• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سیکس ایجوکیشن کیا ہے؟ اسلامی معاشرے کے لیے قابل قبول یا نہیں ؟رانا اویس

سیکس ایجوکیشن کیا ہے؟ اسلامی معاشرے کے لیے قابل قبول یا نہیں ؟رانا اویس

ایک سال پہلے تک میں سیکس ایجوکیشن کو شجر ممنوعہ سمجھتا تھا جو ہمارے مذہبی طبقے کی سوچ بھی ہے لیکن میرے بڑے بھائی کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بعد مجھے پتہ چلا کہ سیکس ایجوکیشن ہوتی کیا ہے
سیکس ایجوکیشن عمر کے حساب سے دینی پڑتی ہے یہ کام والدین کریں تو سب سے بہتر ہے لیکن اس کا اہتمام اگر سکول یا مدرسہ والے کررہے ہیں تو بھی مناسب ہے
بچے اور بچی کو یہ بتایا جانا چاہیے کہ بیٹا آپ کے کچھ پرائیویٹ پارٹس ( خفیہ اعضاء) ہیں ان کو چھپانا بہت ضروری ہوتا ہے سوائے ماں کے (باوقت ضرورت) کسی کے سامنے اسے ظاہر نہیں کرنا چاہیے اور ان اعضاء کو ہاتھ لگانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں ہے اگر کوئی  بلاوجہ ان اعضاء کو ہاتھ لگائے تو فوراً اپنے والدین میں سے کسی ایک کو بتائیں   اور اگر آپ سکول یا مدرسے میں ہیں تو کسی استاد یا پرنسپل کو بتائیں اور ماں باپ سے کوئی  بات نہ چھپائیں اور ماں باپ کو بھی چاہیے بچے یا بچی کی ایسی باتوں کو سنجیدگی سے سنیں اور اس پہ فوری ایکشن لیں بچے کا بہترین دوست  اس کا باپ ہونا چاہیے اور بچی کی بہترین سہیلی اس کی ماں سے بڑھ کے کوئی نہیں ہوتی۔

بچہ یا بچی جب شعور حاصل کرنا شروع کرتے ہیں تو کچھ چیزیں اس کے لیے نئی ہوتی ہیں جیسے جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیاں وغیرہ اور ساتھ ساتھ اسے تھوڑی سی آزادی بھی ملتی ہے وہ دوستوں کے ساتھ کھیلتا(کھیلتی) ہے تو ہر وقت اس کے سر پہ پہرہ نہیں ہوتا ماں باپ کو پتہ ہوتا ہے کہ بچہ (بچی) فلاں گھر میں فلاں بچے کے ساتھ کھیل رہا(رہی) ہے اور سکول یا مدرسے میں بھی اسے کچھ ٹائم دوستوں کے ساتھ یا تنہا گزارنے کا موقع ملتا ہے بلکہ اکثر والدین بچے کو کریانہ کی دکان  یا  قریبی  دکان پہ تنہا کوئی چیز لینے بھیج دیتے ہیں بہت سے والدین تو اس معاملے میں احتیاط کرتے ہیں لیکن سب نہیں اور یہی وہ غلطی ہوتی ہے جس کا ناقابل تلافی نقصان آپ کو اور آپ کے بچے یا بچی کو بھگتنا پڑ سکتا ہے(اللہ نہ کرے)

یہ  پڑھیں:  ماں میں زینب ہوں۔۔۔سید شاہد عباس

جو باتیں ہم سو کالڈ شرم و حیا کی وجہ سے بچوں سے نہیں کرتے وہی باتیں اگر کوئی  غیر کرے گا تو اس کا نقصان بچے کی شخصیت پہ پڑسکتا ہے میرے ایک محترم دوست نے لکھا ہے کہ ہم بچے کو انجانے خوف سے ڈراتے ہیں تو اس کا بچے کی شخصیت پہ بُرا اثر پڑسکتا ہے تو پیارے دوست عرض یہ ہے کہ آپ اپنی گاڑی کو لاک کرتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ گلی سے گزرنے والا ہر بندہ چور ہے بلکہ آپ نے اپنی طرف سے احتیاط کرنی ہے جو ایک چور ہے آپ نے اپنی گاڑی اُس سے بچانی ہے یہی فارمولہ ہم نے بچوں کے معاملے میں بھی اپنانا ہے۔

یاد رکھیں ہر انسان کے اندر ایک جانور چھپا ہوتا ہے جو اسے قابو کرلے وہ باشعور اور متقی انسان کہلاتا ہے ورنہ انسان جیسا درندہ تو جنگل میں بھی نہ ملے اور حالیہ واقعات اس کی زندہ دلیل ہیں

اگر آپ مرد ہیں اور آپ کو لگتا ہے کہ حالات اتنے بھی خراب نہیں ہیں تو آپ یا تو اللہ کے ولی ہیں یا بیوقوف، آپ کسی دن عورتوں والا حلیہ اپنا کے برقع پہن کے بازار چلے جائیں یقین کریں آپ کو دوسرے مردوں کی نظریں جسم میں چبھتی ہوئی  محسوس ہوں گی اور آپ کو پتہ چلے گا کہ نظروں ہی نظروں میں کھا جانا کسے کہتے ہیں۔
ہمارے پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں مشترکہ خاندانی نظام چلتا ہے جو کہ ہمارے معاشرے کا ناسور ہے کچھ مجبوریاں ہیں اور کچھ مشرقی روایات جنہیں ہم نبھاتے نبھاتے اپنے بچوں کا استحصال کرتے ہیں اور ایسے مشترکہ خاندانی نظام میں بچوں کے ساتھ جو جو ظلم ہوتے ہیں وہ یہاں لکھے نہیں جاسکتے اور اکثر “ظلم” محرم اور قریبی رشتہ دار کرتے ہیں اگر آپ کو میری باتیں بُری لگ رہی ہیں تو معذرت لیکن باخدا اپنے بچوں کو تباہی سے بچائیں اگر آپ کی پوری زندگی کی احتیاط کی وجہ سے کسی بچے کی شخصیت مجروح ہونے   سے  بچ جائے  تو  یہ  مہنگا  سودا  نہیں  ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان میں  جنسی تعلیم کو لاگو کرنے پہ کام ہورہا  ہے  پاکستان  ایک  مذہبی اور مشرقی روایات والا ملک ہے اس لیے اگر آپ کو سیکس ایجوکیشن کی کسی چیز پہ اعتراض ہے تو آپ اعتراض والی بات کو نکال دیں اور اسے خالص اسلامی تعلیمات کے مطابق لاگو کریں یوں سمجھ لیں بچے یا بچی کو اس کی عمر کے مطابق بُرائی سے بچنے کی تعلیم دینا اور اسے اس کی (بچے یا بچی) حفاظت کے لیے تیار کرنا ہی جنسی تعلیم (سیکس ایجوکیشن) ہے جو سیکس ایجوکیشن یورپ اور امریکہ میں دی جاتی وہ وہاں کے کلچر اور ماحول کے مطابق دی جاتی ہے اس لیے ہمارے مذہبی طبقہ اس پہ اعتراض کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو تو پتہ ہی نہیں کہ یہ ہوتی کیا ہے ورنہ ہمارے مدرسوں اور سکولوں (خاص طور پہ سرکاری سکولوں) میں ایسے ایسے ظلم ہوتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔مدرسوں میں اور سرکاری سکولوں میں انتظامیہ کو چاہیے کہ اس بارے میں آگاہی دی جائے  اور کسی بھی استاد اور مہتمم کو کسی طالبعلم کو اکیلے میں ملنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے  اور  اس  میں کوئی  شک  نہیں کہ کچھ مدرسوں میں بڑی احتیاط کی جاتی ہے لیکن ایسے مدرسے کم ہیں  جب کوئی بچے سے ظلم کرتا ہے تو ایسے واقعات  کو اپنے فرقے اور مدرسے کی نیک نامی بچانے کے لیے چھپانے والے زیادہ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply