تعلیم ترقی کی سیڑھی۔۔زبیر بشیر

تعلیم کی اہمیت سے کسی بھی طرح انکار ممکن نہیں۔یہ  وہ زینہ ہے جو انسان کو آہستہ آہستہ ترقی کی میراج کی طرف لے کر جاتا ہے۔ تعلیم پر صرف قوم کی تعمیر و ترقی کا ہی انحصار نہیں بلکہ اس میں قوم کے احساس و شعور کو جلا بخشنے کی قوت بھی پنہاں ہے۔ اگر آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی شرح خواندگی پر نظر ڈالیں، تو آپ کو  خود بخود احساس ہو جائے گا کہ کسی قوم کی تعمیر و ترقی میں تعلیم کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔

تمام ترقی یافتہ معاشرے اپنے نظام تعلیم کی ترقی پر مضبوطی سے کاربند ہیں۔ دنیا کی کثیر آبادی کے حامل اور دنیا کے سب سے بڑے ترقی پذیر ملک کے طور پر چین میں تعلیم کی ترقی پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ خصوصاً تربیت اساتذہ چین کے تعلیمی نظام میں کلیدی حیثیت کی حامل ہے۔ اس کے ساتھ وقتاً فوقتاً اساتذہ کی بھرتیوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ چین کی وزارت تعلیم کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ  دس سالوں میں ملک کی لازمی تعلیم کے لیے 1.48 ملین مزید کل وقتی اساتذہ بھرتی کیے  گئے ہیں، جس سے ایسے اساتذہ کی کل تعداد 10.57 ملین ہو گئی ہے ۔

تعلیم وہ زیور ہے جو انسان کا کردار سنوراتی ہے دنیا میں اگر ہر چیز دیکھی جائے تو وہ بانٹنے سے گھٹتی ہے مگر تعلیم ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے گھٹتی نہیں بلکہ بڑھ جاتی ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ تعلیم کی وجہ سے دیا گےا ہے تعلیم حاصل کرنا ہر مذہب میں جائز ہے اسلام میں تعلیم حاصل کرنا فرض کیا گےا ہے آج کے اس پر آشوب اور تےز ترین دور میں تعلیم کی ضرورت بہت اہمیت کا حامل ہے چاہے زمانہ کتنا ہی ترقی کرلے۔چینی معاشرے میں تعلیم بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔

چین میں اب نو سالہ لازمی تعلیم کے لیے 207,000 اسکولوں میں 158 ملین طلباء ہیں۔ لازمی تعلیم برقرار رکھنے کی شرح 95.4 فیصد تک پہنچ گئی، جو 2012 میں 91.8 فیصد تھی۔چین کی نو سالہ لازمی تعلیم میں مفت ٹیوشن کے ساتھ چھ سال کا پرائمری اسکول اور تین سال جونیئر سیکنڈری اسکول شامل ہے۔وزارت تعلیم کے مطابق 2012 اور 2021 کے درمیانی عرصے میں، چین کی لازمی تعلیم نے کاؤنٹی کی سطح پر مکمل کوریج کی بنیاد پر متوازن ترقی حاصل کی ہے۔ اس دوران مالی وجوہات کی وجہ سے تعلیم چھوڑنے والے تمام طلباء کی شناخت کی گئی اور انہیں وقتاً فوقتاً اسکول واپس آنے میں مدد کی گئی۔

عوامی جمہوریہ چین میں اعلیٰ سطح کی تعلیم کے مواقع بھی دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ اچھے ہیں۔  حالیہ دنوں  منظر عام پر آنے والی چین میں  کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تازہ ترین فہرست کے مطابق، 31 مئی 2022 تک پورے چین میں 3,013 اعلیٰ تعلیمی ادارے تھے۔وزارت تعلیم کی طرف سے جاری کردہ فہرست کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں 2,759 باقاعدہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اور 254 خصوصی اعلیٰ تعلیمی ادارے شامل تھے۔اعلیٰ تعلیم کے باقاعدہ اداروں میں 1,270 انڈرگریجویٹ ادارے، اور 1,489 ووکیشنل کالجز اور خصوصی اعلیٰ تعلیم کے اسکول شامل تھے۔ہانگ کانگ، مکاؤ اور تائیوان میں قائم اعلیٰ تعلیمی اداروں کو فہرست میں شامل نہیں ہیں۔ ان معیاری اور اعلیٰ سہولیات کی وجہ سے دنیا بھر کے طلبہ و طالبات اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے چین آنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جہاں وہ بہترین اساتذہ کی نگرانی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

چین میں تعلیمی ترقی کی راہ میں خصوصی افراد کو بھی پیچھے نہیں چھوڑا گیا۔ ملک نے معذور بچوں کے لیے مساوی تعلیم کے حقوق پر بھی توجہ مرکوز کی ہے۔ 2021 میں، ملک کے خصوصی تعلیمی اداروں میں تقریباً 920,000 طلباء زیر تعلیم تھے، جو دس سال پہلے کے مقابلے میں 142.8 فیصد زیادہ ہے۔ چین میں زیر تعلیم بچوں کی غذائی ضروریات اور جسمانی صحت پر بھی بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ دیہی طلباء کے لیے غذائیت میں بہتری کے پروگرام سے ہر سال 37 ملین بچوں کو فائدہ پہنچا، جس سے جسمانی صحت کے ٹیسٹ پاس کرنے والے متعلقہ طلبا کی شرح 2012 میں 70.3 فیصد سے بڑھ کر گزشتہ سال 86.7 فیصد ہو گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

چین میں یکساں تعلیمی مواقع کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے تمام سطح کی حکومتیں بہترین اقدامات کر رہی ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران، تمام سطحی حکومتوں نے 1 ٹریلین یوآن (149 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ) سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے تاکہ شہری اور دیہی اسکولوں کے حالات کے درمیان فرق کو ختم کیا جاسکے اور تمام لازمی تعلیمی اسکولوں میں انٹرنیٹ تک رسائی کو یقینی بنایا جاسکے۔

Facebook Comments

Zubair Bashir
چوہدری محمد زبیر بشیر(سینئر پروڈیوسر ریڈیو پاکستان) مصنف ریڈیو پاکستان لاہور میں سینئر پروڈیوسر ہیں۔ ان دنوں ڈیپوٹیشن پر بیجنگ میں چائنا میڈیا گروپ کی اردو سروس سے وابستہ ہیں۔ اسے قبل ڈوئچے ویلے بون جرمنی کی اردو سروس سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ چین میں اپنے قیام کے دوران رپورٹنگ کے شعبے میں سن 2019 اور سن 2020 میں دو ایوارڈ جیت چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply