• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • زخمی بلوچستان۔۔۔ڈاکٹر ناظر محمود/انگریزی سے ترجمہ: فرید مینگل

زخمی بلوچستان۔۔۔ڈاکٹر ناظر محمود/انگریزی سے ترجمہ: فرید مینگل

اپریل کی 18 تاریخ کو بلوچستان کے ضلع گوادر میں اورماڑہ کے قریب نامعلوم مسلح حملہ آوروں نے 14 مسافروں کو قتل کر دیا۔ مقتول بس کے ذریعے کراچی سے گوادر جا رہے تھےجہاں انہیں مختلف بسوں سے اتار کر شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس سے پہلے ایک ہفتہ قبل ہزارہ برادری کو کوئٹہ میں بم دھماکے کے ذریعے نشانہ بنایا گیا اور 20 افراد قتل ہوئے۔ بلوچستان میں ایسے واقعات پچھلے کئی سالوں سے تسلسل کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔ جب کہ درجنوں صحافی بھی ان ”نامعلوم افراد“ کی وحشت کا نشانہ بن چکے ہیں۔

قابلِ تشویش امر یہ ہے کہ اس صورت حال پر لب کشائی کرنا ریاست کو اچھا نہیں لگتا۔ وہ جو اس پر بات کرنے کی ہمت کرتے ہیں، انہیں سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا جاتا ہے، غداری کے سرٹیفیکیٹ دیے جاتے ہیں، اور انہیں مختلف قسم کی ذہنی،جسمانی اور سماجی اذیتیں دی جاتی ہیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ بلوچستان سے کوئی خبر نہیں آتی۔ جب کوئی غیرمعمولی حادثہ یا سانحہ پیش آتا ہے تو لوگ اس کے بارے میں جان ہی لیتے ہیں۔ کسی بم دھماکے یا پھر ٹارگٹ کلنگ کی خبر پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ مگر بلوچستان کے تاریخی و سیاسی تجزیات پر ذاتی و ریاستی قدغن و پابندی عائد ہے۔ بالخصوص آپ کو اردو پریس میں بمشکل ہی بلوچستان کی صورت حال پر ایک اچھا اور تفصیلی تجزیہ ملے گا۔ آپ کو بیرونی مداخلت کا ریاستی بیانیہ بار بار پڑھنے کو ملے گا۔ آپ کو بعض غیر بلوچستانی کالم نگار یہ ڈھنڈورا پیٹتےضرور ملیں گے کہ بلوچستان کو بلوچستان کے سرداروں نے پسماندہ رکھا ہے، اور ہماری ریاست کو اس کا نیک کام کرنے نہیں دیتے، ترقیاتی کاموں میں مداخلت کرتے ہیں، رکاوٹ ڈالتے ہیں۔

البتہ انگریزی اخبارات میں صورت حال معمولی طور پر بہتر ہے۔ قارئین کی تعداد اردو پریس کی نسبت کم ہونے کی وجہ سے کچھ کالم برداشت بھی کیے جاتے ہیں۔ مگر وہی آرٹیکل اردو میں دن کی روشنی نہیں دیکھ پاتے۔ نتیجے کے طور پر بلوچستان کے متعلق باقی صوبوں کے لوگ کچھ نہیں جانتے، ایک طرح سے جہالت کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر بی بی سی کے لیے کام کرنے والے ایک صحافی نے لاہور میں بلوچستان کے بارے میں لوگوں سے پوچھا تو لوگوں نے کچھ بتانے یاپھر کچھ جاننے کے قابل ہونے سے معذرت کی۔

اس نے کچھ تعلیمی اداروں کی بھی یاترا کی، طلبہ سے بلوچستان کے متعلق بڑے سیدھے سادھے سوالات کیے مگر بمشکل ہی کوئی مثبت جواب ملا۔ کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے کسی اور شہر کا نام بھی انہیں یاد نہیں تھا۔ بلوچستان میں حالیہ سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں کے متعلق بھی وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہ صورت حال کافی خطرناک ہے جو کہ بیگانیت اور لاپرواہی کو مزید پروان چڑھاتی رہے گی۔ بلوچستان کے لیے ہمدردی کی یہ بہتات قابلِ تشویش ہونی چاہیے۔ پی ٹی وی پر ایک اتفاقی بلوچی چاپ قومی ہم آہنگی کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔

اس لحاظ سے مسئلہ بلوچستان کے دو رخ ہیں۔ ایک سیاسی، دوسرا تاریخی۔ باقی تمام مسائل جیسے کہ معاشی، لسانی، مذہبی و فرقہ واریت ان سب کا سرچشمہ یہی دو مسائل ہیں۔ تاریخی طور پر یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم کم ازکم بلوچستان کی 200 سالہ تاریخ سے واقف ہوں۔ جو کہ انیسویں صدی کے اوائل سے شروع ہوتی ہے۔ 1839 میں خان محراب خان قبضہ گیر انگریز کے ساتھ بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا، اور آنے والے بقیہ 100 سالوں تک مقامی لوگوں نے قبضہ گیر کے خلاف اپنی آزادی کی جنگ جاری رکھی۔ یہ تاریخ ہماری درسی کتب سے مکمل طور پر غائب ہے، جب کہ ہماری کتابوں میں سراج الدّولہ اور ٹیپو سلطان پر مضامین دستیاب ہیں۔

1947سے لے کر اب تک کے حادثات و واقعات کے تسلسل نے بلوچستان کو اس کے بنیادی انسانی و سیاسی حقوق سے محروم رکھا۔ یہ حقوق کسی بھی جمہوری نظام کے بنیادی عناصر ہوتے ہیں۔ جمہوریت کو آمریت اور اور مطلق العنان طرزِ حکومت کی خاطر ہمیشہ بدنام کیاگیا۔ اس کی بدولت صوبوں کا بھی نقصان ہوا۔ ریاست نے وہی حکمتِ عملی اختیار کی، خواہ کوئی بھی تخت پر ہو۔ اور وہی بلوچستان میں بھی نافذالعمل رہا ہے، چاہے وہ میجر جنرل سکندر مرزا ہوں کہ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو ہوں کہ جنرل پرویز مشرف، ریاست نے کبھی بھی لوگوں کو ان کے بنیادی جمہوری حقوق سے استفادہ کرنے نہ دیا۔

صاف اور شفاف انتخابات میں حصہ لینے کی قابلیت جمہوریت کی ایک بنیادی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ پانچ سالہ دورانیہ پورا کرنا دوسری۔ لیکن بلوچستان میں مذکورہ بالا دونوں ضرورتوں کو ہمیشہ رونداگیا، ان کی پامالی کی گئی۔ اور یہی کچھ کسی حد تک مرکز اور باقی اکائیوں میں بھی ہوا ہے۔ اختیارات لوگوں سے چھین کر کہیں اور منتقل کیے گئے۔ بالخصوص انہیں نوازا گیا جو یا تو منتخب ہی نہیں ہوئے تھے یا پھر ان کا انتخاب غیرسیاسی و غیرجمہوری قوتوں کی مداخلت سے ممکن ہو پایا۔

بلوچستان کے معاملے میں یہ حربے باقی صوبوں کی نسبت کافی شدت سے آزمائے گئے۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ بلوچستان کے لیے محض چند پیکجز کے اعلانات کی بجائے عام لوگوں کو براہِ راست حکومت سازی اور فیصلہ سازی میں شامل کرنے ضرورت ہے۔ مگر اس عمل سے ریاست اور فیصلہ ساز قوتوں کو بہت کچھ کھونے کا ڈر اور خوف ہے۔ پاکستان کو بلوچستان سے میسر فائدوں کے لحاظ سے بلوچستان ایک ایسا خطہ ہے جسے بزورِ بازو مکمل طور پر اپنی گرفت میں رکھنا چاہیے۔

جمہوریت کا فقدان لوگوں میں ہمیشہ شکوہ و شکایتوں کو جنم دیتا ہے۔ اس مسئلے کو دفن کرنے کے لیے لسانی، مذہبی اور فرقہ واریت جیسے تضادات کو ابھارا جاتا ہے۔ یہ صرف بلوچستان میں نہیں ہوتا۔ ہم نے نوے کی دہائی میں لسانی سیاست کے ابھار کو دیکھا۔ جس سے سندھی اور اردو بولنے والے متاثر ہوئے۔ اور جنرل ضیاالحق نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ایسے ہی فرقے کی بنیاد پر سیاست ہمیشہ جمہوریت کو نقصان اور غیرسیاسی و غیرجمہوری قوتوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ جس کی واضح مثال مذہبی عناصر کو مکمل چھوٹ، فرقہ بندی کو پنپنے کا موقع اور تشدد کے ذریعے اپنے نفرت انگیز ایجنڈے کی تبلیغ و ترویج کا موقع پانا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں ہزارہ برادری، اہلِ تشیع، پنجابی اور سرائیکی کیوں حملوں کی زد میں ہیں۔۔۔؟!

بلوچستان میں غیر ریاستی عناصر چاہے وہ مذہبی انتہا پسند ہوں کہ بلوچ قوم پرست، امن و امان کی مخدوش صورت حال کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

ریاستی سالمیت کے لیے ایک مسلسل جاری و برقرار خطرہ جمہوریت کے لیے بھی ایک خطرہ ہوتا ہے۔ یہ چیز ریاست سے زیادہ سیاست اور سیاسی قوتوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اب یہ دیکھیں کہ صرف پچھلے سال ہی کے دورانیہ میں بلوچستان کے سیاسی مسائل کس طرح ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

نواز شریف نے اپنا جمہوری اعتماد نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو حکومت سازی کا موقع فراہم کر کے بحال کیا تھا۔ مگر 2018 میں اچانک سے تمام کی تمام نام نہاد جمہوری عمارت دھڑام سے نیچے گرتی ہوئی نظر آئی، جب جمہوری اصولوں کی توہین کی گئی۔ انہیں روندا گیا۔ بلوچستان عوامی پارٹی ”BAP“ کی راتوں رات تخلیق اور پھر متنازع ترین الیکشن کے ذریعے جام کمال صاحب کو وزارت اعلیٰ کا منصب سونپ دینے کے عمل نے جمہوریت کو مزید نقصان پہنچایا۔

تو ان سب کا کوئٹہ و گوادر کے قتال سے کیا تعلق۔۔۔؟!

حقیقت یہ ہے کہ جب تک آپ جمہوریت کو پنپنے اور نکھرنے کا ایک موقع فراہم نہیں کریں گے، تب تک امن، سلامتی اور پائیداری حاصل نہیں کر سکتے۔ اور جمہوریت کا مقصد تو روزی روٹی کمانے کا حق حاصل ہونا ہے۔ زندگی، حفظ و امان اور بلاخوف و خطر تعلیم پر دسترس ہی جمہوریت کا مقصد ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مندرجہ بالا سب حقوق بنیادی ہیں اور ہم ”نامعلوم افراد“ کا واویلا مچا کر اور ”بیرونی عناصر“ پر الزام دھر کر کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔ چاہے وہ بلوچستان ہو کہ پورا پاکستان۔ مذہبی شدت پسندی پر مکمل پابندی اور جمہوریت کی مضبوطی سے ہی بلوچستان میں شدت پسندی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اب ہمارے ریاستی اداروں کو شفاف سیاسی اور تاریخی تجزیاتی مباحثہ کو فروغ دینا ہوگا۔ بشرطیکہ وہ حقیقی طور پر بلوچستان کے مسئلے کا حل چاہتے ہیں، اس کے زخموں پر مرہم رکھنا چاہتے ہیں۔ خدارا، ماضی کی غلطیوں پر غور کریں، انہیں تسلیم کریں اور انہیں درست کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply