عبادت جب کراہت بن جائے۔۔محمد ارسلان طارق

بلاشبہ عبادت سے مقصود اپنے رب کی رضا ہوتی ہے جس میں ہم اپنے پروردگار کی طرف سے عطا کردہ احکامات کی اس کے محبوب پیغمبر ﷺ  کے سنہرے اور متبرک طریقے سے پیروی کرتے ہیں۔ اپنے رب کی بندگی کر کے اپنے وجدان کی تسکین کا حصول انسان کی فطرت خاصہ ہے۔ اس کی شرح مختلف انسانوں میں مختلف ضرور ہو سکتی ہے لیکن اہل اسلام دیگر کتابی مذاہب کے برعکس اپنے اندر بندگی کا پہلو بہت نمایاں رکھتے ہیں۔

اللّٰہ کریم کی عبادات میں ایک انتہائی اہم عبادت عید الاضحیٰ  کے موقع پر جانوروں کی قربانی ہے۔ جو سنت ابراہیم علیہ السلام کی یاد تازہ کرتی ہے کہ جس دوران آپ علیہ السلام نے اللّٰہ کریم کا حکم جانتے ہوئے بلا حیل و حجت اپنے بیٹے کو اپنے ہی ہاتھ سے قربان کرنے کےلئے پیش کردیا۔ آپ علیہ السلام کی اس مبارک سنت کی نسبت امت محمدیہﷺ  کے صاحب استطاعت افراد پہ اللّٰہ کے حضور جانوروں (شریعت میں بیان کردہ) کی قربانی فرض کر دی گئی اور اس حکم کی تعمیل کے لیے اہل اسلام ہر عید الاضحیٰ  پر بڑے ذوق و شوق سے عمدہ جانوروں کی خرید و فروخت کرتے ہیں اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے  اللّٰہ کریم کے حضور اپنی قربانی پیش کرتے ہیں۔

دین اسلام کی خوبصورتی اس امر سے واضح ہے کہ اسلام عبادات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ معاملات (یعنی ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ سلوک) پر بھر پور توجہ دلاتا ہے۔ یہاں تک کہ بیشتر معاملات تو ایسے ہیں کہ جس کی نامناسب ادائیگی عبادات کے اجر کو ملیا میٹ کر دیتی ہے۔ اسی وجہ سے عبادات اور معاملات کا ایک بہترین توازن اسلام کا مطلوب ہے۔

عید الاضحی کے موقع پر جس قدر کثیر قربانی کا اہتمام کیا جاتا ہے اس دوران اس قربانی سے پیدا شدہ آلائشوں اور خون کو ٹھکانے لگانے کے کام میں کوئی باقاعدہ انتظام نہیں کیا جاتا ہے۔ اس بات کے ادراک کی کمی ریاستی اور انفرادی دونوں سطح پر پائی جاتی ہے۔ ہزاروں ، لاکھوں کے جانور تو خریدے جاتے ہیں لیکن محض سینکڑوں خرچ کی خاطر اس بات کا احساس نہیں رکھا جاتا کہ جس مالک الملک کے حکم کی تعمیل کی جارہی ہے یہ اسی کا تقاضا ہے کہ ایسے امور کو صفائی ستھرائی کے ساتھ انجام پانا چاہیے تا کہ عبادت کی ایک حسین شکل سامنے آئے۔

ابو موسیٰ اشعری رضی اللّٰہ عنہ کو بصرہ کا گورنر بنا کر بھیجا گیا تو وہ اول لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ مجھے عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ نے آپ کی طرف بھیجا ہے کہ میں آپ کے لئے قرآن و سنت کی تعلیم اور آپکے علاقوں کی صفائی ستھرائی کا خیال کروں۔

یہ کیسی عبادت ہے کہ جس کی ظاہری شکل تو پوری کر لی گئی لیکن اس کی باطنی شکل کو ادھورا چھوڑ دیا جائے جو لوگوں میں کراہت پیدا کرے۔ پورا دن گزرنے کے بعد جگہ جگہ خون کے ڈھیر، آلائشوں کے جگہ جگہ ٹھکانے اور دیگر فضلوں کے ڈھیر اس خوبصورت عبادت کے بعد ایک کراہت کی شکل پیدا کرتے ہیں۔ گلی کوچوں، چوک چوراہوں اور حتی کہ پارکوں میں بدبو پیدا کرتےگندگی کے ڈھیر خوبصورت عبادت کے حامل تہوار کا سارا لطف کرکرا کر دیتے ہیں۔انتہائی قابل افسوس امر ہے کہ اس قباحت کا زیادہ شکار ہمارا ملک پاکستان ہی ہے۔

سعودی عرب کی بات کرتے ہیں تو وہاں آپکو شہر میں جانور ذبح کرنے کی اجازت نہیں۔ شہر سے کم ازکم تین کلو میٹر دور قربان گاہیں ہیں جہاں آپ جاتے ہیں، جانور پسند کرتے ہیں، قربانی کی خدمات لیتے ہیں اور شہر میں محض گوشت لے کر ہی آتے ہیں۔  شہر میں گند، سڑکیں بند اور بدبو کے ڈیرے   بھی نہیں لگتے۔
یہی صورتحال ہمیں ترکی کے شہروں میں دیکھنے میں آتی ہے جہاں لوگ اپنی منشا کے مطابق گلیوں اور سڑکوں پر قربانی نہیں کر سکتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور اگر کچھ ممالک میں گلی کوچوں میں قربانی کرنے کی روایت پائی جاتی ہے تو وہاں ریاستی اور علاقائی قوانین کے ذریعے راستوں اور رہائشی محلوں کو صاف ستھرا رکھنے کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ ان سب باتوں کو خاطر میں لاتے ہوئے ضرورت اس امر کی ہے اپنی عبادتوں کو محض پورا کرنا ہمارا حاصل نہیں بلکہ عبادت کو احسن طریقے سے معاشرتی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بارگاہ اقدس میں بغرض قبولیت پیش کرنا مقصود ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply