• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • آسیہ مسیح کیس پر ردعمل اور چند اعراضات کے جوابات ۔۔۔ معاذ بن محمود

آسیہ مسیح کیس پر ردعمل اور چند اعراضات کے جوابات ۔۔۔ معاذ بن محمود

آسیہ کیس پر عدالت عظمی نے ملزمہ کے لیے بریت کا فیصلہ دیا جس پر ہمارے دوست جناب ظفر الاسلام سیفی نے کچھ سقم نکالے۔ ہم نے سیفی بھائی کی پوری تحریر پڑھ کے اس بارے  میں مفصل رائے دینے کا فیصلہ کیا جو اس مضمون میں پیش خدمت ہے۔ ظفر الاسلام سیفی صاحب کا یہ مضمون مکالمہ پر چھپ چکا ہے اور اس  کا لنک یہ ہے :

آسیہ مسیح کیس، سپریم کورٹ کے فیصلے میں آئینی سقم۔۔۔۔۔مولانا ظفرالاسلام سیفی

آسیہ مسیح مقدمے کا فیصلہ سامنے آیا۔ یہ فیصلہ ریاست اسلامیہ  جمہوریہ پاکستان کی اعلی ترین عدالت کی جانب سے جاری کیا گیا۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ کا کردار ماضی میں، خاص کر پچھلے چند سال سے سیاسی طور پر متنازعہ رہا ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست کے تمام شہریوں نے بلا تفریق ہر فیصلے پر سر تسلیم خم کیا یہاں تک کہ ریاستی سربراہ کو ایک آئینی حق رکھنے والی عدالت نے عہدے سے سبکدوش کر ڈالا۔ ان فیصلوں کے نتیجے میں کسی قسم کی بغاوت نہ سامنے آنی چاہئے تھی اور الحمد للّٰہ نہ ہی آئی۔ اس سے پہلے ایک سیاسی شخصیت نے ایک سو چھبیس دن دھرنے کے نام پر ایک طوفان بدتمیزی برقرار رکھا لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اور میں اس بات پر متفق ہوں گے کہ ریاست کے خلاف بغاوت کا وہ راستہ غلط تھا۔ 

کسی بھی قسم کے سیاسی اختلاف سے قطع نظر یہ بات ظفر صاحب مجھ سے کہیں بہتر جانتے ہیں کہ مذہب اسلام میں حکومت کی رٹ اور ریاستی احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے کی کیا اہمیت ہے۔ ریاستی سطح پر ایک غلط فیصلہ قبول کر لینا بہرحال ریاست میں بغاوت برپا کرنے کی نسبت بہتر فیصلہ ہے خاص کر اس وقت جب ریاست کو برقرار رکھنے کے لیے عوامی اتحاد کی اشد ضرورت ہو، خاص کر اس وقت جب ریاست اندرونی و بیرونی منفی طاقتوں سے نبردآزما ہو اور خاص کر اس وقت جب شرپسند عناصر ہماری صفوں میں اس قدر رچ بس گئے ہوں کہ عاشقان رسول کے بھیس میں معصوم عوام کی جان اور مال لوٹنے تک میں جب چاہیں کامیاب ہو رہے ہوں۔ ایسی صورتحال میں فتنے کی وجہ بننے سے میری ذاتی رائے میں رضاکارانہ طور پر ہی اجتناب برتنا چاہئے۔ یقیناً آپ اتفاق کریں گے کہ واجبی ہی سہی، مگر اسلام کے نام پر ایک ریاست کا ہونا اس کے نہ ہونے سے بہرحال بہتر ہے، خاص کر ایک ایسے وقت میں جب مسلمان عالمی سطح پر عموماً مغلوب حالت میں ملتے ہوں۔ 

یہاں یہ بات کرنا بھی نہایت اہم ہے کہ عاشقان رسول کے جذبات کا خیال رکھنا بھی بیشک ایک اسلامی جمہوریہ پر فرض ہے اور اس کا پورا اہتمام لازم ہے۔ اس ضمن میں فی الوقت موجود قانون سازی اگر ناکافی ہے تو اس کی تکمیل پر اصرار ہونا چاہیے اور اگر کافی ہے تو اس پر عمل درآمد۔ یہ تو ہوگئی اصولی بات۔ لیکن ہر فرد چونکہ ایک انفرادی آزادانہ رائے بھی رکھتا ہے لہذا عین ممکن ہے کہ میں اور آپ کہیں اتفاق تو کہیں اختلاف رکھتے ہوں۔ مثال کے طور پر توہین رسالت کا قانون لازمی ہے؟ جی بالکل لازمی ہے۔ کیا اس قانون کا غلط استعمال ہوسکتا ہے؟ جی بالکل ہوسکتا ہے۔ کیا اس غلط استعمال کے سدباب کے لیے اس قانون میں بہتری لائی جاسکتی ہے؟ جی بالکل لائی جا سکتی ہے۔ کیا اس قانون میں بہتری لانی چاہئے؟ جی ہاں ضرور۔ 

یہ تمام ذیلی سوالات ہیں جن پر رائے دینے سے نہ میں دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہوں نہ آپ۔ یوں ان جوابات پر جزوی یا کامل اتفاق یا اختلاف پر نہ میں ارتاد کا مرتکب ہوتا ہوں نہ آپ کسی شدت پسندی کے۔ یقیناً ایسے افراد بھی ضرور وجود رکھتے ہوں گے جو ان سوالات کی آڑ میں کسی قسم کا ایجنڈا نافذ کرنے کے درپے ہوں گے لیکن کیا ایک مضبوط بیانیہ اس خصلت کا حامل نہیں ہونا چاہئے کہ خود پر اٹھنے والے تمام سوالات قطع نظر اس پر کہ خوش نیتی پر مبنی ہوں یا بدنیتی پر، کے جوابات اپنے اندر ہمہ وقت موجود رکھتا ہو؟ دوسرے الفاظ میں ایک ہزار بدنیت بھی اگر ایک سوال پوچھیں تو کیا اس کا جواب دینا نہیں بنتا جب ایک اچھی نیت بھی انہی سوالات کے استفسار میں شامل ہو؟ میرا اندازہ ہے اور امید بھی کہ آپ کا جواب اثبات میں ہوگا۔ 

ایک بات اور جس کا مجھ سے زیادہ آپ کو علم ہوگا وہ یہ کہ ایک ہی مسئلے پر مختلف علماء کی رائے ہونا ناصرف قابل قبول ہے بلکہ ماضی میں اس قسم کی کئی شہادتیں بھی موجود ہیں جہاں ایک معاملے پر علماء بلکہ صحابہ کرام تک کی آراء میں اختلاف ہو تاہم اس کے باوجود بھی ریاست کے اتحاد کی خاطر کسی ایک کو رائج رہنے دیا جائے۔ 

پس اس تمہید کا خلاصہ یہی رہا کہ ریاست میں مسلمانوں کا اتحاد کسی بھی قسم کی بغاوت سے بہتر ہے، توہین رسالت کے قانون میں کسی کو بہتری کی امید ہو تو اس پر بات کرنے والا ارتاد کا مرتکب نہیں ہوتا اور ایک بہترین قانون وہی ہوتا ہے جو خود اپنے اندر کسی بھی قسم کے اعتراض کا جواب پہلے سے موجود رکھتا ہو۔ مزید یہ کہ ایک ہی معاملے پر علماء مختلف رائے کے حامل بھی ہوسکتے ہیں اور اس صورت میں حکومت کرنے والوں کی رائے اگر رائج بھی ہوجائے تو اس پر بغاوت مناسب نہیں۔ 

میں اپنے ان دلائل کی بنیاد پر مکمل خلوص سے اس بات کا قائل ہوں کہ ریاست کے اہم ترین دو اداروں کے خلاف سڑکوں پر توڑ پھوڑ کرنا بغاوت کی ایک قسم ہے کہ دونوں ادارے اپنے اپنے کام پر حکومت کی جانب سے متعین ہیں اور ان دونوں اداروں کے خلاف احتجاج حکومت وقت یا حاکم وقت کے خلاف بغاوت تصور ہوگا۔ اس بغاوت کی شرعی حیثیت کیا کے یہ فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں خاص کر اس وقت جب اس کی آڑ میں وہ عناصر بھی شامل ہوں جو عوام میں پھوٹ ڈالنے کا موقع ڈھونڈتے ہیں اور جن میں سے کسی ایک کا بال بھی بیکا ہوجائے تو احتجاجی (تخریبی و غیر تخریبی) عناصر اسے حکومت کی جانب سے “نہتی” عوام پر حملے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ 

اب آتے ہیں آپ کی جانب سے عدالت عظمی کے فیصلوں پر اٹھائے گئے قانونی سقم پر۔ 

سپریم کورٹ کی جانب سے پہلا اعتراض آپ کے بقول یہ تھا کہ واقعے کے بعد ایف آئی آر درج کرانے میں پانچ دن کی تاخیر ہوئی جس کا شک ملزم کے حق میں جاتا ہے۔ آپ کے نزدیک یہ تاخیر کسی طور ملزمہ کو فائدہ نہیں دے سکتی لہذا یہ اعتراض “تعصب” ہے۔ آپ اس بابت لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

“اس معاملے سے متعلق پولیس کو تاخیر سے آگاہ کرنے کے ذریعے بظاہر کوئی ناجائز فائدہ حاصل نہیں کیا گیا بلکہ یہ مقدمے کی سنجیدگی اور سنگینی کے باعث پولیس کو آگاہ کرنے سے قبل غیر معمولی احتیاط ہے”۔

اس متن میں لفظ “بظاہر” اہمیت کا حامل ہے۔ میں کوئی ماہر قانون تو نہیں البتہ چونکہ آپ بھی قانون کے ماہر نہ ہوتے ہوئے پاکستان کی اعلی ترین عدالت کے فیصلے میں “سقم” بتلانے کو اپنا حق سمجھتے ہیں (جس میں کوئی مضائقہ نہیں) لہذا میں بھی یہی حق مستعار لے کر اپنی رائے دینا چاہوں گا۔ 

ایف آئی آر میں تاخیر کا ملزم کے حق میں جانا ریاست پاکستان کی سطح پر نہیں بلکہ عالمی سطح پر ایک مسلمہ حقیقت ہے جسے زیادہ تر استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایف آئی آر چونکہ ایک فریق کے خلاف منفی عمل یا قانون کی خلاف ورزی کی شکایت ہے لہذا اس شکایت کو فوری طور پر درج ہونا چاہئے تاکہ واقعے کے بیان میں کسی قسم کی ارادتاً بدنیتی پر مبنی رد و بدل نہ ہوپائے، جو عموماً اضافی سوچ کا نتیجہ ہوا کرتی ہے اور چونکہ یہ اضافی سوچ وقت مانگتی ہے لہذا شکایت کے اندراج میں تاخیر کا باعث بنتی ہے۔ ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر مختلف مشوروں کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں شکایت اور حقیقی واقعے کا رنگ بدل جانا قدرتی امر ہے اور چونکہ ایف آئی آر ایک فریق کا مؤقف ہوتی ہے لہذا شکایت کو بڑھا چڑھا کر درج کرنے کا باعث بنتی ہے۔

آپ کے مطابق واقعے کی حساسیت کے باعث پانچ دن لیے گئے تاہم یہی پانچ دن دراصل عدالت کے نزدیک عمومی طور پر بدنیتی، منصوبے کے تحت اصل واقعے میں ردوبدل اور واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی اصل وجہ ہوا کرتے ہیں۔ یوں آپ خود اس شک کو یقینی بنا رہے ہیں جس کا اظہار عدالت عظمی نے کیا۔ اس بابت مزید تفصیلات کے لیے ریاست آندھرا پردیش بمقابلہ مدھوسدھن راؤ کو ضرور پڑھیے گا جس میں یہ مسئلہ کسی خاص واقعے سے مبرا ہو کر زیربحث لایا گیا ہے۔ مختصراً کسی بھی واقعے کے بعد ایف آئی آر جلد سے جلد درج کرانے کی حکمت یہی ہے کہ شکایت درج کرانے والے فریق کو واقعہ کی اصل بدل کر بیان کے لیے کم سے کم وقت ملے، مشورہ کر کے واقعات کے تسلسل کو بدنیتی کی بنیاد پر مسخ کرنے کے لیے کم سے کم ملے تاکہ ملزم پر الزامات وہی لگائے جائیں جو حقیقت سے قریب تر ہوں۔ پانچ دن کی تاخیر کسی بھی واقعے کو منصوبے کی حیثیت دینے کے لیے بہت ہیں خاص کر اس وقت جب گواہان خواتین سگی بہنیں بھی ہوں اور دونوں کا شکایت کنندہ قاری عبد السلام کے ساتھ بطور سابقہ طالبات قرآن تعلق ملزمہ نے الزام کے طور پر بھی بیان کیا ہو۔ 

دوسرے اعتراض کی بابت آپ کے بقول سپریم کورٹ کے نزدیک مقامی سطح پر منعقد کیے جانے والے جرگہ واجتماع کی قانونی حیثیت کوئی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ اقرار فرماتے ہیں کہ “ریاستی عدلیہ کے مقابلے میں اس نوع کے اجتماعات کی کوئی حیثیت نہیں” لیکن اسی سانس میں خود اپنے اقرار کی نفی بھی کرتے ہیں کہ “فی نفسہ انکی حیثیت کا انکار کرنا بجائے خود ایک غیرقانونی دعویٰ ہے”۔ 

یہ معاملہ بہت اہمیت کا معاملہ ہے بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ دراصل یہی معاملہ اس سارے قضیے کی جڑ ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقہ جات میں مقامی مسائل کے تصفیے کے لیے مقامی عمائدین پر مبنی جرگے ایک متواتر مشاہدہ ہے لیکن اس قسم کے جرگے صرف اور صرف کسی مسئلے کے باہمی پرامن حل کے لیے ہی منعقد ہوتے ہیں ناکہ فرد جرم عائد کرنے، گواہوں پر جرح کرنے یا کسی مبینہ ملزم کو سزا تجویز دینے اور اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے۔ بہ الفاظ دیگر، زید اور بکر کے درمیان کسی بھی اختلاف کی صورت میں فیصلے کا اختیار باہمی رضامندی سے ظفر کو دیا جاسکتا ہے لیکن اس صورت میں ظفر کی تحقیق اور فیصلہ ریاست کی جانب سے متعین کردہ اداروں کی تفتیش اور مقدمے کے فیصلے پر ہرگز ہرگز حجت نہیں اور نہ ہی آئین پاکستان کے تحت کسی قانونی حیثیت کا حامل ہے۔ آرمی چیف ہوں یا کوئی اور اعلی افسر، کوئی بھی شخص آئین کے متوازی یا اس کے خلاف فیصلے کے مجاز نہیں۔ یوں یہ جرگہ ناصرف آئینی اعتبار سے غیر قانونی تھا بلکہ واقعے کے چشم دید گواہان کے مطابق ایک ہجوم کی شکل اختیار کر چکا تھا جہاں ملزمہ کو جان کو واضح خطرہ دکھائی دے رہا تھا۔ 

اس قسم کے جرگے عموماً ہجوم (mob) کا کردار ادا کرتے ہیں جس کے غلط ہونے کی حکمت میں غیر جانبدار ثالث کا نہ ہونا، الزام لگانے والے کا خود ہی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھنا، وقت حالات اور واقعات کے تناظر میں موجود افراد کا جذبات سے مغلوب ہونا اور ملزم کا جرگے میں موجود افراد کے خیالات کے زیراثر شرمندگی کے خوف سے کسی بات کو چھپانا یا غلط بیانی سے کام لینا شامل ہیں۔ غور کیا جائے تو یہی ہجوم جس کا اثر کئی لوگ “جرگے” کی اصطلاح اختیار کر کے زائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، آسیہ کے پہلے اقرار کا مبینہ باعث بنا۔ عدالت کے مطابق آسیہ بی بی کو عوامی اجتماع میں لانے کا اقرار شکایت کنندہ خود اپنے بیان میں کر چکا ہے اور بیان شدہ واقعات میں بعد ازاں رد و بدل بھی کرتا رہا۔ میں اپنے تمام دوستوں کو ہجوم یا جرگوں کی نفسیات کا اندازہ لگانے کے لیے سیالکوٹ کے دو حافظ بھائیوں منیب و مغیث کا قتل، مشال خان کا قتل اور ماضی میں مختاراں مائی کی عصمت دری یاد دلانا چاہوں گا۔ یہ تمام جرم مختلف جرگوں یا مجمع کی جانب سے غیر ریاستی فوری انصاف کے نام پر کیے گئے۔ 

آپ کے نزدیک عدالت عظمی کی تیسری دلیل ابتدائی تفتیش کا ایس پی سے نچلے درجے کی جانب سے ہونا ہے جسے عدالت نے بعد ازاں خود یہ کہہ کر واضح کر دیا کہ اس غلطی کو بعد میں ٹھیک کر دیا گیا۔ یہاں اعتراض وہی ہے کہ ابتدائی تفتیشی رپورٹ لکھتے ہوئے اور اس کے فوری بعد کی تفتیش انتہائی اہم ہوا کرتی ہے۔ اس پر مزید ستم یہ کہ توہین رسالت سے متعلق سنگین اور حساس معاملہ جس کی استغاثہ کے بقول تحقیق میں ہی پانچ دن لگ گئے، بھلا کیونکر ایس پی سے نیچے نسبتاً کم ذمہ دار پولیس افسر کرتا؟ ملزمہ کے مطابق پولیس مجرموں سے ملی ہوئی تھی۔ اس الزام کے ساتھ ملا کر یہ اعتراض ٹھیک ٹھاک وزن رکھتا ہے جو ملزمہ کے حق میں سمجھا گیا۔ 

آپ کے نزدیک چوتھا سقم جو آپ نے عدالت عظمی کے فیصلے میں تلاش کیا وہ فیصلے میں فقط دو گواہوں پر اعتراض تھا حالانکہ آپ بشیر احمد بنام سرکار فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے دلیل دیتے ہیں کہ اس فیصلے کے مطابق فرد واحد کی گواہی بھی کسی توہین رسالت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ 

میرے لیے یہ واقعی حیرانی کی بات تھی کیونکہ میں تو زنا ثابت کرنے کے لیے چار گواہ ضروری ہونے کے گمان میں تھا۔ ایک انسان کو توہین رسالت کا مرتکب ثابت کرنے کے لیے اسے زانی ثابت کرنے سے کم جتن کرنے پڑتے ہیں یہ میرے لیے حیرت کا باعث تھا۔ تاہم آپ ایک اہم نکتہ نظرانداز کر گئے۔ یہاں دو یا ایک گواہ ہونا اہم نہیں بلکہ پچیس سے تیس لوگوں کی موجودگی میں فقط دو گواہوں کا الزام اہم ہے۔ ایک بار وقوعے کو چشم زدن میں لائیے۔ پچیس سے تیس خواتین موجود ہیں، ریاست پاکستان میں جہاں غالبا ننیانوے فیصد مسلم اکثریت موجود ہے، زمانہ دو ہزار نو کا جب مذہب کو بنیاد بنا کر دہشتگردی عروج پر ہے، ایسے میں ایک مسیحی خاتون توہین رسالت کی مرتکب ہوتی ہے، اور اس بات کی گواہی صرف اور صرف دو عورتیں دیتی ہیں جو آپس میں سگی بہنیں ہیں۔ ان کے علاوہ باقی ایک عورت بھی گواہی دینے کو راضی نہیں۔ آپ مصر ہیں عدالت اسے ملزمہ کی حق میں نہ سمجھے؟ بہتر۔ 

پانچویں دلیل جو سپریم کورٹ نے ملزمہ کے حق میں دی وہ یہ کہ گواہان کے بیانات میں تضاد رہا۔ آپ فرماتے ہیں یہ اعتراض اس قدر لغو ہے کہ اس پر بات کرنا ضروری نہیں۔ آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ سب اصل مدعے یعنی “توہین ہوئی یا نہیں ہوئی” سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ 

جناب والا، عرض ہے کہ اگر زید اور بکر کسی احسان اللہ احسان کی جانب سے قتل کی گواہی دیں مگر ایک کہے کہ وقوعے کے وقت احسان نے بنیان پہنا تھا، دوسرا کہے بنیان نہیں تھا چغا پہنے تھا تو یہ اہم تضاد ہے اور اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ دونوں جو کہانی سنا رہے ہیں وہ صرف کہانی ہے۔ ایک آدھ تضاد ہو تو کوئی مسئلہ نہیں مگر جب تضادات ہی تضادات ہوں، ایف آئی آر میں تاخیر ہو، پولیس والا مطلوبہ اہلیت کا نہ ہو اور ابتدائی طور پر ملزمہ کو ہجوم کے سامنے پریشر دینا بھی ثابت ہو تو ایسی صورت میں دنیا کی کوئی غیر جانبدار عدالت بھی قاری عبد السلام کی بات کو حقیقت ماننے سے انکاری ہوجائے گی۔ 

اس کے علاوہ آپ نے چند سوالات مزید بھی اٹھائے جن کے سرسری جواب دیتا چلوں۔ آپ فرماتے ہیں متروک کی جگہ لفظ منحرف لکھا گیا۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ مترجم کی غلطی ہے۔ آپ کہتے ہیں۔  ہائیکورٹ میں گواہ پر جرح نہ ہونے پر میں یاددہانی کرواتا چلوں کہ عاشق رسول جناب ممتاز قادری کی جانب سے سلمان تاثیر کے قتل کے بعد جان بچانے کی خاطر یہ قدرتی تھا کہ وکیل کی جانب سے گواہوں پر جرح نہ کی جائے اور جج کی جانب سے ملزمہ کو سزائے موت لازمی دی جائے۔ ایسا ہی ہوا۔ ٹرائل کورٹ کے فیصلے پر گیارہ دن کی تاخیر کی صورت میں لاہور ہائیکورٹ نے اپیل کیوں منظور کی اس پر مزید معلومات کی ضرورت ہے۔

امید ہے میں اپنی رائے واضح طور پر سمجھا پایا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply