رابندر ناتھ ٹیگور کا ناول،گورا۔۔تصنیف حیدر

کلکتہ شہر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔معلوم ہے کہ وہاں غالب نے اٹھنی پر شاندار حویلی کرائے پر لی تھی، یہ بھی جانتا ہوں کہ داغ کی محبوبہ یہیں رہا کرتی تھیں۔فورٹ ولیم کالج، کلاسیکی متون کی تیاری کا وہ دور اور ہندوستان کی راجدھانی ہونے کا فخر۔یعنی کہ کلکتہ کے دامن میں کیا کچھ نہیں رہ چکا ہے۔ایڈن گارڈن ، موہن بگان اور ہاوڑا بریج کے نام ہم بہت پہلے سے سنتے چلے آئے ہیں۔کبھی بڑوں کی زبانی، کبھی دوستوں کی تو کبھی کتابوں کی۔مگر اب کی  بار رابندر ناتھ ٹیگور نے انیسویں صدی کے اواخر میں موجود کلکتہ شہر کے درشن کرائے ، اور ایسے کرائے کہ وہاں کے گھروں میں لے گئے، وہاں کے لوگوں سے ملوایا،بنگالیوں کا مزاج سمجھایا، ان کے ریت رواج، ان کی رسمیں، ہندو مسلمانوں کا برطانوی حکومت کے خلاف متحد ہوکر لڑنا اور ہندو دھرم، برہمن واد اور برہمو سماج کی کشمکش کو بھی آنکھوں پر نمایاں کروایا۔

اس دور میں موجود لڑکیوں اور عورتوں کے گھریلو و تعلیمی معاملات و مسائل کو اجاگر کیا۔مردوں کی مختلف قسم کی سوچیں، عام زندگیوں میں اخبار کی اہمیت اور مذہب کے ساتھ ساتھ سماج کی سختی و  پابندی  پر بھی ایسی ایسی بحث کروائی کہ ہم واقف ہوسکے کہ اس دور میں جہاں سے ٹیگور اپنے شہر ، اپنی ریاست اور اپنے ملک کو دیکھ رہے تھے، اس میں انہیں کس قسم کی مشکلات دکھائی دے رہی تھیں، وہ کیسے مسئلے تھے، جن میں سے بہت سے ابھی بھی ہماری گردنوں میں طوق کی طرح پڑے ہوئے ہیں اور اس زمانے میں گورا کو پڑھ کر ہمیں کیا فائدہ حاصل ہوگا۔

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ گورا ایک ایسا ناول ہے، جس کا مطالعہ ہمیں یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ انسان ، جب تک مذہبی احکامات اور فرسودہ ریتی رواج کے چکر میں پڑ کر اپنا وقت برباد کرتا رہے گا، تب تک اس کے لیے ایک ایسے سماج کا تصور ناممکن ہے، جہاں سب کے لیے برابری کے مواقع میسر آسکیں۔ٹیگور اس برابری کے فلسفے پر ترقی پسندوں جیسا اصرار نہیں کرتے ہیں،بلکہ ان کا ماننا ہے کہ انسان کسی بھی دھرم سے تعلق رکھتا ہو، اسے بس اپنی صداقت کو سمجھنا چاہیے، اسے سوچنا چاہیے کہ خدا اتنا معمولی اور ایسا ہلکا نہیں ہوسکتا کہ انسانوں میں اونچ، نیچ اور تفرقے جیسی چیزوں کو پروان چڑھائے۔ کسی کو برہمن بنا کر اسے اونچی گدیوں پر بٹھادے اور کسی کو شودر بنا کر اسے پستیوں میں پھینک دے۔

ٹیگور کے ناول سے معلوم ہوتا ہے کہ انیسویں اور بیسویں صدی کے درمیان جھولتا ہوا بنگال، کیسے دو مختلف سوچوں کے لیے مہابھارت کا میدان بنا ہوا تھا۔ایک طرف برہمو سماج کے لوگ تھے، جو تعلیم اور نئی تہذیب کو اپنا کر انگریزوں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے تو دوسری طرف قدامت پسند ہندو ، جن کی سوچ انہیں مسلسل ماضی کی طرف دھکیلتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔دونوں ہی فرقے اپنی اپنی کوششوں اور معاملات میں انتہا پر پہنچے ہوئے تھے، دونوں ایک دوسرے سے سخت اختلاف رکھتے تھے اور بعض اوقات یہ اختلاف ، نفرت اور کنارہ کشی کی صورت بھی اختیار کرلیتا تھا۔ٹ

یگور نے دونوں ہی فرقوں پر کہانی میں ہی مثبت تنقیدی رویہ اختیار کیا ہے۔ دونوں ہی جانب سخت گیر قسم کے لوگ بھی تھے، جیسے برہمو سماج میں ہرن بابو(جو اپنی انا کے آگے ہندو دھرم کے لوگوں کو نیچ، ان پڑھ اور قدامت پسند کہہ کر رد کرتے تھے )تو دوسری طرف ہندو دھرم کے ماننے والے  گورا  اور ابھناش جیسے لوگ(جو اپنی روڑھی وادی سوچ کے آگے اتنے مجبور تھے کہ ہندوستان پر انگریزوں کے تسلط کو اپنے بزرگوں کا ایک مہاپاپ سمجھ کر ہون کے ذریعے اس کا پرائشچت کرنا چاہتے تھے)۔

ٹیگور نے  برہمو سماج پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ وہ اپنی بنیادوں کو الگ کرکے، ہندوستان کے ایک بڑےحصے کو کاٹ کر کیسے ہندوستان کی فلاح و بہبود کا دعویٰ کرسکتا ہے جبکہ ماضی پرستوں پر ان کا یہ اعتراض ہے کہ مذہبی احکام کے نام پر انسان کو بانٹنا، اسے سماجی جبر کی نذر کردینا، چھواچھوت اور بات بات پر انسان کو انسانیت سے گری ہوئی کوئی چیز سمجھنے سے کیا ہندو مذہب کے خلاف اسی کے ماننے والوں میں ایک قسم کے عدم تحفظ کا احساس نہیں پیدا ہوگا؟

ٹیگور نے اپنے ناول میں صاف صاف سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو دوسروں پر اپنا مذہب یا نظریہ لادنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ایک ایسا سماج جہاں بہت سے دھرم کے ماننے والے ، بہت سے فرقوں میں بٹے ہوئے لوگ ہوں، وہاں مصالحت کے راستے نکال کر سب کو متحد رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔تعلیم کا دامن ہاتھ سے نہین چھوڑنا چاہیے۔برداشت اور محبت کے جذبوں کو جس قدر عام ہوسکے، اتنا عام کرنا چاہیے۔ٹیگور اس بات کی مخالفت کرتے ہیں کہ کسی پر کرسچین  ہونے کا الزام لگایا جائے یا کسی کو ذات برادری باہر کرنے کا مشورہ دیا جائے۔اس طرح کی باتوں سے ان کے نزدیک لوگوں کو صرف بانٹا جاسکتا ہے۔

ٹیگور نے ناول میں اسی لیے ایسے مضبوط کردار کے لوگ بھی دونوں جانب رکھے ہیں، جن سے نیکی اور مصالحت کے رویے کی بہتر مثال قائم کرنے میں مدد مل سکے۔اس لیے برہمو سماج میں ایک طرف پاریش بابو ہیں تو وہیں سخت گیر ہندو گھرانے میں جنم لینے والی آنند موئی بھی ہیں۔پاریش بابو اور آنند موئی دونوں دو بوڑھے، تجربہ کار اور زمانے کے سرد و گرم جھیلے ہوئے لوگ ہیں، جو سماج کی مخالفت اور اس کے طعنوں، تشنوں کا کھل کر مقابلہ کرتے ہیں۔جو محبت میں بے غرض ہیں اور جن کے پاس اپنے اعمال و افعال کے لیے دوسروں سے کئی گنا بہتر جواز موجود ہیں۔ٹیگور نے انہی کے ذریعے ناول میں منفی سے منفی سماجی لہر کو چٹکیوں میں اڑانے کا کام کیا ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ انسان اگر سچائی کو سمجھتا ہو، جانتا ہو اور اس کے دل میں انسانوں سے محبت کا جذبہ ہو تو وہ کسی بھی طرح کی مشکل کو جھیلنے میں ناکام نہیں ہوگا۔انسان مشکلوں سے جب تک ہی ڈرتا ہے، جب تک اس کے دل میں اپنے فیصلوں کے تعلق سے کوئی کشمکش موجود ہو۔مکمل یقین اور انتہائی درجے کی محبت جہاں موجود ہو، وہاں انسان پر لگا ہوا کوئی بھی الزام یا اس کے خلاف کی جانے والی کیسی بھی سازش اسے اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹاسکتی۔ان دو بوڑھے کرداروں میں بھی پاریش بابو کا رجحان اپنے فرقے کی جانب جھکتا ہوا بھی محسوس ہوتا ہے، وہ اس کی مخالفت کے باوجود اس کے لیے دل میں بہت احترام و ادب کا جذبہ بھی رکھتے ہیں اور اس کے سامنے صفائی بھی پیش کرتے ہیں،

جبکہ آنند موئی جیسی بوڑھی عورت، جسے آخر میں ٹیگور نے بھارت ماتا سے تشبیہ دی ہے، کسی بھی طرح کا خوف نہیں پالتیں، نہ وہ صفائی دیتی ہیں، نہ وہ اپنے فرقے تک محدود ہونے کا کوئی دعویٰ کرتی ہیں۔ان کا دل اتنا بڑا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ہر مذہب اور ہر فرقے سے تعلق رکھنے والے شخص کے لیے جگہ ہوسکتی ہے۔اسی لیے جب برہمو سماج کی لڑکی لولتا اور ہندو دھرم ماننے والا بنوئے شادی کا ارادہ کرتے ہیں تو آنند موئی ہی ہوتی ہیں، جو نہ صرف ان دونوں کی شادی میں شریک ہوتی ہیں بلکہ دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان پل کا سا کام کرتی ہیں۔

اس ناول کو پڑھ کر اس دور میں بنگالی عورتوں کی حالت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ایک طرف آنند موئی جیسی عورتیں تو ہیں ہی، جو کسی بھی طوفان سے ٹکرانے کی ہمت رکھتی ہیں، مگر دوسری طرف ہری موہنی جیسی عورتوں کاکردار بھی بہت کچھ جاننے اور سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ایسی عورت، جس کا شوہر مر جائے، اس کی حالت سماج میں کس قدر نازک ہوجاتی ہے اور وہ جائداد ، لالچی رشتوں داروں اور سماجی مسائل کی تثیلث میں کیسے گھر کر رہ جاتی ہے۔ ہری موہنی کا کردار نہ صرف ہندو عورتوں کی بے چارگی کا بیان ہے، بلکہ خاص طور پر انسان کی ایک عجیب کمزوری کی طرف بھی ناول نگار نے اس کردار کے ذریعے اشارہ کیا ہے۔آدمی کے ہاتھوں سے جب دنیا نکل رہی ہو، کھسک رہی ہو، لوگ اسے چھوڑ رہے ہوں، اس کے پاس کوئی اپنا نہ ہو، وہ مفلوک الحال ہو تو ایسے میں وہ بڑا خدا ترس اور عبادت گزار بن جایا کرتا ہے۔

مگر جیسے ہی حالات بدلتے ہیں ، وقت کروٹ لیتا ہے، اس کے پاس رہنے سہنے کا اچھا ٹھکانہ ہوجاتا ہے، مال میسر آجاتا ہے، راحت مل جاتی ہے اور کوئی کھٹکا نہیں رہتا تو آدمی پھر اسی اکڑ کا شکار ہوجاتا ہے، جیسا کہ وہ غریب اور لاچار ہونے سے پہلے ہوا کرتا تھا اور اس کا انسان کی عمر سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ اس کے مزاج سے ہے۔

گورا نامی اس ناول کا اصل موضوع کہیں نہ کہیں سماج ہے۔اس ناول کا مرکزی کردار ‘گورموہن بابو عرف گورا’جو کہ سماجی پابندیوں کو مذہب کے استحکام کی ایک شکل مانتا ہے اور دوسروں کو گرما گرم بحثوں کے ذریعے یہ بات منواتا بھی رہتا ہے، وہ بھی جب زمین پر چکر لگاتا ہے، کلکتہ سے آگے دیہاتوں میں گھومتا پھرتا ہے تب اس پر یہ ننگی حقیقت روشن ہوتی ہے کہ سماج کس طرح مذہبی احکامات کے نا م پر اپنا الو سیدھا کرتا ہے اور جو سماجی پابندیاں وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتیں وہ کیسے کچھ خاص لوگوں کے لیے عمدہ معاشی وسائل میں تبدیل ہوتی ہیں اور کس طرح عوام کے ایک بڑے حصے کے لیے ظلم و جبر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔کیوں ایسے سماج میں بیٹیاں پیدا کرنا جرم ہوجاتا ہے اور مذہبی برتری کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنانا آسان ہوتا جاتا ہے، ان کی جیبوں کو اینٹھا جاسکتا ہے۔

ہونے کو یہ ایک صدی پرانا ناول ہے، مگر ہم جس دور میں جی رہے ہیں، اس میں گورا میں دکھائی جانے والی حقیقتیں ہم سے بہت دور نہیں ہیں۔ہم کوئی بھی مذہب ماننے والے ہوں، کسی بھی فرقے سے تعلق رکھیں۔ہم سب کے سب ایک ہی بات سے بے وقوف بنائے جاتے ہیں، ایک ہی طعنے کو نشتر کی طرح آزماتے ہیں کہ فلاں صاحب پر تو مغربی تہذیب کا بڑا اثر ہوگیا ہے۔ہم نئی، بہتر یا سلجھی ہوئی فکر کو جلد سے جلد مغرب سے منسوب کرکے اپنا پیچھا اس سے چھڑاتے وقت بھول جاتے ہیں کہ ہم ساتھ ہی ساتھ اپنی رجعت اور قدامت پرستی کا کھلم کھلا اظہار کررہےہیں۔گورا میں کسی جگہ پاریش بابو کسی کو سماج کے تعلق سے تفصیلی طور پر سمجھاتے ہیں، اس کی تلخیص یہ ہے کہ جو سماج خود کو تبدیل کرنے پر راضی نہیں، اس سے چمٹے ہوئے مذہبی احکام اسی کے حق میں خون چوسنے والے کیڑے کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔

معاف کیجیے گا، عنوان دیکھ کر آپ کو لگا ہوگا کہ میں کہانی کے پلاٹ کے بارے میں بتاؤں گا، کرداروں کا تعارف پیش کروں گا۔ناول کی تخلیقی کمزوریوں اور خوبیوں کو گنواؤں  گا۔یہ سب میرے کام نہیں ہیں۔ہر قاری جو، اس ناول کو پڑھے گا،وہ اپنی جانب سے اس کی تخلیقی کمزوریوں اور خوبیوں کا فیصلہ کرے گا۔کہانی اتنی دلچسپ ہے کہ اگر اسے اتنے سے مضمون میں بیان کیا جاسکتا تو ٹیگور قریب سات سو صفحات کا یہ ناول کیوں لکھتے، مختصر کہانی لکھ کر بات نہ ختم کردیتے۔مختصر کہانی یا ناول کے درمیان بڑا فرق دراصل کسی موضوع پر ناول نگار کے خیالات کی مختصر یا تفصیلی بحث ہی ہے، ورنہ کہانی کیا ہے، اسے تو ون لائن میں بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔

آج گورا جیسے ناول اس لیے پڑھے جانے چاہیے کیونکہ ہم سب بھی ایک بغل میں مذہب اور دوسرے میں سماج کی مقدس قانونی کتابیں لیے گھوم رہے ہیں۔ہمارے لیے ہمارے سماج اور ہمارے مذہب یا فرقے پر تنقید ناقابل برداشت ہے۔ہم اپنے آسمانی صحیفوں پر کسی کے انکار کو ان کی تذلیل سمجھتے ہیں۔ہمارے نزدیک تقدیس کا مطلب ہی یہ ہے کہ دوسرے انسان کو یا تو اپنے مذہب پر رائے دینے سے باز ہی رکھا جائے یا پھر اس کو کم فہم، جاہل، سماج کے لیے خطرہ یا پھر گستاخ وغیرہ قرار دے کر ٹھکانے لگانے کی کوشش کی جائے۔

ہم آج بھی کہیں نہ کہیں دوسروں کو برادری باہر کردینے کی سماجی بے وقوفی کو بڑا اخلاقی قدم اٹھانے سے تعبیر کرتے ہیں۔سوال پوچھنے سے ڈرتے ہیں اور سوال پوچھنے والوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ہمیں اس ناول کا مطالعہ کرنے سے اس لیے بھی فائدہ ہوگا کیونکہ ہم محبت کرنا بھول چکے ہیں، محبت کرتے بھی ہیں تو ذرا ذرا سی سماجی یا مذہبی رکاوٹوں کی وجہ سے ڈر جاتے ہیں، پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔لولتا اور بنوئے کی محبت کا فسانہ اس ناول میں خاص طور پر نوجوانوں کو یہ بات سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ جن دلوں میں اپنی ہی محبت کا احترام نہ ہو، اسی کو حاصل کرنے کی ہمت نہ ہو، اس کی سچائی کو ماننے کا حوصلہ نہ ہو، وہ وطن، مذہب، سماج یا خاندان سے محبت کا کتنا ہی دعویٰ کرتے رہیں، جھوٹے ہی رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تو ان سب باتوں کی وجہ سے اگر جی میں آئے تو یہ ناول پڑھیے اور اپنے دوستوں کو بھی پڑھوائیے۔میں نے یہ ناول اپنے دوست فیض رضوی کی مدد سے جامعہ کی لائبریری سے نکلواکر اردو میں پڑھا ہے، جس کا ترجمہ سجاد ظہیر نے کیا ہے،اور کتاب ساہتیہ اکاڈیمی سے قریب پچپن برس پہلے شائع ہوئی ہے۔

Facebook Comments

سید تصنیف
تصنیف حیدر دلی میں مقیم شاعر، ادیب اور معروف بلاگر ہیں۔ آپ لمبے عرصے سے "ادبی دنیا" نامی بلاگ کے ذریعے اردو کی خدمت کرتے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply