روات کلر سیداں روڈ پہ پنڈوری سے ایک راستہ کہوٹہ کو جاتا ہے- آگے جا کر یہ دو راستے بن جاتے ہیں ایک کہوٹہ شہر کو نکلتا ہے اور دوسرا ناڑہ مٹور کو۔ ناڑہ اور مٹور دو قصبے ہیں، مٹور سے تین چار کلومیٹر پہلے موضع تھوہا خالصہ آتا ہے۔ یہاں جانا تو کسی اور سلسلے میں ہوا مگر اس گاؤں کی پراسراریت نے جس تجسس میں مبتلا کیا، اس نے تقسیم ہند کی بہت سی گمنام کہانیوں میں سے ایک سے روشناس کرا ڈالا۔ کم بیان کی جانے والی کہانیوں میں سے ایک ہے۔۔یہ دلچسپ داستان آپ بھی سنیے۔
تقسیم ہند کے اعلان کے ساتھ ہی کشمیر میں بے چینی اور انتشار پھیل چکا تھا۔ مہاراجہ کی نیت ڈانواں ڈول دیکھ کر مسلم لیگ کی قیادت نے کشمیر کا بھارت سے الحاق روکنے کی مختلف تدابیر کرنا شروع کیں۔ انہی میں سے ایک وزیرستانی قبائلیوں کا لشکر ترتیب دینا بھی تھا۔ سردار شوکت حیات، کرنل اکبر خان اس مہم کے انچارج تھے، جبکہ اسکندر مرزا نے قبائلی علاقوں کے اپنے وسیع تجربے کی روشنی میں انہیں بھرپور مدد فراہم کی۔ کشمیر میں قبائلی مداخلت کا باقاعدہ آغاز 22 اکتوبر 1947 کو ہوا مگر اس کی تیاریاں کئی ماہ سے جاری تھیں۔ اس دوران مختلف چھوٹے بڑے قبائلی لشکر پشاور اور راولپنڈی کینٹ میں آتے جاتے رہتے تھے۔ انہی میں سے ایک جتھہ فروری 1947 کے آخری دنوں میں راولپنڈی پہنچا۔ 3مارچ 1947 کو سکھوں کے راہنما ماسٹر تارا سنگھ نے لاہور میں ایک تقریر کی، جو لاکھوں انسانوں کی بربادی کا سبب بنی۔
ضلع راولپنڈی اور کشمیر کا آپس میں سینکڑوں برس کا تعلق ہے- کشمیر میں سکھوں کی حکومت تھی اور راولپنڈی میں سکھ بہت بڑی تعداد میں بستے تھے۔ یہ سب مقامی لوگ تھے، مسلمانوں کے بعد سب سے زیادہ آبادی انہی کی تھی۔ قبائلیوں کو لاہور کے فسادات کا علم ہوا تو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ جہاد کا آغاز یہیں سے کیا جائے۔ اس بہانے غنیمت کی صورت زاد راہ بھی میسر آ جاتا۔ چنانچہ انہوں نے چند دن بعد چونگی نمبر بائیس پر چڑھائی کر دی۔
یہ راولپنڈی اور چکلالہ کینٹ میں تقسیم شدہ علاقہ ہے۔ اب اس کی پہچان جی ایچ کیو ہے- اس وقت اس سے آگے سب دیہات تھے اور سکھوں کی ایک بڑی تعداد یہاں رہتی تھی۔ یہیں پر سردار اتم سنگھ کی حویلی بھی تھی۔ اس کی درست لوکیشن مجھے معلوم نہیں مگر غالب گمان جس جگہ کا ہے اب یہ تین چار خاندانوں میں تقسیم ہے اور اس کے ایک حصے پر کبھی میری بڑی باجی کا پرائیویٹ سکول بھی رہا ہے۔
سردار اتم سنگھ کانگریس کے سابقہ ممبر لیجسلیٹو اسمبلی تھے، 1946 کے انتخابات میں انہیں اکالی دل کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔ مقامی سکھوں میں سب طاقتور لوگ ان کے رشتہ دار تھے حتیٰ کہ فاتح امیدوار بھی ان کا کزن تھا۔ ان کی حویلی کے قریب ہی ان کی بیٹی اور داماد کیپٹن جگجیت سنگھ اروڑہ کا گھر تھا۔ یہ تگڑے سکھ تھے، جن کے پاس اسلحہ اور افرادی قوت وافر تھی، انہوں نے قبائلیوں کو چونگی سے آگے بڑھنے ہی نہیں دیا۔ یوں بھی فوجی علاقہ تھا چنانچہ قبائلیوں کو یہاں سے پسپا ہونا پڑا۔
ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ کالا گجراں جہلم کے جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ جنہوں نے 1971 میں ہمارے جنرل نیازی سے پلٹن میدان ڈھاکہ میں ہتھیار ڈلوائے، کسی دور میں جی ایچ کیو راولپنڈی سے محض چند سو میٹر کے فاصلے پہ رہا کرتے تھے۔ ان کی تعلیم راولپنڈی کے جس مشنری سکول میں ہوئی، وہ چرچ اور کانوینٹ بھی جی ایچ کیو کے بالکل قریب واقع ہے- اگر فسادات نہ ہوتے تو کیا عجب جنرل اروڑہ پاکستانی فوج کو جوائن کرنا زیادہ پسند کرتے۔
خیر قبائلیوں کو یہ معلوم پڑ گیا کہ پنڈی شہر میں ان کی دال نہیں گلنے والی، اب انہوں نے روات کا رخ کیا۔ آپ جی ٹی روڈ پر پنڈی اسلام آباد سے لاہور کو نکلیں تو روات پہلا قصبہ ہے- یہاں سے دائیں کو چک بیلی روڈ اور بائیں کو کلر سیداں روڈ نکلتی ہیں۔ ان دونوں رستوں پر دائیں بائیں بیسیوں دیہات ہیں جن میں آج بھی درجنوں کے نام کبھی یہاں آباد ہندوؤں اور سکھوں کی یاد دلاتے ہیں۔ موضع تھوہا خالصہ بھی انہی میں سے ایک ہے-
تھوہا خالصہ اس وقت ایک چھوٹا سا خوشحال گاؤں تھا۔ گاؤں میں صرف سکھ آباد تھے، مضافات میں مسلمانوں کی ڈھوکیں تھیں۔ باہمی تعلقات خوشگوار تھے۔ سردار گلاب سنگھ کی حویلی اس گاؤں کی نشانی تھی، جس کا اب نام و نشان باقی نہیں رہا۔ گاؤں کی وجہ شہرت یہاں کا دکھ بجنی گردوارہ تھا، جو بہت کشادہ رقبے پر بہت خوبصورتی سے تعمیر کیا گیا تھا۔ خواتین اور مردوں کے نہانے کے علیحدہ علیحدہ تالاب، جانوروں کے پانی پینے کا انتظام، تازہ پانی کی فراہمی اور استعمال شدہ پانی کی نکاسی کا بہترین سسٹم، آم کے باغات، قدرتی ندی اور چشموں کا پانی اور اردگرد کی پہاڑیاں۔ آج ان سب کے معدوم ہوتے آثار دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کبھی یہ مقام کس قدر خوبصورت ہوگا۔ یہاں شام کو محفلیں سجا کرتی تھیں جن میں مسلمان بھی شرکت کرتے تھے۔ یہ گردوارہ ٹھاکر نہال سنگھ کا تعمیر کردہ تھا۔ اس وقت کے معروف سکھ مذہبی راہنما عطر سنگھ قریبی گاؤں ڈیرہ خالصہ کے تھے۔ یاد رہے کہ ماسٹر تارا سنگھ نے عطر سنگھ کے ہاتھوں ہی سکھ مذہب اختیار کیا تھا اور غالب امکان یہی ہے کہ ان کی تبدیلی مذہب کی رسومات دکھ بھجنی گردوارے میں ہی ہوئی ہوں۔
سردار گلاب سنگھ کے ایک بھائی کی بس تھی جو روزانہ مٹور سے پنڈی جایا کرتی تھی۔ بس کا ڈرائیور غلام رسول نامی مسلمان تھا۔ اس کے بھائی کا تھوہا خالصہ کے بس سٹاپ پر چائے کا ہوٹل ہوا کرتا تھا۔ غلام رسول عین فلمی سٹائل میں اپنے مالک کی بیٹی بھگونت کور کو دل دے بیٹھا۔ بھگونت کور نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف غلام رسول سے شادی کر لی۔ تاہم چند دن بعد ہی صلح ہو گئی۔ غلام رسول شادی کے بعد تھوہا خالصہ ہی میں سردار پیتم سنگھ کے مکانوں میں رہا کرتا تھا۔ مختصر یہ کہ یہاں مقامی مسلمانوں اور سکھوں میں کوئی رنجش یا اختلافات نہیں تھے۔
قبائلی روات پہنچ کر چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم ہو گئے اور اردگرد کے دیہات میں لوٹ مار شروع کر دی۔ اس دوران نہ کوئی بڑی خونریزی ہوئی اور نہ ہی کسی نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔
ڈیرہ خالصہ کو انہوں نے اس بنا پر چھوڑ دیا کہ یہاں گاؤں میں سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کے گھر ساتھ ساتھ تھے۔ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں اردگرد اکٹھی ہونے لگیں اور بالآخر ایک روز تھوہا خالصہ کا محاصرہ کر لیا گیا۔
سکھ اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر سردار گلاب سنگھ کی حویلی میں اکٹھے ہو گئے۔ محاصرے کے تیسرے روز قبائلی کچھ مقامی افراد کے ہمراہ آئے اور تاوان کے عیوض محاصرہ ختم کرنے کی پیشکش کی۔ سکھ مہاجروں کے انٹرویوز سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت کم و بیش بیس ہزار مالیت کی نقدی اور زیورات قبائلیوں کو دے کر راضی نامہ کیا گیا۔ قبائلی اس روز واپس لوٹ گئے مگر اگلے دن انہوں نے پھر چڑھائی کر ڈالی۔ اب ان کا مطالبہ تھا کہ سکھ مسلمان ہو جائیں۔ لڑائی ہوئی جس میں بہت سے سکھ مارے گئے۔
اس دوران سردار گلاب سنگھ کی حویلی میں وہ دردناک سانحہ پیش آیا جس کی وجہ سے تھوہا خالصہ کو اب تک یاد کیا جاتا ہے۔
مان کور سردار گلاب سنگھ کی رشتہ دار ایک بیوہ خاتون تھیں، حویلی میں خواتین اور بچوں کی دیکھ بھال وہی کر رہی تھیں۔ جب انہوں نے دیکھا کہ سکھ مرد بڑی تعداد میں مارے جا چکے تو مذہبی دعائیں پڑھتے ہوئے انہوں نے حویلی کے کنویں میں چھلانگ لگا دی۔ ان کے پیچھے پیچھے تقریباً سوا سو خواتین اپنے بچوں سمیت کنویں میں کود گئیں۔ کنواں لاشوں سے یوں اٹ چکا تھا کہ بعد میں چھلانگ لگانے والی کئی خواتین اور بچے ڈوب نہ سکے۔ بعد میں کنویں سے خواتین کی 93 لاشیں برامد ہوئیں۔ بچے کھچے سکھ مردوں نے اپنی کئی خواتین کو اپنے ہاتھوں ہلاک کر ڈالا اور خود مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ اس بدترین خونریزی کے بعد قبائلی لوٹ مار کر کے واپس ہو لئے۔ دوسرے دن مقامی مسلمانوں نے آ کر جو چند ایک سکھ گھرانے بچ گئے تھے انہیں خوراک پہنچائی۔
اس واقعے کی خبر پورے ملک میں پھیل گئی۔ لارڈ اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے خود تھوہا خالصہ کا دورہ کیا۔ بچ جانے والوں سے سانحے کی تفصیلات پوچھیں، سکھوں کیلئے روات اور گوجر خان میں ریلیف کیمپس قائم کئے۔ مگر تھوہا خالصہ اجڑ چکا تھا۔ یہ اب ماشاءاللہ پھر سے آباد ہے، مگر ایسے کہ اب یہاں ایک بھی سکھ خاندان نہیں رہتا۔
قیام پاکستان کے بعد اوقاف نے دکھ بھجنی گوردوارہ تو اپنی تحویل میں لے لیا مگر سردار گلاب سنگھ کی حویلی لاوارث رہی۔ اب اس کی بنیادیں تک منہدم ہو چکی ہیں۔ تاہم وہ قاتل کنواں اب بھی موجود ہے- محکمہ اوقاف خیر گوردوارے کو بھی نہ بچا پایا اور اب نوے فیصد عمارت معدوم ہو چکی ہے- صرف تالاب، کنویں اور نکاسی آب کا نظام باقی رہا ہے-
پوٹھوہار سے تعلق رکھنے والے سکھوں کی ایک بڑی تعداد جہاں کہیں بھی ہو، آج بھی تھوہا خالصہ اور اس کے گردوارے کو یاد کرتی ہے- ہم لوگ اگر ایک دوسرے کی جان و مال کی حفاظت نہ کر پائے تو ایک دوسرے کی املاک ہی سنبھال لیتے۔ گردوارہ محفوظ رہتا تو یہ پاکستان میں سکھوں کے خوبصورت ترین مذہبی مقامات میں سے ایک ہوتا۔
سردار مسعود جنجوعہ یوٹیوب پر کہوٹہ کی ثقافت پر وڈیوز کرتے ہیں۔
بھارتی ولاگر کیشو جی تقسیم ہند کے کرداروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ تھوہا خالصہ کے سردار پیت پال اور سردار من موہن سنگھ بندرا کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔
“سکھ نیٹ” ویب سائٹ تھوہا خالصہ فسادات کے متعلق تمام تصاویر، دستاویزات اور وڈیوز کے لنک رکھتی ہے-
اس مضمون کی تیاری کیلئے ان تینوں سورسز کا غائبانہ شکریہ۔
تصاویر سکھ نیٹ، نیٹو پاکستان اور آپ کے خادم کے موبائل سے لی گئی ہیں۔
اس کہانی کا سب سے دلچسپ یا عبرتناک پہلو یہ ہے کہ جس پیدائشی ہندو ماسٹر تارا سنگھ نے تھوہا خالصہ میں سکھ مذہب اختیار کیا، 3 مارچ 1947 کو لاہور میں اسی کی ایک اشتعال انگیز تقریر کے نتیجے میں تھوہا خالصہ کا گردوارہ ہمیشہ کیلئے اجڑ گیا۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں