• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی معاشرہ میں شدت پسندی و عدم برداشت کی تاریخی وجوہات اور انکا تدارک۔۔۔۔عائشہ یٰسین/مقابلہ مضمون نویسی

پاکستانی معاشرہ میں شدت پسندی و عدم برداشت کی تاریخی وجوہات اور انکا تدارک۔۔۔۔عائشہ یٰسین/مقابلہ مضمون نویسی

تاریخ میں مسلمانوں کا سیاسی منظرنامہ بڑا باوقار ملتا ہے۔ مسلمان حکمران دنیا میں بہترین حاکم وقت ثابت ہوئے اور طویل عرصہ تک دنیا کے کونے کونے میں راج کرتے رہے۔ مسلم حکمرانوں کی فتح و کامیابی سے تاریخ کی سطریں بھری پڑی ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔
جب ہم اپنے وطن پاکستان کی سیاست کا ذکر کرتے ہیں تو سب سے پہلے مسلمانوں کے دور عروج کا مطالعہ ضروری ہوتا ہے تاکہ امت مسلمہ کے زوال کے اسباب عیاں ہوسکیں۔مسلمانوں کا دور کامرانی اللہ کی دین کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی دور فہمی، اعتدال، رواداری اور اعلی قوانین کا پیش خیمہ تھی۔ خلیفہ راشدین اور ان کے بعد رائج کردہ اصول و ضوابط اور بہتر معاشرتی مسائل کے حل کی موجودگی تھی۔ رعایا بغیر کسی طبقاتی امتزاج اور تفریق کے پروان چڑھائی جاتی تھی اور ان کو برابری کے حقوق دئے جاتے تھے ۔ ہر ادارے اور شعبے میں مساوات کے قانون کے وجہ سے ایک متوازن معاشرہ وجود میں آتا جو مسلمانوں کے سر کا تاج بنا۔
پاکستان کی سیاسی و سماجی تاریخ کئی دور پر مشتمل ہے۔ پاکستان چونکہ کلمہ حق کے نام پر بنا اس لئے اس کی بنیاد ہمارا دین اسلام ہے۔ مسلمانوں کی ترقی کے بعد مغل سلطنت کا زوال برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک کڑا امتحان بن کے سامنے آیا ۔ غلط قانون سازی اور اختلافات نے مغلیہ دور کےمسلمانوں کو غلام بنا ڈالا اور مسلمان نا صرف جسمانی بلکہ ذہنی اور لاشعوری طور پر محکوم قوم بن گئی۔
پاکستان کے وجود میں آنے سے پہلے بر صغیر کے مسلمانوں کو امید اور ایک نئی سوچ کی ضرورت تھی ۔جب فرنگیوں نے ہندو مسلمان کی ناچاکی سے فائدہ اٹھایا اور ہم پر قابض ہوئے اس وقت سر سید احمد خان نے ہم کو وقت کی ضرورت سے آشنا کیا اور دین کے ساتھ دنیاوی تعلیم کے فروغ کے لئے کام کیا۔
سر سید احمد خان مسلمانوں میں شعور اور آگاہی کو بیدار کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کی ان پر قابض فرنگی کا مقابلہ کیا جائے اور آج کا مسلمان ان کے ہم پلہ کھڑا ہوکے ان کو شکست سے دوچار کرے ۔ نتیجتا یہ نکلا کہ مسلمان اپنے شعور اور سوچ کے مطابق ایک بار پھر تفریق کا شکار ہوئے اور اس طرح مولوزم اور لبرزل کی اصطلاح سامنے ائی۔
سر سید کی ضرب کاری ہی وجود پاکستان کا پہلا اینٹ تھی اور وہ سر سید ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کی حرمت اور آزادی کا پہلا بیج بویا جو آگے چل کر مولانا کلام ازاد، مولانا علی جوہر اور علامہ اقبال جیسے شجر کی صورت پروان چڑھا ۔
آزادی کی جدو جہد میں شامل جتنے بھی لوگ شامل ہوئے انہوں نے کسی نہ کسی طور پاکستان کی بنیادوں کو تراوت بخشی اور اپنی کوششوں اور امنگوں کا اینٹ نصب کیا۔ جب تحریک پاکستان اپنے جنوں کو پہنچی تو مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ہر طبقے کو اپنے ساتھ ضم کرلیا اور پاکستان وجود میں آیا۔
پاکستان امت مسلمہ کی عمدہ مثال ہے۔ مسلمانوں کو آزادی اس وقت ملی جب انہوں نے نظم و ضبط اور قانون کا ساتھ دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کا فتح یاب ہونا کوئی معمولی بات نہیں ۔ انہوں نے دماغی کاوشوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ایک نظریہ کے تحت متحد کیا اور لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگا کے بلا تفریق ایک جھنڈے کے نیچے لا کھڑا کیا اور تاریخ رقم کی۔
ہم اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ معاشرہ افراد کی جمع ہے اور معاشرہ کا ہر فرد دیوار کی ایک اینٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ معاشرہ ایک فرد کا نام ہے اور معاشرے کی تعمیر ہر ایک فرد کی وجہ سے تشکیل پاتی ہے۔ اس کی واضع مثال ایک دیوار کی سی ہے جس میں ہر اینٹ کو وہی امتیازی حیثیت حاصل ہے جیسا کہ اس کے اس پاس لگے دیگر اینٹوں کو حاصل ہے۔
پاکستانی معاشرہ کے خدوخال اس وقت بدلاو کا شکار ہوئے جب ہم میں تفریق پیدا ہوا۔ جب ہم نے معاشرتی نظام سے بغاوت کی اور قانون کے بالادستی کو مسمار کیا وہیں سے توازن بگڑااور معاشرہ نفرت، اشتعال انگیزی اور انتہا پسندی کا شکار ہوا۔ آزادی کے بعد تک ہم نے خود کو نہ ہی علاقائی اعتبار سے بانٹااور نہ ہی رنگ و زبان کے لحاظ سے۔ بحیثیت قوم ہمارا ایک چہرہ ،ایک منشور اور ایک مذہب اسلام رہا جہاں ایک دوسرے کا احترام اور حقوق کو مقدم رکھا گیا اور پاکستان کو اپنی سوچ کا محور بنا یا گیا۔
وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں آنے والے بدلاو اور اس کے رد عمل کے نتیجے میں لوگوں کی سوچ آہستہ آہستہ بدلی اور مذہبی علاقائی اور ذات و نسل کو بنیاد بنا کر شر پسند عناصر نے قوم کو تقسیم کرنا شروع کیا اور اسی تفرقہ بازی کی وجہ سے شدت پسندی معاشرے میں شامل ہوتی رہی۔
ہر دور کی طرح اس انتشار کا شکار نوجوان طبقہ کو بنایا گیا اور ان کو اس بات کی تربیت دی گئی کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کو ہر طرح سے ممکن بنائے ۔ اب ہم اس دور کا ذکر کررہے ہیں جب ملک ایک بار پھر تقسیم ہوا اور ہم ذہنی و جغرافیائی لحاظ سے تنزل کا شکار ہوئے۔ اس بار ہم پر رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر وار کیا گیا اور تفریق پیدا کی گئی۔ سیاسی کمزوری اور نظام کی وجہ سے پاکستان اپنا ایک حصہ کھو بیٹھا۔
یہ وہی دور ہے جب شدت پسندی کی جڑیں مضبوط ہوئی اور آگے چل کر معاشرے کی جملہ بیماریوں کی بنیاد بنی ۔نہ صرف پاکستان تقسیم ہوا بلکہ ہماری قوم کی سوچ و فکر بھی تغیر کا شکار ہوئی۔ اب وہ زمانہ شروع ہوا جہاں سے ہر مکتبہ فکر نے اپنے قوانین کی رو گردانی شروع کی، نئے نصاب اور آلہ کار کو مرتب دیا گیا اور اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کی راہیں متعین کی گئی۔ حکومت کو عدم مستحکم ہونے کی وجہ سے سیاسی طور پر ناکامی کا سامنا رہا اور آمریت نے نظام کو سنبھال لیا۔ مختلف مذہبی جماعتوں متحرک ہوئی اور پاکستانی معاشرہ ناصرف اندرونی بلکہ بیرونی مداخلت کا شکار رہا۔
مختلف شعباجات میں نظریات کے ٹکراؤ اور تصادم سے عدم برداشت کی فضا استوار ہوئی اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ترقی پسند ہونے کے آڑ میں انتہا پسندی کی پرورش کی گئ اور نتیجتا ہم میں احساس ذمہ داری، صبر و تحمل اور برداشت ختم ہوتا گیا۔ ہم نے آہستہ آہستہ بحثیت قوم اپنے فرائض سے منہ موڑ لیا اور فرقہ واریت کا شکار ہوکے اپنے ملکی شناخت و تمدن کھو بیٹھے۔
ہم جانتے ہیں کہ جس معاشرے میں ایک دوسرے کی عزت نفس کو مجروح کیا جائے۔ مذہب کے نام پر نفرت اور حقارت کا پرچار کیا جائے اس معاشرے میں ہر فردصرف اور صرف اپنے مفادات کی جنگ لڑتا ہے ناکہ ملکی مفاد کو اہمیت دے۔
یہ طبقاتی نظام ہی معاشرے کا ناسور ہے جو ہماری سوچ اور افکار کو دیمک کی طرح کھا رہا ہے۔ یہ معاشرے میں بڑھتا ہوا عدم برداشت اس بات کی نشانی ہے کہ ہم ایک دوسرے پر مسلط ہونا چاہتے ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے رویوں اور نظریات کو دوسروں پر زور زبردستی لاگو کریں۔ یہی امر انتہا پسندی کی بنیاد ہےجب خود کو صحیح اور دوسرے کو بغیر سنے اور سمجھے غلط قرار دے دیا جائے۔انسان ہونے کا مطلب انسان کو انسان جاننا ہے۔ انسانیت کا تقاضہ ہے کہ اگر کوئی غلطی کر بیٹھے تو اس کی غلطی پر تشدد مندانہ رویہ برتنے کے بجائے تحمل اور درگزر کا راستہ اختیار کیا جائے ۔ انسانیت کی معراج یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کے تکلیف کا باعث بنے تو بلا تفریق معافی مانگ کر اس کے عزت نفس کا پاس رکھے۔ یہ قانون پہلے گھر سے شروع ہوتا ہے اور پھر محلے، خاندانوں اور علاقوں تک پھیل جاتا ہے۔ رحم دلی ، ایثار اور رواداری سے شخصیات اور قوم تشکیل پاتی ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک مسلم مملکت ہونے کی بنا پر ہم اپنے دین کو اپنے روز مرہ کے معاملات میں کیسے رہنما بناتے ہیں اور اپنی اصلاح کرتے ہیں ۔ ہمارا دین دین اسلام میں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد اور نظام مملکت کے تمام اصول مرتب کر دئےگئےہیں جہاں ناصرف اقلیت بلکہ چند پرند اور پھول بوٹے تک کے حقوق کا تعین کیا گیاہے۔ یہ اسلام ہی ہے جہاں نہ زید کوبکر پر سبقت حاصل ہے اور بکر کو زید پر اور اسی فارمولے کا اطلاق معاشرے کو شدت پسندانہ رویوں سے آزاد کراسکتا ہے اور ہم کو دنیا کے پر امن اور مہذب قوم کے صف میں لا کھڑا کر سکتا ہے۔ کیونکہ میرا ایمان ہے کہ یہ انتشار کی فضا صرف اور صرف ہمارے دین سے دوری اور ایمان کے بٹوارےکی وجہ سے ہے۔ جب تک ہم اللہ کی رسی کو متحد ہوکے تھام نہیں لیتے اور ایک قوم اور ایک جھنڈے تلے آ کھڑے نہیں ہوتے ہم کمزور اور ناتواں معاشرے کے باسی رہے گے اور اپنی صلاحیتوں اور شناخت تک گنوا بیٹھے گے۔
اللہ ہم سب کا حافظ و ناصر ہو ۔امین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply