کل میری نظر سے ایک تحریر گزری جس میں لکھا تھا کہ مکہ اصل میں کوئی شہر تھا ہی نہیں. وہاں پر موجود کعبہ یعنی موجودہ کعبہ اصلی نہیں. ان کے مطابق اصلی کعبہ اردن کے شہر پیٹرا میں تھا جو شامیوں اور ابن زبیر کے درمیان ہونے والی جنگ میں تباہ ہوا جسے پھر ابن زبیر یا عباسی خلیفہ مامون نے مکہ میں تعمیر کروایا. صاحب تحریر نے اپنے دعوے کے حق میں قبل از مسیح کے اکا دکا تاریخ دانوں، جیوگرافر، پیٹرا کی تاریخ اور محل وقوع کا حوالہ دیا ہے.
اسے سمجھنے کے لیے سب سے پہلے پیٹرا کی تاریخ دیکھنی ضروری ہے. پیٹرا کی تفصیلی تاریخ میں نے اس لئے بیان کی ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ پیٹرا اصل میں تھا کیا. کیونکہ بہت سے لوگوں نے پہلی بار پیٹرا کا نام سنا ہے.
پیٹرا یا بطراء
پیٹرا اردن کا تاریخی شہر ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے نبطیوں نے آباد کیا. نبطی شمالی عرب کے وہ لوگ تھے جو 400 سے 300 قبل مسیح کے دوران یہاں آکر آباد ہوئے.یونانی جیوگرافر سٹریبو (63BC-21AD) کے مطابق پیٹرا اپنے عروج کے وقت میں شمالی دنیا کا سب سے اہم تجارتی مرکز تھا. ایک وقت میں پیٹرا اتنا طاقتور تھا کہ موجودہ اسرائیل تک کا علاقہ ان کے زیرِ انتظام تھا. پہلی صدی عیسوی کے اوائل میں پیٹرا کے لوگوں نے شام پر بھی حکومت کی. پیٹرا کی طاقت اور اہمیت کی وجہ اس کی دو بڑی شاہراہیں تھیں.
پہلی اہم شاہراہ مشرق اور مغرب یعنی عرب اور خلیج فارس کو بحیرۂ روم سے جوڑتی تھی جبکہ دوسری اہم شاہراہ جنوب اور شمال یعنی شام اور بحر احمر کو آپس میں لنک کرتی تھی. چوراہوں کو کنٹرول کرنے کے لیے پیٹرا نے صحرائی قلعے بھی بنا رکھے تھے. اس پورے خطے کی تجارت کا انحصار پیٹرا پر تھا. پوری دنیا کے لوگ پیٹرا آتے اور اپنا فن و حرب کا علم پیٹرا کے لوگوں میں بانٹتے.
چونکہ اس پورے خطے کی واحد مین واٹر سپلائی وادی موسی میں تھی اس لیے لدے ہوئے اونٹوں کے ساتھ آنے والے تاجروں کے پاس پیٹرا کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن تھا ہی نہیں. جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے ظلم و ستم سے تنگ آکر بنی اسرائیل کے ہمراہ دریا پار کیا تو اس مقام پر آ کر انہوں نے بنی اسرائیل والوں کی پیاس بجھانے کے لئے پتھر پر عصا مارا جس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے. اس علاقے کو وادی موسیٰ کے نام سے پکارا جاتا ہے.
پیٹرا پر کئی بار بیرونی حملے ہوئے. سکندر یونانی کی وفات کے بعد سکندر کے ایک جرنیل اینٹیگنس نے پیٹرا کو اپنی بادشاہت میں شامل کرنے کی کوشش کی اینٹیگنس کا ایک کمانڈر کامیاب بھی ہوا لیکن واپسی پر نبطیوں نے ان کا پیچھا کرکے ان کی تقریباً تمام فوج ہی ختم کردی. دوسری کوشش اینٹیگنس کے بیٹے نے کی لیکن وہ بھی ناکام ہوا. اس کے کافی دیر بعد پہلی صدی قبل مسیح میں رومی جنرل مارک انتھونی نے قلوپترا کو پیشکش کی کہ میں تمہارے لئے پیٹرا فتح کر سکتا ہوں. لیکن دونوں کی فوجوں کا بھی پہلے حملہ آوروں جیسا حال ہوا.
آرکیالوجسٹس کے مطابق خوبصورتی اور دولت کے عروج کا زمانہ 50 قبل مسیح سے 70 عیسوی کے درمیان تھا. یہ زمانہ نبطی بادشاہ آریٹس کا تھا جسے یونانیوں نے فیلوڈیمس (اپنے لوگوں سے محبت کرنے والا) کا لقب دیا تھا.
پیٹرا کا زوال!
پیٹرا کے بادشاہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ان پر کبھی زوال بھی آسکتا ہے. ہوا یوں کہ رومیوں نے اپنا پرانا اور زیادہ موزوں تجارتی روٹ دوبارہ کھول لیا. جو کہ پیٹرا کے شمال میں پیٹرا سے کافی دور تھا. جسے بعد میں شہنشاہ ڈایاکلیشن کے دور میں تیسری صدی عیسوی کے آس پاس پختہ کیا گیا. یہ شاہراہ دمشق کے شمال مشرق میں دریائے فرات کے کنارے تک جاتی تھی. اس سڑک نے جہاں سمندری ٹریفک کو اپنی طرف کھینچ لیا. وہاں پیٹرا کے خشکی کے راستوں کو بھی ویران کر دیا. پیٹرا کے ان حالات کے سبب تاجروں کے ساتھ ساتھ شہر کی آبادی، مزدور، سپاہی اور ساربان بھی پیٹرا کو چھوڑ گئے. سرائے اور بازار بند ہوگئے. کسانوں نے اپنی فصلوں کو دھول مٹی کے حوالے کردیا. پانچویں صدی عیسوی میں پیٹرا عیسائی راہبوں کا مسکن بن گیا عرب فاتحین نے خلافت کے زمانے میں بھی اس کو نہیں چھیڑا. جب مسلمانوں نے اپنا مرکز دمشق سے بغداد منتقل کیا. تو پیٹرا سے گزرنے والا رستہ بالکل ہی بند ہو گیا.
تقریباً چھ سو سال بعد صلیبی فوجوں نے یروشلم کھونے کے بعد اپنی بچھی کھچی فوج یہاں جمع کی. یہاں پر نگرانی کے لیے صلیبی آرمی نے ایک قلعہ بھی تعمیر کروایا تھا جو آج بھی موجود ہے. اس کے لئے
بعد میں اسلامی فوجوں نے صلیبیوں کو یہاں سے بھی واپس یورپ کی طرف دھکیل دیا. اس کے بعد پیٹرا ویران رہ گیا جسے ریت کی دبیز تہہ نے دنیا کی نظروں سے صدیوں چھپائے رکھا. تقریباً سات سو سال بعد پیٹرا کو سوئس سیاح جان لوئس برکھارٹ نے 1812 میں دریافت کیا. برکھارٹ کو عربی اور قرآن پر بے پناہ عبور حاصل تھا. خود کو مسلمان ظاہر کرتا تھا. اس نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے تمام سفر کے دوران اپنا نام شیخ ابراہیم ابن عبداللہ ظاہر کیا اور اسی نام کے ساتھ دفن بھی ہے.
پیٹرا کی عمارتیں
دیر
پیٹرا میں موجود ایک عمارت جو دیر کے نام سے مشہور ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مقبرہ نبطی بادشاہ ریبل دوم کا ہے. جوکہ 106 سن عیسوی میں فوت ہوا تھا.
خزانہ فرعون
خزانہ فرعون کا اگواڑہ (فرنٹ) 30 میٹر اونچا ہے اس کا نام تصوراتی ہے. خزانہ فرعون کا فرعون سے کوئی تعلق نہیں ہے.
پیٹرا کے بت
پیٹرا میں آج بھی پتھر سے تراشے ہوئے بت کھڑے ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بت دوشارس اور عزی کی نمائندگی کرتے ہیں. اس کے لیے ملاحظہ کریں
مندرجہ بالا تمام تفصیل بتانے کا مقصد یہ تھا کہ پیٹرا کی اپنی ایک معلوم تاریخ ہے. تاریخ دان اس کے بارے بالکل واضح ہیں.
پیٹرا کا خانہ کعبہ سے کوئی تعلق نہیں ہے. سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر کعبہ یا مکہ (بکہ) پیٹرا میں ہوتا تو فتح مکہ کے بعد رسول اللہ ص نے کیا ان بتوں کو نہیں توڑا تھا. ان بتوں کو چھوڑنے کا مقصد کیا تھا. اس کے علاوہ عمارتوں پر انسانوں اور جانوروں کی بے تحاشا تراشے ہوئے نقش ونگار تھے کیا رسول اللہ ص نے ان کو ایسے ہی چھوڑ دیا تھا. جب مکہ میں ظہور اسلام ہو رہا تھا اس وقت پیٹرا عیسائی راہبوں کا مرکز تھا.
مکہ!
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب فلسطین میں تھے تو کچھ وجوہات کی بنا پر انہوں نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام اور ان کی ماں حضرت ہاجرہ کو حجاز کی وادی مکہ میں زمزم کے مقام پر ایک درخت کے نیچے چھوڑ دیا. مکہ ایک بے آب و گیاہ وادی تھی.
کچھ عرصے بعد یمن سے ایک قبیلہ آیا جسے جرہم ثانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے. یہ قبیلہ حضرت ہاجرہ سے اجازت لے کر مکہ میں ٹھہر گیا. ان کی باقاعدہ آباد کاری حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کی موجودگی میں ہوئی لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ان کا گزر اس وادی سے پہلے بھی ہوا کرتا تھا. حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بارہ بیٹے عطاء کئے جن سے بارہ قبیلے وجود میں آئے. کچھ نے مکہ میں سکونت اختیار کی جبکہ کچھ عرب اور کچھ بیرون عرب بھی چلے گئے. نابت اور قیدار کی نسل مکہ میں رہی. عدنان اور ان کے بیٹے معد، قیدار بن اسمعیل کی نسل سے ہیں. عدنان، حضور اکرم صلعم کے سلسلہ نسب میں اکیسویں پشت پر ہیں.
میں تاریخ بیان کرنے میں زیادہ وقت ضائع نہیں کروں گا. کچھ چیدہ چیدہ واقعات کی مدد سے اپنا مقدمہ لڑنے کی کوشش کروں گا.
تاریخ میں چار بار ذکر ملتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام، اسمعیل سے ملنے کیلئے مکہ تشریف لائے تھے. پیٹرا اور فلسطین کا فاصلہ تقریباً تین سو کلومیٹر ہے. اگر مکہ پیٹرا ہوتا تو ابراہیم اپنے بیٹے اسمعیل سے ملنے صرف چار بار کیوں آتے؟ وہ تو اپنے عزیز فرزند سے ملنے سال میں تین یا چار بار ضرور آتے. پیٹرا فلسطین سے آخر دور ہی کتنا ہے.
جب مسلمانوں پر قریش کے مظالم حد سے بڑھنے لگے تو مسلمانوں نے دوبار حبشہ کی طرف ہجرت کی. حبشہ مکہ کے جنوب میں بحر احمر کے دوسری طرف واقع ہے. مکہ اور حبشہ میں صرف بحر احمر حائل ہے. خانہ کعبہ اور قریش اگر پیٹرا میں ہوتے تو انہیں اتنی دور آنے اور پھر سمندر پار کرنے کی کیا ضرورت تھی. پیٹرا کے نزدیک تو اور بھی بہت سے ممالک تھے جہاں پناہ لی جا سکتی تھی وہاں کیوں نہیں گئے؟
اس کے بعد جب حضور اکرم صلعم نے مدینہ ہجرت کی تو وہ براستہ قبا مدینہ میں داخل ہوئے. قبا مدینہ کے جنوب میں مکہ کی جانب ہے. اگر وہ پیٹرا سے آتے تو وہ شمال کی طرف سے مدینہ میں داخل ہوتے نہ کہ قبا کی طرف سے ۔۔۔سب کو معلوم ہے کہ بدر کی جنگ شام سے آنے والے تجارتی قافلے کے اوپر لڑی گئی. قریش کا تجارتی قافلہ شام سے مکہ آرہا تھا. بدر مدینہ کے جنوب مغرب میں ہے اگر یہ قافلہ شام سے پیٹرا آرہا تھا تو پھر تو راستے بدر آتا نہیں اور نہ ہی مدینہ آتا ہے. جس سے قریش کو خطرہ ہوتا. پیٹرا اور شام تو ایک دوسرے کے ایک دم قریب ہے. ان بیچ نہ ہی مدینہ آتا ہے اور نہ ہی بدر آتا ہے. البتہ شام اور مکہ کے وسط میں مدینہ اور بدر ضرور آتے ہیں.
مکہ کو پیٹرا ثابت کرنے والے صاحب نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر کعبہ یا قریش مکہ میں تھے تو مدینہ میں لڑی جانے والی دونوں جنگیں یعنی احد اور اور خندق دونوں مدینہ کے شمال میں پیٹرا کی طرف کیوں لڑی گئیں؟ جبکہ مکتوب مدینہ کے بالکل جنوب میں ہے
ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اگر ان صاحب نے کبھی مدینہ کے محل وقوع پر نظر دوڑائی ہوتی تو انہیں پتا ہوتا کہ مدینہ کے تینوں اطراف یعنی مشرق، مغرب اور جنوب میں پتھریلی زمین ہے مدینہ کا صرف شمالی حصہ جو بدر کی پہاڑی کی جانب ہے جنگ کے لئے موزوں تھا. اس لئے قریش دونوں بار گھوم کر شمال کی طرف سے حملہ آور ہوئے تھے. ملاحظہ کریں تصویر 5
تحریر بہت طویل ہو گئی ہے جس کے لئے معذرت خواہ ہوں. امید ہے اس تحریر سے مکہ اور پیٹرا کے بارے میں شبہات دور ہوگئے ہونگے.
اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا.
Facebook Comments
یہ تو وہی روایتی تاریخ بیان کی گئی ہے جس پہ تنقید کی جا رہی ہے.
محترم ہارون وزیر صاحب نے پترا کی جو تاریخ بیان کی ہے اس سے اتفاق ہے. البتہ انہوں نے مکہ کے بارے میں جو دلائل دئیے ہیں وہ بہت کمزور ہیں. نیز انہوں نے سائرس ادریس کے مضمون “عالم اسلام کا مقدس ترین شہر کہاں ہے؟” میں پیش کردہ تاریخی، جغرافیائی، قرآنی، حدیثی، اور آثار قدیمہ کی شہادتوں کو بالکل نظر انداز کر دیا. مکالمہ انتظامیہ کو چاہئیے کہ سائرس ادریس کا مضمون بھی تصویروں کے ساتھ شائع کر دیں. پھر دیکھتے ہیں کہ محترم ہارون وزیر کیسے نکتہ با نکتہ ان کے پیش کردہ حقائق اور شہادتوں کو رد کرتے ہیں. یہاں میں صرف چند نکات کا ذکر کروں گا.
ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ کم از کم دو ہزار سال قبل مسیح کا ہے. اس زمانے میں نہ تو فلسطین میں کوئی آبادی تھی اور نہ ہی یروشلم شہر کا وجود. نیز اس وقت اونٹ ایک جنگلی جانور تھا اور سواری کے لئے استعمال نہیں ہوتا تھا. اونٹ پالتو جانور ایک ہزار سال قبل مسیح میں بنا. تب اونٹ پر سفر کرنے کا آغاز ہوا. کیا حضرت ابراہیم براق پر سوار ہو کر مکہ آتے تھے؟
خیال رہے ایک ہزار سال قبل مسیح میں یہودی اور عرب قبیلے جنوبی عرب اور شمالی یمن سے ہجرت کرکے فلسطین کے علاقے میں آباد ہونا شروع ہوئے.
موجودہ مکہ اور اس کے گرد و نواح کا علاقہ کم از کم پانچویں صدی تک بے آباد تھا. یہاں نہ پانی تھا نہ سبزہ نہ درخت. پرانے زمانے میں لوگ ایسی جگہ قیام کرتے یا آباد ہوتے تھے جہاں نخلستان ہوں. پانی کے بغیر نخلستان وجود میں نہیں آتے. آثار قدیم کے ماہرین کو پانچویں بلکہ ساتویں صدی سے پہلے مکہ میں کسی آبادی کے کوئی آثار نہیں ملے.اگر یہ شہر حضرت ابراہیم کے زمانے یعنی دو ہزار سال قبل مسیح میں موجود تھا تو اس زمانے کے آثار وہاں موجود ہونے چاہیں. نیز رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے جو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا گزرے ہیں ان میں سے کسی ایک کے بھی حج یا عمرہ کے لئے مکہ کا سفر کرنے کی کوئی شہادت موجود نہیں.
آخری بات یہ کہ گزشتہ صدی تک مکہ کی آبادی برائے نام تھی. تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں کعبہ والے شہر سے ہزاروں کے لشکر ایرانیوں اور رومیوں سے لڑنے کے لئے نکلتے رہے. مکہ کا محل وقوع اور اس کی آبادی کو سامنے رکھیں تو وہاں سے چند سو کا لشکر بھی تیار نہیں ہو سکتا تھا.