چائے کی پیالی اور کھڑکی کے باہر کا نظارہ۔۔ظریف بلوچ

سورج طلوع ہوچکا تھا اور اندھیری رات کے بعد دن کی  روشنی ایک نئی امید کے ساتھ نمودار ہوئی  تھی ،مہروان کی ماں چائے کی پیالی کھڑکی پر رکھ کر چلی گئی تھی۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے میں نے کھڑکی کے باہر جھانک کر ایک ٹھنڈی سانس لی، کیونکہ ساری رات ایک بند کمرے میں قید ہونے کے بعد مجھے سانس لینے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ باہر کا منظر میرے لئے روز ایک جیسا ہوتا ہے اورہروقت میری نظریں ایک بھوت نما بلڈنگ پر اٹک جاتی ہیں۔ یہ بھوت نما بلڈنگ کہنے کو تو شہر ناپرسان کا اکلوتا انٹرکالج ہے جہاں روز سینکڑوں بچے علم کے نام پر ڈگریاں لینے آتے جاتے ہیں۔بلڈنگ پر پڑی دراڑوں سے بے خبر اور استاتذہ کی کمی کا بہانہ بنائے بغیر اسی بھوت نما بنگلے میں سہانے خواب دیکھے جارہے ہوتے ہیں اور آدمی سے انسان بننے کے سفر طے کیے بغیر ڈاکٹر اور انجینئر بننے کے ادھورے خوابوں کی تکمیل روز اس گمنام بستی میں رونقیں لاتی ہے ۔

بچپن میں سنا تھا کہ اکلوتے بچے  سے لوگ بہت پیار کرتے ہیں، اسکا تجربہ اس وقت ہوا جب مہروان نے جنم لیا اور اب تو روز احساس ہوتا ہے یا احساس دلایا جاتا ہے کہ اکلوتے کی ہر ضد  کے آگے ہار ماننا ضروری ہے۔ پھر سوچتے سوچتے خیال آتا ہے کہ انٹرکالج پسنی بھی شہر کا اکلوتا کالج ہے ہمیں روز اسکا خیال کیوں نہیں آتا؟ یہاں بھی روز ہمارے بچے اور بچیاں آتے جاتے ہیں۔پھر اچانک سوشل میڈیا میں ایک پوسٹ دیکھ کر میں خوشی سے جھومنے لگتا ہوں اور ایک کپ مزید چائے کا مطالبہ کرتے ہوئے بار بار کھڑکی سے باہر کا نظارہ دیکھنے لگتا ہوں ،کہ واقعی اکلوتے سے سب محبت کرتے ہیں۔لوگ خوشی سے ناچ رہے ہوتے ہیں اور چند روز بعد کریڈٹ لینے کی ایک نئی جنگ کا بھی آغاز ہوگا کہ ہم نے الیکشن کے دوران پڑھا لکھا گوادر کا جو نعرہ لگایا تھا، پسنی بوائز انٹر کالج کو ڈگری کا درجہ ملنے کے بعد اب پسنی میں تعلیمی انقلاب برپا ہوگا۔ اب غریب کے بچے اسلام آباد، شال اور کراچی جانے کی بجائے پسنی میں اعلیٰ  تعلیم حاصل کرنے کے خواب پورے  کریں گے۔

یہ سوچتے سوچتے میری کمزور نظریں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے  ایک نوٹیفکیشن پر پڑیں کہ 2020 کے بعد دو سالہ ڈگریاں قابل قبول نہیں ہوں گی ۔ایک ٹھنڈی سانس لینے کے بعد سوچنے لگتا ہوں کہ دو سالہ ڈگری ختم ہونے کے بعد اب ڈگری کالجز میں بھی چار سالہ بی ایس ڈگری لاگو ہوگی۔ بلوچستان کی  یونیورسٹیز میں لیکچرار کی کمی پہلے ہی سے ہے جہاں وزیٹنگ فیکلٹی سے کام چلایا جارہا ہے۔اب ڈگری کالجز میں پڑھانے کے لئے سینکڑوں اساتذہ کو کہاں سے لایا جائے گا کیونکہ اس وقت انٹرکالج پسنی میں سائنس اور آرٹس کے مضامین کو پڑھانے کے لئے اساتذہ کی تعداد دس سے بھی کم ہے اور اہم مضامین کو پڑھانے کے لئے اساتذہ تک موجود نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پھر خیال آتا ہے کہ کوئی مسئلہ نہیں اس بھوت نما بنگلے میں بی اے اور بی ایس ای  کی  کلاسز شروع ہوں گی ۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گا اور ہمارے نوجوان بغیر اساتذہ کے نقل کو اپنا جیون ساتھی بناکر ڈگریاں لیتے رہیں گے جیسا کہ ہم جیسے کم علم اور پاگلوں نے ماضی میں یہ ڈگریاں لے کر ایک بند الماری کی زینت بنادی  ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply