہو گیا مثلاً بنی امیہ اور بنو ہاشم کی مبینہ چپقلش اور لڑائیاں، عباسیہ سلطنت اور فاطمی جنگیں، صلیبی جنگیں، نیز چنگیز خان اور ہلاکو خان کے حملوں وغیرہ میں بھی بہت سا مواد نظرِ آتش و برباد ہوا۔
مثلاً حجاج بن یوسف کی فوج نے خانہ کعبہ پر سنگ باری کی، عبداللہ بن زبیرؓ کو حرم میں قتل کر دیا گیا۔ کئی صحابہ کرام کی اولادیں حجاج بن یوسف کے خوف سے زیرِ زمین چلی گئیں۔
تاریخ ابن خلدون میں ہے کہ اموی جرنیل حصین بن نمیر نے کوہ ابو قبیس اور کوہ قیعقعان پر منجنیقین نصب کر کے خانہ کعبہ پر سنگ باری کی۔ سنگ باری اتنی شدید تھی کہ کوئی شخص طواف نہ کرسکا۔ اس حملے میں خانہ کعبہ کی چھت اور پردے بھی جل گئے ۔ لڑائی جاری تھی کہ یزید فوت ہو گیا۔ اسکی موت کی خبر جب عبداللہ بن زبیر کو ملی تو انہوں نے پکار کر کہا۔ ارے کم بختو اے عدواللہ! اب تم کیوں لڑ رہے ہو تمہارا گمراہ سردار تو فوت ہو چکا۔(تاریخ ابن خلدون ص684)
929ء میں قرامطہ (اسماعیلی شیعہ) فرقے کے پیروکار ابو طاہر سلیمان بن الحسن نے ایک لشکر جرار کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی اور حرم شریف میں داخل ہو کر قتل عام شروع کر دیا۔ ابو طاہر قرامطہ فرقے کے بانی”ابو سعید کا بھائی تھا۔ اس قتل عام میں مکہ شہر اور گرد ونواح میں ہزاروں افراد شہید کئے گئے جن میں طواف کرنیوالے سینکڑوں افراد بھی شامل تھے۔ بحرین کے شہر ہجر سے آنیوالے قرامطہ حجر اسود اکھاڑ کر ساتھ لے گئے۔ بیس سال سے زائد عرصے تک کعبہ کا طواف حجر اسود کے بغیر ہوتا رہا۔ ابو طاہر نے مکہ کا راستہ بھی بند کرنے کی کوشش کی تاکہ عازمین حج وہاں جانے کی بجائے ہجر آ کر حج کریں لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی۔
میں نے اوپر ابھی چند ہی واقعات کی مثالیں دی ہیں اگر سخت اور حساس واقعات بیان کروں تو یقیناً تلواریں نیاموں سے باہر آجائیں۔
بعض شارحینِ احادیث کا کہنا ہے کہ تاریخ میں حدیث کی طرح روایت و درایت اور راویوں کی اسناد کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اس لئیے تاریخ کی کوئی اہمیت نہیں۔
میں کہتا ہوں کہ اگر تاریخ کو بھی حدیث کی طرز پر لکھا جاتا تو رسول اللہ ﷺ اور ابتدائی اسلامی دور کی کتنی تاریخ مرتب ہو پاتی؟ رسول اللہ ﷺ کی سیرت تو کجا دوسروں کی تاریخ لکھنا بھی مشکل ہو جاتا۔ ویسے بھی حدیث کی کتب رسول اللہ ﷺ کے اقوال و اعمال کا مجموعہ ہیں جن میں ہر قسم کے تاریخی واقعات نہیں سما سکتے لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پھر تاریخ کو پرکھنے کا کیا پیمانہ ہے؟ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اسناد سے مزیّن احادیث پر بھی محققین کی جانب سے شدید اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔
جس طرح تاریخ عجیب و غریب ہے اسی طرح احادیث بھی گھڑی گئیں۔ بعض محدثین نے اپنی ذات یا دوستوں کو فوائد پہنچانے کے لئے بھی احادیث بیان کیں مثلاً اگر دو افراد میں کسی معاملے پر تنازعہ ہے اور اس دوران کوئی محدث مل گیا تو محدث نے اپنے قریبی دوست کو فائدہ پہنچانے یا جسے اس نے اپنے تئیں حق پر سمجھا ایک آدھ حدیث سنا کر اس کے حق میں فیصلہ کروا دیا۔ یا محدث نے بحث و مباحث میں اپنے مؤقف کو تقویت دینے کے لیے حدیث گھڑ کر بیان کر دی۔
ان وجوہات کی بنا پر بعض علماء نے احادیث کی جانچ پڑتال کا ایک فن ایجاد کیا جو اپنے آپ میں بڑا گنجلگ اور پیچیدہ ہے۔ لیکن مسئلہ فن کے پیچیدہ ہونے سے زیادہ اس فن کو ایجاد کرنے والے علما کا ہے کہ جن کو ایک بڑی تعداد نے قابلِ اعتماد ہی نہ سمجھا۔
اکثر علماء کا استدلال ہے کہ احادیث کو قران کی روشنی میں پرکھا جائے لیکن یہاں بھی مسئلہ آڑے آتا ہے کہ ہر فرقے نے قرآنی آیات کی تفاسیر و تراجم بھی اپنے اپنے مؤقف کے مطابق کر رکھے ہیں ہر ایک قرآن سے بھی اپنی مرضی کی حکمت تلاش کرتا ہے، ایسے میں احادیث کی پرکھ بھی انتہائی مشکل عمل دکھائی دیتی ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ شیعہ اور سنی محدثین و مجموعہ احادیث بھی الگ الگ ہیں۔ ہر دو کے مذہب کی اساس اپنی اپنی من پسند روایات پر ہے۔ جس نے جن روایات کو سچ مانا اس کے ساتھ ہو لیا۔ کسی روایت کو قبول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کی من پسند شخصیت کے حق میں ہو جبکہ مخالف روایت آنکھ بند کر کے رد کر دی جائے گی۔
تاریخ پڑھنے کے بعد ہر کسی کا اپنا ہی تصور ابھرتا ہے۔ کسی کو تحقیق کرنے کا موقع ملے بھی تو اسے اپنی ذاتی سمجھ بوجھ پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ذی روح حقیقت کو کھود کر نہیں نکال سکتا۔
بہرحال یہ ایک طویل موضوع ہے جس پر الگ سے کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں اتنی عرض کرنا مقصود ہے کہ آج کے جدید دور میں انٹرنیٹ، اخبارات اور مواصلات کا نظام ہونے کے باوجود لوگ جھوٹ پہ جھوٹ لکھتے اور بیان کرتے ہیں تو سوچیے کہ جب بجلی نہ تھی، مواصلات اور رابطے نہ تھے۔ پڑھنے لکھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی اور وہ بھی کسی ایک جگہ پر جمع نہیں تھے تب گھپ اندھیرے صحراؤں میں کسی کٹیا میں بیٹھا شخص کیا کیا افسانے نہ گھڑتا ہو گا اور اس کے ہمنوا و معتقد بھی اسکی تائید میں سرگرم رہتے ہونگے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تواریخ، مغازی و سوانح نگاری مرتب کرنے میں جنگجوؤں، امراء و بادشاہوں کا اثر و رسوخ رہا ہے۔
یہ بھی مت بھولیے کہ ابن سعد، ابن اسحاق و ہشام اور غزالی وغیرہ بھی ہم تک آکسفورڈ پرنٹنگ پریس کے  ذریعے ہی پہنچے تھے جبکہ اہلِ دنیا بالعموم اور ہمارے مسلمان بالخصوص بنی بنائی (فیبریکیٹڈ) کہانیوں کے اسقدر عادی ہیں کہ یہاں سچ کو بھی جھوٹ کی طرح اہتمام کے ساتھ پیش کرنا پڑتا ہے ورنہ لوگ مانتے ہی نہیں۔
ہمارے معاشرے کا دوسرا بڑا المیہ ہے جھوٹ اور منافقت۔ پیدا ہوتے ہی ہر بچے کے دماغ میں تھوک کے حساب سے جھوٹ بھر دیا جاتا ہے، ادھیڑ عمر میں پہنچ کر جب اسے سچائیوں کا پتا چلتا ہے تو تب وہ اس قابل نہیں رہتا کہ سچ بولنے کی قیمت ادا کر سکے۔ پہلے وہ جھوٹ پر زندہ تھا اب وہ منافقت پہ زندہ رہتا ہے اس سے قطع نظر کہ وہ کس فرقے یا جماعت سے ہے۔ ویسے بھی ‏ﺳﻮﭼﻨﺎ ﺣﻘﯿﻘﺘﺎً ﺍﯾﮏ کٹھن عمل ﮨﮯ ﺍس ﻟﯿﮯ اکثر ﻟﻮﮒ ﺻﺮﻑ ﺍﻧﺪﺍﺯﮮ ﻟﮕﺎﺗﮯ اور ﻓﯿﺼﻠﮯ ﺳُﻨﺎتے ہیں۔
مذاہب سے متعلق تاریخی واقعات کو موجودہ کتب سے دلائل دے کر منوانا یا رد کرنا بھی مضحکہ خیز ہے۔
کیونکہ یہ دلائل اگر مختلف فرقوں کو قبول ہوتے تو چودہ سو سال میں الجھنیں اور اختلافات حل کر لیتے۔ اگرچہ سنی حضرات شیعہ کی کتب اور شعیہ حضرت سنیوں کی کتب سے اپنے اپنے مؤقف کو ثابت کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ نکال ہی لاتے ہیں اس کے باوجود ہر ایک دوسرے کا انکار ہی کرتا آیا ہے۔ پہلے کا رد دوسرا جوتے کی نوک پہ رکھتا ہے اور دوسرے کی دلیل پہلے کی جوتی پہ ہوتی ہے۔ یہ وہ تماشہ ہے جو صدیوں سے جاری ہے۔
اگرچہ کسی بھی چیز کو قبول یا رد کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی منطق یا دلیل لازم ہوتی ہے۔ لیکن کسی چیز پر اندھا یقین کرنے کے لیے کسی دلیل کی نہیں بلکہ دل مطمئن ہونے کی ضرورت ہوتی ہے یعنی جہاں طبیعت مائل ہو وہیں پر یقین کر لیا جاتا ہے۔ تنہا عقل کبھی کسی نظریے کا انتخاب نہیں کرسکتی۔ کسی شے یا بات کو حقیقت سمجھ کر قبول کرنا محض عقلی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ اس میں اطمینانِ قلب (طبیعت بہ مائل) بھی کار فرما ہے۔
کسی سیانے نے کہا تھا کہ اطمینانِ قلب کی دنیا میں یقین کی کمزور ترین صورت وہ ہے جس کے ثبوت میں دلیل لازم ہو۔ جبکہ عقل کی دنیا میں کمزور ترین صورت وہ ہے جب کسی شے کو بلا دلیل حق تسلیم کر لیا جائے۔
میں کہتا ہوں کہ مذہب بھی عقل کو ہی مخاطب کرتا ہے اور عقل ہی ٹھوک بجا کر اسے چنتی ہے۔ امر واقعہ  یہ ہے کہ جس طرح انسان وقت کے ساتھ اردگرد کی مادی اشیاء اور اقتصادیات کو ترقی و ترویج دیتا گیا اسی طرح سیاسی، سماجی اور مذہبی افکار میں بھی بتدریج ردوبدل لاتا رہا، ہزاروں سال پہلے کا انسان جس ماحول اور مذاہب میں جیتا تھا وہ آج سے یقیناً بہت مختلف نوعیت کے تھے اور اگر ہم صرف اسلام کی ہی بات کریں تو آٹھ نو سو سال پہلے جو مسالک و فرقے فعال و سرگرم تھے ان میں کئی تو وقت کے ساتھ بدل چکے ہیں اور بعض کا تو سرے سے وجود ہی مٹ چکا ہے، اسی طرح جو مسالک و مذاہب آج کی تاریخ میں موجود ہیں وہ پانچ سو سال بعد شاید کسی اور شکل میں ڈھل چکے ہوں گے۔ بہرحال یہ ایسا گورکھ دھندا ہے جس کی گتھیاں سلجھانا شائد نا ممکن ہے۔
(تالیف :آصف وڑائچ)

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply