اروندھتی رائے اور لبرلز کی سیاست ۔۔۔۔قربِ عباس

اروندھتی رائے بھارتی سیاست پر اکثر تنقید کرتی رہتی ہیں، انہوں نے ہمیشہ ہی سرکار کی غلط پالیسیوں پر اپنے سوالات کے نیزے برسائے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جتنی عزت The God of Small Things جیسے بہترین ناول سے ملی تھی اگر اسی پر کمپرومائز کرکے بیٹھ جاتیں تو شاید بھارت ان کے قدم چھو رہا ہوتا لیکن ان کو پزیرائی سے زیادہ تنقید کا سامنا کرنا پڑا، بھارتی ‘دیش بھگتوں’ نے غدار کہا، یہ بھی کہا کہ پاکستان کے پے رول پر کام کرتی ہیں، کسی نے کہا کہ کرسچئن لابی کے لیے کام کر رہی ہیں۔ لیکن میں جیسے جیسے ان کے سیاسی خیالات جان رہا ہوں مجھے بہت خوشی محسوس ہوتی ہے اور بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملتا ہے۔

اروندھتی رائے بھلے تنقید انڈیا پر کرتی ہیں مگر سُن پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں بھی ‘جمہوریت’ کا کچھ ایسا ہی حال ہے۔ جمہوریت دراصل وہاں بھی ایک دلکش دھوکا ہے جس کے بارے میں انہوں نے ہمیشہ کہا کہ ہم اس کے اداروں کا خون چوس چکے ہیں اور اب ہمارے پاس صرف اس کا شیل رہ گیا ہے۔
جمہوریت کہاں ہے۔۔۔؟ میں تو نہیں دیکھ پاتی۔
ان کے نزدیک مودی سرکار کے کئی اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایک عرصہ سے ہندوستان میں مائیکرو فاشزم چل رہا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ اس کو لبرلز کی بھی سپورٹ حاصل ہے۔

ابھی کچھ روز پہلے کی بات ہے کہ اروندھتی رائے نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا؛
“لبرل سپیس کیا ہوتا ہے۔۔۔؟
وہی ہوتا ہے ناں کہ طاقت جس سپیس کو موجود رہنے کی اجازت دیتی ہے؟ سو اس لیے اس کا جھکاؤ ہمیشہ ہر اس چیز کو ‘نارملائز’ کرنے کی جانب ہوتا ہے جو ایک طاقتور انسان چاہتا ہے کہ سماج میں نارملائز کی جائے۔
اس سرکار کو یہاں تک پہنچانے میں لبرلز کا رول رہا ہے، اگر ایسا ہوتا رہا تو کہنے کو لبرلز “لبرلز” ہی رہیں گے لیکن ان کی سوچ کا جھکاؤ ‘رائیٹ’ کی جانب ہوگا کیونکہ بعض اوقات میانہ راستہ بہت تیزی کے ساتھ اپنی سمت تبدیل کرلیتا ہے۔”

میں جب پاکستانی لبرلز کو دیکھتا ہوں تو مجھے اروندھتی رائے کی بات حقیقت کے قریب لگتی ہے۔ جس طرح سے نواز شریف کے ایک بیانیے کی وجہ سے اس کا کردار، اس کا ماضی، اس کا حال، اس کی غلط پالیسیاں، اس کی کرپشن۔۔۔ سب کچھ دھل گیا اور وہ رات و رات ایک پڑھے لکھے طبقے کا لازوال ہیرو بن گیا۔

ان کی لیفٹ کے ساتھ کمٹمنٹ ہی ختم ہوگئی اور یک دم ایک دائیں بازو کی پارٹی کو بہترین پارٹی سمجھنے لگے۔ اگر اپنے پیروں کے پکے ہوتے، کسی مغالطے میں مبتلا نہ ہوتے تو کیا یہ سب سے موزوں راستہ نہ تھا کہ کسی بھی لیفٹ کی پارٹی کو سپورٹ کرتے، اس پر تنقید کرتے، اس کو ڈیلیور کرنے کو کہتے کیونکہ لبرلز اور لفٹ کا نظریہ کم از کم قریب قریب تو ہے اب لفٹ پارٹی کام کرے یا نہ کرے الگ بات ہے مگر سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ جس دائیں بازو کی پارٹی کے ساتھ چل دیے ہیں انہوں نے سوائے ‘اینٹی اسٹیبلشمنٹ’ نعرے کے ان کو اور کیا دیا ہے؟ اور وہ نعرہ بھی تب جب اپنی جان شکنجے میں پھنس گئی۔

میرا مقصد دائیں بائیں کی بحث کرنا ہرگز نہیں ہے، میں تو یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ یہ لبرلز وہ لوگ ہیں جو سیاست اور دین کو جدا رکھنے کے لیے بولا کرتے ہیں اور تعجب ہے کہ خود ہی دائیں بازو کی بکنی پہن کر جمہوریت کے پول میں غوطے لگا رہے ہیں۔۔۔؟

آج بھی میں یہی دیکھ رہا ہوں کہ بیک وقت مذہبی اور لبرلز اگلی حکومت کو ناکام بنانے کی کوشش میں سرگرم رہیں گے اور بیچاری جمہوریت، نظریہ، ریاست، آئین، دستور، عظمیٰ وغیرہ جیسی یتیم، بیوہ پارلیمنٹ میں کھجل خراب ہوتی دکھائی دے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بس نام رہے گا اللہ کا اور راج کرے گی۔۔۔ افرا تفری۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply