تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا۔۔سید مہدی بخاری

انسان کی فطرت میں ابدی چین نہیں، یہ جنت میں رہتے ہوئے بھی اکتا گیا تھا۔ جنت سے نکل کر ایک ہی سنگین پریشانی لاحق رہی، وہ تھی پیٹ بھرنے کا سامان مہیا کرنا۔ کاوش روزگار بنی آدم کا قرار لوٹ لے گئی۔ صدیاں گزریں، وہی پریشانی نسل در نسل بذریعہ نطفہ جنیاتی کوڈ میں منتقل ہوتی آج کے انسان تک صدیوں کی تھکن سمیٹے پہنچ چکی ہیں۔ ذاتی طور پر میرا رزق میرے پروردگار نے سفر سے وابستہ کر رکھا ہے۔ سفر کی چاہ نے آسائش زندگی مہیا کرنے کی بے چینی کو الگ تڑکا لگا رکھا ہے۔

کورونا نے جہاں کئی قابل انسانوں کو ہم سے چھین لیا وہیں کئی لوگوں کی حقیقی پہچان بھی کروا گیا۔ گزشتہ دن یکم جولائی کو پی ٹی ڈی سی نے ایک حکم نامے کے تحت کورونا کی صورتحال سے متاثر ہو کر شمال میں واقع اپنے تمام موٹلز کو نہ صرف بند کر دیا ہے بلکہ اپنے سٹاف کو نکال دیا ہے۔ ان کو بقایہ جات کے لئے محکمے سے رابطہ کرنے کا حکم نامہ تھما دیا گیا ہے۔

پی ٹی ڈی سی سے میرا بہت پرانا اور گہرا تعلق بطور سیاح رہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے منشور میں ایک اہم نقطہ سیاحت کو فروغ دینے کا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اپریل 2018 میں نتھیا گلی کے مقام پر ٹورازم کانفرنس منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس میں بڑے لوگ آئے۔ صدر پاکستان سے لے کر زلفی بخاری صاحب اور دیگر وزراء سے لے کر کارپوریٹ سیکٹر کے سی ای او صاحبان کے علاوہ بیوروکریسی کے کرتے دھرتے بھی موجود تھے۔ وہ سارا ایونٹ میری تصاویر سے سجایا گیا تھا اور میں keynote سپیکرز میں شامل تھا۔ اپنے بیان سے پہلے میں ان بڑوں کے بلند و بانگ دعوے و جذباتی تقاریر سنتا رہا۔ یقین مانیئے مجھے تب بھی ہال میں ہنسی آتی رہی کیونکہ لائحہ عمل کسی کے پاس نہیں تھا بس مستقبل کے سہانے خواب تھے یا سبز باغ تھے۔ اسی تقریب میں Jazz کے سی ای او عامر صاحب نے جو اپنی پریزینٹیشن ملٹی میڈیا پر پیش کی وہ ساری کی ساری میرے کام سے بھری ہوئی تھی۔ بعد از خطاب میں نے عامر ابراہیم صاحب کو کہا کہ حضور آپ تو کم سے کم کاپی رائٹس کا خیال رکھیں آپ تو ایک بڑے ادارے کے سی ای او ہیں۔ مسکراتے ہوئے جواب آیا ” جس نے یہ پریزینٹیشن تیار کی اس تک آپ کا پیغام پہنچا دوں گا”۔

اب جب ایک سرکاری ادارہ بند ہونے جا رہا ہے بلکہ عملی طور پر ہو چکا ہے تو کل سے یہ خیال ذہن میں بھٹکتا پھر رہا ہے کہ جہاں مملکت خداداد پاکستان میں سٹیل مل، پی آئی اے،ریلوے سمیت کئی ادارے خسارے میں چلتے آ رہے ہیں وہاں سیاحت سے منسلک ادارے پی ٹی ڈی سی کو بھی برداشت کر لیتے۔ سمجھ نہیں آ پا رہی کہ آخر پی ٹی ڈی سی بند کر کے سیاحت کو فروغ کیسے ملے گا ؟ ۔۔ میں یہ بخوبی سمجھ سکتا ہوں کہ پی آئی اے کے بعد عسکری ائیرلائن تیاری کے مراحل میں ہے اور یقین محکم ہے کہ عسکری ائیرلائن بہترین ائیر لائین ثابت ہو گی کیونکہ ‘ادارے” نے اپنے سب ادارے اپ ٹو ڈیٹ اور Well Maintained رکھے ہیں۔ خدارا حکومت پاکستان اپنے طور پر پی ٹی ڈی سی کا بھی کچھ سوچ لے۔ گر چلانا ناممکن ہو چکا ہے اور اسے بیچنے کی خاطر یہ سب کیا جا رہا ہے تو پھر اپنا منشور بھی بدل ڈالیے یا سیاحت کا نعرہ ہی گول کیجیے۔

گلگت پی ٹی ڈی سی کے لان میں بیٹھے میں نے ان گنت بار چائے پی ہے۔ مجھے اس کا چوکیدار اخلاص یاد آ رہا ہے۔ یہ درمیانی عمر کا شریف النفس انسان تھا۔ جب جب میرا جانا ہوتا یہ گاڑی کو پارکنگ میں ٹاکی مار کر صاف کرتا اور لان میں آ کر پوچھتا ” صاحب اس بار کتنے دنوں کے لئے آئے ہیں” کبھی کہتا ” صاحب اگر کہیں تو چائے گرم کروا دوں ٹھنڈی ہو چکی ہو گی” ۔۔۔ ایک بار یوں ہوا کہ جیسے ہی میں گلگت پی ٹی ڈی سی میں داخل ہوا اور گاڑی پارک کر کے کمرے سے فریش ہو کر لان میں آن بیٹھا تو اخلاص میرے پاس آیا اور بولا ” صاحب ، آپ اکثر آ جاتے ہیں کیا گلگلت اتنا پیارا لگتا ہے ؟ یہاں آپ کی طرح کا ایک اور بندہ آتا ہے. وہ بھی اکیلا ہی آتا ہے اور اسی طرح لان میں بیٹھا رہتا ہے۔ صاحب گلگت میں ایسا کیا ہے ؟ سب کچھ تو پنجاب میں ہے۔ گیس ، بجلی، ساری سہولیات تو وہاں ہوتی ہیں”

میں یہ سن کر مسکرایا اور بولا ” ہاں چچا، سب کچھ پنجاب میں ہے مگر مجھے پہاڑوں سے عشق ہے وہ جو بندہ آتا ہے اسے بھی پہاڑوں سے عشق ہو گا یا پھر بیگم کی چوں چاں سے اکتا کر کچھ دن سکون کرنے کو آ جاتا ہو گا” ۔ اخلاص کی بتیسی نکلی اور بولا “صاحب، اچھا ہے ناں آپ کی بیگمات بولتا تو ہے۔ میری تو گونگی ہے صاحب۔ بول نہیں سکتی” یہ کہہ کر وہ سنجیدہ ہو کر چپ ہو گیا۔ میں نے اس کا چہرہ پہلی بار اس دن غور سے دیکھا اور اسے سامنے والی کرسی پر بٹھا لیا۔ اس دن اس سے باتیں کرتے معلوم ہوا کہ اس کا آبائی علاقہ آزاد کشمیر ہے۔ نوکری کی تلاش اسے گلگت لے آئی اور یہاں وہ سرکاری چوکیدار بھرتی ہوا۔ اپنی تنخواہ گھر بھجوا دیتا ہے جہاں اس کی گونگی بیوی اس کے تین چھوٹے بچوں کو پال رہی ہے۔

شمال کی وادی غذر کو جائیں تو پی ٹی ڈی سی گاہکوچ راہ میں پڑتا ہے۔ ایک رات دیر گئے میں گاہکوچ میں داخل ہوا۔ سیاحتی سیزن کا اختتام تھا۔ اکتوبر کے آخری دن تھے۔ موٹل بند یوں تھا کہ میرے سوا وہاں کوئی نہ تھا۔ رات کا ایک بج چکا تھا۔ چوکیدار نے اونگھتے ہوئے دروازہ کھول دیا۔ بھوک کے مارے میری جان نکل رہی تھی۔ ایک بھاری بھر کم شخص آیا ، میں نے اسے پوچھا کہ کھانے کو کچھ مل جائے گا ؟ اس نے جواب دیا کہ سر ابھی تو کچھ نہیں مل سکتا بہت دیر ہو چکی ہے اور یہاں کچن بھی بند ہے۔ میں نے اسے کہا اچھا پھر صبح ناشتے میں مجھے کچھ سالن روٹی دے دینا کیونکہ صبح تک تو بہت بھوک لگ جائے گی۔

صبح نو بجے وہ بھاری بھر کم شخص آیا اور بولا ” سر کھانا تیار ہے”۔ دو پراٹھوں کے ساتھ دال آ گئی۔ آپ یقین مانیئے ویسی لذیذ دال میں نے زندگی بھر نہیں کھائی۔ کھا چکنے کے بعد میں خود چلتا کچن میں داخل ہوا۔ وہ کام میں مصروف تھا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور پوچھا کہ یہ دال کیسے بنائی ؟ مسکراتے ہوئے بولا “سر یہ چار دالوں کو مکس کر کے بنائی گئی ہے۔ اسے شاہی دال کہتے ہیں۔ مجھے یہ اچھی پکانی آتی ہے”

اس شخص سے میرا ایسا تعلق بنا کہ میں  جب جب گاہکوچ سے گزرتا، پی ٹی ڈی سی رات رکنا ہوتا یا نہ رکنا ہوتا مگر اس کے ہاتھ کی دال کھا کر جاتا۔ اس سے دوستی نما تعلق بن گیا۔ اس شخص کا نام محب علی ہے۔ بطور باورچی وہ پی ٹی ڈی سی میں ملازم تھا۔

محب علی نے ایک بار بتایا کہ اس کی بیٹی کی شادی ہے۔ مجھے کہنے لگا کہ سر آپ تو ہر جگہ گھومتے پھرتے رہتے ہو، اگر ممکن ہو تو پشاور میں واقع کارخانو مارکیٹ کا چکر لگے تو سر مجھے بتانا، مجھے اپنی بیٹی کے جہیز کے لئے ایک اچھا سا ڈنر سیٹ چاہیئے، یہاں سے یا گلگت سے جو ملتے ہیں وہ چائنیز ہوتے ہیں اور کوالٹی میں اچھے نہیں ہوتے، اگر کوئی اچھا سا مل جائے 18 سے بیس ہزار میں تو میں آپ کو رقم منتقل کر دوں گا، آپ لے لینا اور مجھے پارسل کر دینا۔

محب کی چار بیٹیاں تھیں۔ بڑی والی کی شادی ہونے جا رہی تھی۔ کچھ دنوں بعد میں اتفاقی طور پر ایک کام کے سلسلے میں پشاور موجود تھا۔ مجھے اچانک سے محب علی یاد آ گیا۔ میں نے اسے کال کی اور بتایا کہ ڈنر سیٹ چاہیئے ؟ وہ بولا جی سر چاہیے۔ بیگم بھی میرے ہمراہ تھی۔ میں بیگم کے ساتھ کارخانو بازار جا پہنچا۔ تلاش بسیار کے بعد ایک ڈنر سیٹ بیگم کو پسند آ گیا۔ اس کی قیمت 33 ہزار روپے تھی۔ محب علی کو کال کی تو قیمت سن کر وہ چپ ہوا اور پھر بولا ” سر کوئی بیس ہزار کے اندر دیکھ لیں یہ والا مہنگا ہے” ۔۔۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ محب علی کی گنجائش اتنی نہیں۔

بیگم نے کہا کہ جہیز میں دینا ہے تو سیٹ یہی اچھا ہے۔ آپ دیکھ لیں۔ میں نے وہ خرید لیا اور محب نے مجھے ایزی پیسہ سے 20 ہزار بھیج دیئے۔ اسے لکڑی کی پیٹی میں اچھے سے پیک کرایا اور پنڈی سے ناٹکو اڈے سے گاہکوچ کو پارسل کر دیا۔ محب علی کو جس دن پارسل ملا اس نے کال کی اور شکریہ ادا کرتے تھک گیا۔ پھر بولا ” سر، مجھے پتا ہے یہ وہی سیٹ ہے جس کی تصویر آپ نے واٹس ایپ کی تھی اور یہ 33 ہزار کا تھا۔ باقی کے 13 ہزار میرے پر ادھار رہے” ۔۔۔ میں یہ سن کر مسکرایا اور بولا کہ ادھار نہیں وہ میری طرف سے بیٹی کو سلامی سمجھو ۔۔۔

آج دوپہر ساڑھے بارہ مجھے پی ٹی ڈی سی کا نوٹیفکیشن موصول ہوا تو میں نے تصدیق کی غرض سے محب علی کو کال کی۔ اس نے فون اٹھاتے ہی سلام کے بعد میرے استفسار پر بتایا کہ سر ، موٹلز تو نومبر سے بند تھے۔ آج ہی مجھے نوٹیفکیشن کا بتایا گیا ہے اور ہماری جاب ختم کر دی گئی ہے۔ میں یہ سن کر پریشان ہوں کہ اب کیا ہو گا۔ سر اگر آپ سے کچھ ہو سکے تو میری نوکری بچا لیں۔ یہ کہہ کر وہ تو چپ ہو گیا۔ میں نے بھیگی آنکھوں سے اسے خدا حافظ کہہ دیا۔

میں نہیں جانتا اخلاص کیا کرے گا اور اپنی گونگی بیوی کو کیسے بتا پائے گا، نہ مجھے معلوم ہے کہ محب علی کی بیٹیاں کیسے بیاہی جائیں گی، مجھے تو آجکل اپنا نہیں معلوم کہ میرا دل کب اور کیسے بہلے گا۔ سفر جو دل بہلانے کا بہانہ تھا وہ منجمد ہو چکا ہے۔ سڑکیں کہیں نہیں جا رہیں،ایسا لگتا ہے سب رکی پڑی ہیں۔ نظام ٹھہر چکا ہے۔ بس گردش لیل و نہار ہی زندگی کی کا پہیہ گھسیٹ رہی ہے۔ صبح و شام کا آنا جانا گھر کی کھڑکی سے روٹین سا لگتا ہے۔ انسان جو پریشانی اپنے ساتھ جنت بدری کے بعد لایا وہی ابدی حقیقت ہے، باقی سب افسانے ہیں، چین کہیں نہیں، ایک مسلسل ذہنی اذیت اور بے ہنگم سی کھوکھلی دنیا ہے۔ سانس جب تلک چل رہی ہے یہ ہنگامہ تو رہے گا۔ پروردگار نے انسان کو بااختیار بنا کر، اشرف المخلوقات کے لقب سے نواز کر اس کے پاوں میں کاوش روزگار کی زنجیر بھی ڈال رکھی ہے۔ انسان مرنے سے قبل ہی اس زنجیر کی دہشت سے مرا رہتا ہے۔ چچا غالب کیا خوب کہہ گئے اور اکثر مجھے وہی یاد آتے رہتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

تھا زندگی میں بھی مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی میرا رنگ زرد تھا

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply