میم سے مرد،میم سے معصومیت۔۔پروفیسر رضوانہ انجم

ٹک ٹاکر عائشہ اکرم اور اسکے ساتھیوں کی سازش کو تو یقیناً میڈیا نے ہر پہلو سے بے نقاب کرنے کی پوری پوری کوشش کی ہے جو بے شک قابل تعریف ہے کیونکہ 14 اگست کے دن ہونے والی قومی بے عزتی کا دوبارہ اعادہ نہیں ہونا چاہیے،لیکن 14 اگست سے آج تک مایہ ناز صحافیوں سے لیکر نومولود مرد لکھاریوں تک(جو واقعہ کو واقع اور سراسر کو ثراثر لکھتے ہیں) سب کا متفقہ الزام ہے کہ قصور سراسر عائشہ اکرم کا تھا۔نہ وہ جال بچھاتی اور نہ پنچھی گرفتار ہوتے۔۔یعنی کہ بقول شاعر ۔۔

میرے رشک قمر تو نے پہلی نظر جب نظر سے ملائی مزہ آ گیا

برق سی گر گئی کام ہی کر گئی آگ ایسی لگائی مزہ آ گیا

بے حجابانہ وہ سامنے آ گئے اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی

آنکھ ان کی لڑی یوں مری آنکھ سے دیکھ کر یہ لڑائی مزہ  آگیا

شیخ‌ صاحب کا ایمان بک ہی گیا دیکھ کر حسن ساقی پگھل ہی گیا

آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے لٹ گئی پارسائی مزہ  آ گیا

اس ساری مردانہ میڈیا مہم میں عائشہ اکرم اور ریمبو کی سابقہ قابل اعتراض تصاویر اور ویڈیوز کو عوام الناس کو دکھا دکھا کر عائشہ کی مفت کی پروموشن اور دیکھنے والوں کے دین و ایمان کی غارت گری کا پورا پورا انتظام کیا گیا ہے۔۔”کہ دیکھیے یہ فاحشہ تھی اور ہے تو جو کچھ اسکے ساتھ کیا گیا وہ عمل کا ردعمل ہے اور کچھ نہیں۔نیز مردوں کا بھی تھوڑا بہت قصور ہے لیکن وہ تو جبلت سے مجبور تھے نا۔۔اس نے بہکایا تو وہ بہک گئے”۔۔۔یعنی

ہم فقیروں سے کج ادائی کیا

آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

حقیقت یہ ہے کہ شاید پہلی مرتبہ سینکڑوں مردوں کی اجتماعی ہوس کا مظاہرہ کھل کر عوام کے سامنے آگیا۔

پریشر ککر کا ڈھکن کھل گیا اور

مردوں کو دلی صدمہ پہنچا۔۔۔۔ کیونکہ۔۔

ہمارے مرد اس معاملے میں بہت شرمیلے اور رازداری برتنے والے ہیں۔وہ جبلت کے تقاضے چھپ چھپا کر پورے کرنے کے عادی ہیں ،انکے انباکس اور فیس بک آئی ڈیز چاہے کردار کی غلاظت سے بھرے ہوں۔۔۔وہ فیس بک “آنٹیوں ” سے بھتہ خوری کرکے ایک ٹکٹ میں دو مزے کر رہے ہوں۔۔وہ پڑوس،بازار،تعلیمی اداروں،دفاتر اور پارکس میں چپکے چپکے جبلت سے مجبور ہو کر آنکھیں سینک رہے ہوں،فحش اشارے اور حرکات کرتے ہوں۔بازار کے ہجوم میں جان بوجھ کر عورت سے ٹکرا کر اندرونی حسرتیں پوری کرتے ہوں،وہ کزن سے منگنی کروا کے بیک وقت درجنوں گرل فرینڈز سے لطف اندوز ہوتے ہوں ۔انکی راتیں پورن ویڈیوز دیکھنے اور دن شکار کی تلاش میں گزرتے ہوں۔ رات کے پچھلے پہر بازار حسن کے چکر لگاتے ہوں  ۔کال گرلز کے سارے اڈوں ،ریٹس اور اوقات کار کا انھیں خوب پتہ ہو،  لیکن۔۔ ۔

وہ کھل کر سامنے آنا اور یہ دکھانا پسند نہیں کرتے کہ وہ جذباتی،روحانی،نفسانی ،اخلاقی اور مذہبی اعتبار سے کتنے کمزور اور گھٹیا ہیں۔ ۔وہ کس قدر نفس پرست اور عورت باز ہیں۔ وہ مرد بچے ہیں اور اس طرح اپنی مردانگی کی سر عام توہین برداشت نہیں کرسکتے۔ ویسے بھی ہر جگہ بدکردار عورتیں ان جیسے طفل معصوم کو کبھی جسم دکھا کر اور کبھی ڈالر، پونڈ ،یورو لہرا کر،کبھی گرین کارڈ،فارن نیشنیلٹی کا لالچ دے کر ورغلاتی ہیں،بہکاتی ہیں تو وہ بہک جاتے ہیں  ورنہ وہ تو ماں کی گود میں فیڈر پیتے بچے کی طرح معصوم اور بے ضرر ہوتے ہیں،روٹی کو چوچی   کہتے ہیں ۔ہر جوان لڑکی کو بہن اور ہر پختہ عمر عورت کو اماں سمجھتے ہیں۔

14 اگست کو فاحشہ عائشہ اکرم اور اسکے ساتھیوں کی سازش سے ان سب کی شامت اعمال تو آنی لکھی تھی لیکن۔۔ ہماری بھوکی اور ہوس پرست مرد جاتی کا پول بھی کھل گیا ۔وہ گھناؤنے جذبے جو معاشرتی اور مذہبی دباؤ سے گھٹے ہوئے تھے وہ مشترکہ ٹھرک کی شکل میں آزاد ہوگئے۔  وہ حسرتیں جو مردہ دلوں میں پل رہی تھیں چند لمحوں ہی کو سہی نکالنے کا موقع مل گیا ۔

فرض کرلیں کہ وہ چار سو سے زائد مرد بھی عائشہ اکرم کی سازش میں شریک تھے۔ اس کے کارندے تھے۔۔۔۔تو کیا اقبال پارک میں انکے علا ہ جو بیشمار مرد تھے وہ بھی اسی سازش میں شریک تھے؟؟ انہوں نےواقعے کو دیکھا۔۔۔

ایک فاحشہ کو مردوں کے ہاتھوں پر اچھالے جاتے ہوئے دیکھا ،مردوں کو “مردانگی ” دکھاتے ہوئے دیکھا اور اسکی ویڈیوز بنانے لگے۔ کسی نے بدکار عورت کو بچانے کی ہمت نہیں کی۔ ؟کسی غیرت مند مائی کے لعل نے نہ کہا کہ ۔

چھوڑو اسے۔۔۔بدکار سہی  ہے تو عورت نا۔۔ دنیا کو اپنے دین اور ملک کا تماشا نہ دکھاؤ۔

کیا یہ مردوں کی اجتماعی سوچ نہیں ہے کہ فاحشہ کے ساتھ جو چاہے سلوک کر لو،اجازت ہے۔ ؟

جی ہاں! ہماری سوچ یہی ہے کہ کمزور اور بدکردار عورت کے ساتھ برا سلوک کرنےمیں کوئی ہرج نہیں۔۔۔جہاں سو دھکے وہاں ایک دھکا اور سہی  ۔

عائشہ اکرم اور اسکی سازش کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ اس تلخ اور گھناؤنی حقیقت کو بھی بے نقاب کر ہی دیں کہ ہماری مرد جاتی شدید منافقت، ہوس پرستی اور جذباتی گھٹن کا شکار ہے ۔ان میں اعتراف گناہ کا حوصلہ نہیں ہے۔ ۔اپنی شخصی کمزوریوں کو ماننے کا ظرف نہیں ہے۔ گناہ کی دلدل سے نکلنے کی خواہش نہیں ہے ۔

کرشن چندر کے افسانے کے کردار “بڑے بھیا” کی طرح ان میں سے بہت سارے ساری زندگی اندر سے شیطان ہوتے ہیں اور باہر سے فرشتہ دکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مدعا ہمیشہ عورت کے سر ہوتا ہے۔

مثلاً عورت نے غیر مرد کے ہاتھ پاؤں باندھ کر زبردستی ناجائز تعلقات بنائے اور پھر اس غریب و معصوم پر زنا بالجبر کا الزام بھی دھر دیا۔ عورت نے کپڑے پھاڑ کر مظلوم اور پارسا مرد پر دست درازی کا الزام لگا دیا۔

وللہ رے مردوں کی معصومیت۔۔ وہ بیچارے تو تعلقات کی “ت”سے بھی دور بھاگ رہے تھے اور زنا کے “ز” سے بھی ناواقف تھے۔ سارا کیا دھرا عورت کا تھا  ۔اخبار ہولناک زنا بالجبر کی جن دلخراش خبروں سے بھرے ہوتے ہیں وہ سب عورتوں کے زور و زبردستی،ہوس اور سازشوں کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں نا۔ ؟

کیا چھ  سال کی زینب نے ریپ اور اسکے بعد قتل ہونے کے لیے کوئی سازش کی تھی ؟

کیا ڈھائی ماہ سے اسی سالہ بڑھیا زنابالجبر کے لیے از خود سازشیں کرتی ہیں ؟

کیا قبروں میں لیٹی ہوئی کفن پوش عورتیں کسی سازش کے تحت مردوں کو ہاتھ پکڑ کر قبر میں گھسیٹ لیتی ہیں ؟

کیا سگی خونی اور محرم رشتے دار عورتوں کو بھی کسی سازش کی وجہ سے جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ؟

کیا ننھے معصوم قاری ازخود لواطت کے لیے پیش ہوجاتے ہیں ۔ ؟

نہیں ۔۔ بالکل نہیں ۔ یہ سب قبیح افعال مرد جاتی نفس کی آگ بجھانے کے لیے از خود اختیار کرتی ہے اور اگر مرد بضد ہیں کہ یہ سب انکی مرضی اور خواہش سے نہیں ہوتا  بلکہ عورتیں انھیں زبردستی مجبور کرتی ہیں ۔

تو پھر خیبر سے کراچی تک دیواروں پر جن دواخانوں اور حکیموں کے اشتہار جلی حروف میں لکھے ہوتے ہیں ان سے رابطے کرنا ایسے تمام مردوں کے لیے از بس ضروری ہے ۔نجانے اتنے بے ضرر مردوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کی آبادی اتنی تیزی سے کیوں بڑھ رہی ہے ،لمحۂ فکریہ اور حیرت۔۔

مجھے یہ جواب ہر گز نہیں چاہیے کہ اسکا حل کم عمر کی شادیاں ہیں کیونکہ ہماری آبادی کی اکثریت کم حیثیت اور غریب ہے،روزگار کے مواقع کم ہیں،آبادی زیادہ اور خاندان کا سائز بڑا ہے ۔فی کس آمدنی کم ہے اور سماجی نظام ایسا بن چکا ہے کہ اولاد کی بروقت شادیاں کرنا اور انکا بھی معاشی بوجھ اٹھانا والدین کے لیے ممکن نہیں ہے۔

اسکا صرف ایک حل ہے اور وہ ہے مردوں کی کردار سازی،

دین کی روشنی میں انکی ذہنی تربیت،ضبط ِ نفس کی تربیت،عورت کو مال مویشی اور استعمال کی چیز نہ سمجھنے کی تربیت،فاحشہ کے بھی عورت ہونے کا احترام کرنے کی تربیت اور اپنی فکر آخرت کرنے کی تربیت۔

Advertisements
julia rana solicitors

عورت کو دیوار میں چنوانے کی بجائے اپنے نفس کو دیوار میں چنوائیں۔ اللہ نے نفس کو تھام کر  رکھنے کا بےحد اجر بلاوجہ نہیں رکھا،اللہ کی حکمت اور مصلحت کو سمجھیں۔ اپنی شخصی اور نفسی کمزوریوں کا اعتراف کریں،تائب ہوں اور یہ نہ بھولیں کہ”اللہ کچھ نہیں بھولتا”۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply