گلشن ِ حسینی کے انمول پھول۔مولانا محمد منصور احمد

صحابہ کرامؓ اور خاندانِ نبوت دونوں انسان کی دو آنکھوں کی طرح ہیں ۔ اہل سنت والجماعت کو صحابہ کرامؓ سے بھی محبت ہے اور خاندانِ نبوت سے بھی اور کیوں نہ ہو کہ یہ سب گلشن رسالت کے مہکتے پھول ہیں ۔ محرم الحرام کا آغاز ہوتا ہے تو اہل ایمان سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تذکرہ کر کے خوش ہوتے ہیں اور عاشورہ محرم قریب آتا ہے تو مسلمانانِ عالم ، نواسہ رسول ،جگر گوشہ بتول ، فرزند حیدر کرار سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تذکرے سے اپنے ایمان کو تازہ کرتے ہیں ۔ ایک ہمارے سروں کا تاج ہیں تو دوسرے ہمارے دلوں کا نور اور دونوں کی لازوال بے مثال اور یاد گار قربانی قیامت تک آنے والے فرزندانِ توحید کیلئے لائحہ عمل اور مشعل راہ۔

تاریخ انسانیت میں یہ ستم صرف کسی ایک شخصیت کے ساتھ نہیں ہوا کہ بعد میں آنے والے لوگوں نے اُن کی اصل تعلیمات پر پردہ ڈال کر ، اُن کے نقوشِ قدم پر دھول جما کر اور اُن کے راستے پر گرد و غبار اڑا کر اپنی نفسانی اور گروہی خواہشات کے لبادے میں اُن کو چھپا دیا ۔
سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس اعتبار سے بلا شبہ تاریخ کی مظلوم ترین ہستیوں میں سے ہیں کہ جن کی اصل سیرت پاک کو بڑی مہارت سے نظروں سے اوجھل کر دیا گیا جن کی حیات ِ طیبہ کے تمام اوراق کو بہت چابکدستی سے غائب کر دیا گیا اور اب نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ عام طور پر مسلمانوں کو سوائے واقعہ کربلا کے وہ بھی مستند کم اور من گھڑت زیادہ اور کچھ بھی معلوم نہیں ۔

کیا سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دامن میں مستند فضائل اور بے پناہ خوبیوں کی کوئی کمی ہے کہ ہم غیر مستند ، من گھڑت ، بے بنیاد اور افسانہ نگاروں کی تراشی ہوئی باتوں کا سہارا لیں ۔ ہرگز نہیں! سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت خوبیوں اور فضائل کا مرقع ہے ۔ آپ کو وہ رفعتیں عظمتیں اور کمالات حاصل ہیں جن کا احاطہ کرنا بھی ہمارے لیے مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ۔ البتہ اپنی استطاعت کے مطابق گلشن حسینی کے چند پھول نذر ِ قارئین ہیں:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی دائمی نسبت اور کمال قربت کوظاہرکرتے ہوئے بیان فرمایا:
حُسَیْنٌ مِنِّی وَاَنَا مِنْ حُسَیْنٍ
ترجمہ:حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔(جامع ترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین .ج2ص218 حدیث نمبر 4144))

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چچی جان صاحبہ نے ایک فکر انگیز خواب دیکھا اور حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی فرحت آفریں تعبیر بیان فرمائی اور آپ کی ولادت کی بشارت دی جیساکہ امام بیہقی کی دلائل النبوۃ میں مذکور ہے :

حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ وہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے آج رات ایک خوف ناک خواب دیکھا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آپ نے کیا خواب دیکھا؟ عرض کرنے لگیں وہ بہت ہی فکر کا باعث ہے ،آپ نے ارشادفرمایاوہ کیا ہے؟ عرض کرنے لگیں : میں نے دیکھا گویا آپ کے جسد اطہر سے ایک ٹکڑا کاٹ دیا گیا اور میری گود میں رکھ دیا گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے، ان شاء اللہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو صاحبزادے پیدا ہوں گے اوروہ آپ کی گود میں آئیں گے چنانچہ ایساہی ہوا ،
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے اوروہ میری گود میں آئے جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی ، پھر ایک روز میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئی او رحضرت حسین رضی اللہ عنہ کو آپ کی خدمت بابرکت میں پیش کیاپھر اس کے بعد کیا دیکھتی ہوں کہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہیں، یہ دیکھ کر میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان !آنسوؤں کا سبب کیاہے ؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا: عنقریب میری امت کے کچھ لوگ میرے اس بیٹے کو شہید کریں گے ۔ میں نے عرض کیاوہ اس شہزادے کو شہید کریں گے ؟ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہاں!او رجبرئیل امین علیہ السلام نے اس مقام کی سرخ مٹی میری خدمت میں پیش کی۔(دلائل النبوۃ للبیہقی،حدیث 5082 مشکوٰۃ المصابیح:ج1ص 572 )

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت کے پچاس دن بعدحضرت حسین رضی اللہ عنہ شکم مادر مہربان میں جلوہ گرہوئے آپ کی ولادت باسعادت بروز منگل5 شعبان المعظم 4 ھ مدینہ طیبہ میں ہوئی (معرفۃ الصحابۃلابی نعیم الاصبہانی، باب الحاء من اسمہ حسن)
حضر ت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور القاب مبارکہ ، ریحانہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، سیدشباب اہل الجنۃ ،الرشید، الطیب ، الزکی ،السید، المبارک، ہیں۔
جب آپ کی ولادت ہوئی توحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کے کان میں اذان کہی .(معجم کبیر طبرانی، حدیث نمبر 2515))
معجم کبیر طبرانی میں روایت ہے :

حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے بڑے شہزادے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کانام مبارک حمزہ اور سید نا حسین رضی اللہ عنہ کا نام مبارک ان کے چچا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے نام پر رکھا،پھر حضو راکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کا نام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما رکھا۔(معجم کبیر طبرانی ، حد یث نمبر2713))
حسن اور حسین یہ دونوں نام اہل جنت کے ناموں میں سے ہیں اور قبل اسلام عرب نے یہ دونوں نام نہ رکھے۔(الصواعق المحرقہ، ص115 ،تاریخ الخلفاء ،ج1ص149))
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا عقیقہ فرمایا:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرات حسن وحسین رضی اللہ عنہما کے عقیقہ میں ایک ایک دنبہ ذبح فرمایا۔ (سنن ابوداود، کتاب الضحایا، باب فی العقیقۃ ، ص392، حدیث نمبر2843))

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہماسے مروی حدیث شریف میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے متعلق ارشادفرمایا:
یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں ،اے اللہ !تو ان دونوں سے محبت فرما اور جو ان سے محبت رکھے اس کو اپنا محبوب بنالے۔(جامع ترمذی، باب مناقب الحسن والحسین ،حدیث4138
ایک حدیث شریف میں ہے:اللہ تعالیٰ اس کو اپنا محبوب بنالے جس نے حسین رضی اللہ عنہ سے محبت رکھی۔ (جامع ترمذی، ابواب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین .ج 2 ص 218 حدیث نمبر 4144-)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی گود مبارک میں بٹھا یااور آپ کے لبوں کو بوسہ دے کر دعاء فرمائی:
الہٰی میں ان سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان سے محبت رکھ اورجو ان سے محبت رکھے اس کو اپنا محبوب بنا لے ۔(جامع ترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین ج2ص218 حدیث 4138
سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث مبارک ہے:سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی اور جس نے حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔(سنن ابن ماجہ شریف، باب فضل الحسن والحسین ابنی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم. حدیث نمبر148))

سنن نسائی، مسند امام احمد، مصنف ابن ابی شیبۃ، مستدرک علی الصحیحین وغیرہ میں حدیث مبارک ہے :
حضرت عبد اللہ بن شداد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ،انہوں نے فرمایاکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نمازکیلئے ہمارے پاس تشریف لائے،اس حال میں کہ آپ حضرت حسن یا حضرت حسین رضی اللہ عنہما کواٹھائے ہوئے تھے ،پھرحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے تشریف لے گئے اور انہیں بٹھادیا،پھرآپ نے نمازکیلئے تکبیر فرمائی اور نمازادافرمانے لگے ،اثناء نماز آپ نے طویل سجدہ فرمایا، میرے والد کہتے ہیں :میں نے سر اٹھاکر دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں ہیں اور شہزادے رضی اللہ عنہ آپ کی پشت انور پر ہیں ، تو میں پھر سجدہ میں چلاگیا، جب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازسے فارغ ہوئے تو صحابہ کرام نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے نمازمیں سجدہ اتنا دراز فرمایا کہ ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں کوئی واقعہ پیش تو نہیں آیا، یا آپ پروحی الہی کا نزول ہورہا ہے ،تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی سوائے یہ کہ میرا بیٹا مجھ پرسوار ہوگیا تھا،اور جب تک وہ اپنی خواہش سے نہ اترتے مجھے عجلت کرنا ناپسند ہوا۔(سنن نسائی ، حدیث-1129 مسند امام احمد، حدیث نمبر-15456)

جامع ترمذی شریف سنن ابوداودشریف ،سنن نسائی شریف میں حدیث مبارک ہے :
حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا حبیب اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سرخ دھاری دار قمیص مبارک زیب تن کئے لڑکھڑاتے ہوئے آرہے تھے توحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر شریف سے نیچے تشریف لائے امام حسن وامام حسین رضی ا للہ عنہما کوگود میں اٹھالیاپھر(منبر مقدس پر رونق افروزہوکر)ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا، تمہارے مال اورتمہاری اولادایک امتحان ہے میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا سنبھل سنبھل کرچلتے ہوئے آرہے تھے لڑکھڑارہے تھے مجھ سے صبر نہ ہوسکا یہانتک کہ میں نے اپنے خطبہ کو موقوف کرکے انہیں اٹھالیا ہے (جا مع ترمذی شریف ج2،ابواب المناقب )

Advertisements
julia rana solicitors london

جامع ترمذی شریف کی روایت ہے:
حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں ۔ (جامع ترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب الحسن والحسین حدیث نمبر4136)
آپ کی شہادت عظمی ،روز عاشورہ ،دس(10) محرم الحرام سنہ اکسٹھ(61) ہجری میں ہوئی، جیساکہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے الاصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں نقل فرمایاہے.
اللہ تعالیٰ ہماری اور ساری امت مسلمہ کی طرف سے سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے اور ہمیں بھی آپ ؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے راستے میں ہر قسم کی قربانی پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین ثم آمین)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply