• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اگر یہ اہم معاملہ ہے تو اسے پہلے طے کیوں نہیں ہونا چاہیے؟۔۔۔۔ سید عارف مصطفٰی

اگر یہ اہم معاملہ ہے تو اسے پہلے طے کیوں نہیں ہونا چاہیے؟۔۔۔۔ سید عارف مصطفٰی

اگر اب بھی آنکھیں نہ کھلیں تو بالکل واضح ہوچلا ہے کہ اب آئین کی اسلامی شقیں غیرمؤثر ہونے کو ہیں اور شریعت اس ملک کے کاروبار مملکت ، جمہوری تشخص اور سیاسی بیانیئے سے لاتعلق ہونے جارہی ہے اور ایسا اس لیے  محسوس ہورہا ہے کیونکہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی ذات کے حوالے سے لگے اس بہت بڑے الزام کو الیکشن کمیشن نے مطلق اہمیت نہیں دی جسکی رو سے انہیں سیتا وائٹ نے اپنی ناجائز بچی ٹیریان کا باپ قرار دیا تھا – اور اسی سہولت کاری کے بل پہ وہ صادق و امین بن کے بڑے اطمینان سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اہم ترین منصب یعنی وزیراعظم کی مسند کی جانب رواں دواں ہیں ۔۔۔ اور اگر شریعت کو ملکی نظم و نسق سے لاتعلق کردینے والا میرا اور مجھ جیسے بہت سوں کا اعتراض غلط ہے تو پھر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی عمران خان کے خلاف انکی مبینہ ناجائز بیٹی ٹیریان کے حوالے سے عدالت میں دائر ایک انتہائی اہم درخواست کا فیصلہ آنے تک حلف برداری کی یہ کارروائی بہرصورت ملتوی کی جانی چاہیے  کیونکہ یہ الزام ہرگز معمولی نہیں ہے اور لازم ہے کے پہلے اس کیس کی جلد سے جلد سماعت مکمل کرکے دودھ کا دودھ اور پانی  کا پانی کرلیا جائے کیونکہ اس کا تعلق اس نظریاتی ملک کے اہم ترین انتظامی عہدے پہ فائز ہونے والے شخص کے ذاتی کردار سے ہے۔

ویسے بھی اس حوالے سے حقائق کی کھوج کے لیے  مملکت کے اہم ترین ادارے ابتک وہ تفتیش و تحقیق کرنے سے یکسر گریزاں رہے ہیں کہ جسکی بابت انکا پیشہ وارانہ فرض بنتا تھا اور یوں لگتا ہے کہ  وہ گویا کسی شدید دباؤ میں ہیں اور اسی سبب سوچے سمجھے گریز اور اجتناب کی راہ پہ گامزن ہیں اور اب جبکہ 18 اگست کی تاریخ دور نہیں عمران خان کے بطور وزیراعظم حلف اٹھانے کا مرحلہ آن ہی پہنچا ہے- اس مرحلے پہ اہم بات یہ ہے کہ کیا اس کیس کا فیصلہ دیے  جانے سے قبل عمران خان کو حلف اٹھانے کا موقع دیا جانا کوئی مناسب بات ہوگی کیونکہ چند روز کی تاخیر ہوجانے سے کوئی قیامت نہیں آجائے گی۔۔۔ ورنہ اگر عمران خان اپنے دامن پہ اسقدر بڑا داغ لیے  ہی اس اسلامی جمہوریہ کے وزیراعظم بن گئے تو  جگ ہنسائی کا سبب بنیں گے اور پھر اگر انکے ذاتی کردار کے خلاف فیصلہ آجائے تو انہیں آناً فاناً سبکدوش بھی ہونا پڑے گا۔۔ اور یوں   نہ صرف  وطنِ عزیز کو ایک بڑی سبکی اٹھانی پڑے گی بلکہ ایک نوزائیدہ حکومتی ڈھانچے کے لیے  یہ فیصلہ ایک بڑے بھونچال کا باعث بن جائے گا ۔۔۔! تو پھر کیا سارے نظم حکومت کو تہ و بالا کرڈالنے سے بہتر یہ نہیں ہے کہ ذرا ٹھہرکر چند دن انتظار کرلیا جائے اور عدالت بھی جلد سماعتوں کو یقینی بناکے اس معاملے کو کم سے کم وقت میں منطقی انجام تک پہنچادے تاکہ نظم مملکت کی ذمہ داریاں زیادہ پرسکون اور بااعتماد انداز میں نبھائی جاسکیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے اہم  انتخابی اعتراضات و الزامات کے باوجود ملکی آئینی و سیاسی منظر نامے میں عمران خان کی پارٹی ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کے ابھری ہے او ر اسکے نتیجے میں جمہوری آداب کے مطابق وہ  وزیراعظم  کا حلف اٹھانے والے ہیں لیکن  اسکا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ  ان سب امور کے چلتے ملک کے نظریاتی امیج کی حفاظت بھی فراموش کردی جائے۔۔کیونکہ خاصی تشویشناک بات یہ ہے کہ اب انتقال اقتدار کے حوالے سے دو بڑے اہم سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جن میں سے پہلا تو یہی ہے کہ جو شروع ہی میں بیان ہوا ہے کہ آیا شریعت اس ملک کے جمہوری تشخص اور سیاسی بیانیئے سے لاتعلق ہونے جارہی ہے ۔ کیونکہ عمران خان پہ ایک ناجائز بچی کا باپ ہونے کے نہایت سنگین الزام کی چھان بین قطعی نظرانداز کردی گئی ہے اور اس حوالے سے مملکت کے اہم ترین ادارے اپنے طور پہ سوچے سمجھے گریز اور اجتناب کی راہ پہ گامزن ہیں اور کسی میں یہ ہمت نہیں کہ اسلامی جمہوریہ کہلانے والے ملک کے متوقع سربراہ سے اسکے ذاتی کردار پہ موجود ایک بدنما داغ کے بارے میں دوٹوک تحقیق کرسکے اور اس الزام کی حقیقت سامنے لےآئے کے عمران خان سیتا وائٹ کی بیٹی کے باپ ہیں یا نہیں۔۔۔۔؟؟ جبکہ اس سوال کے جواب کا تعلق 22 کروڑ نفوس پہ مشتمل اس اسلامی جمہوریہ کی حکمرانی کا معیار طے کردینے سے ہے اور سیتا وائٹ کی بچی ٹیریان کے حوالے سے لگنے والے اس الزام کو صاف کیے  بغیر عمران خان کو وزیراعظم کا حلف اٹھانے دینا اس ملک کے نظریاتی تشخص کو خود ان اہم اداروں کی طرف سے داغدار کرڈالنے کی سازش میں بھرپور شرکت کے مترادف ہوگا ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسی ضمن میں ایک تیسری تشویشناک بات یہ ہے کہ علمائے دین اور اہل فکر و نظر کے منہ پہ تالے پڑے ہوئے ہیں اور ‘جسے پیا چاہے وہی سہاگن’ کے اصول کو سامنے رکھ کے ہر طرح کی بےاصولی کو ہی اصول بنالیا جارہا ہے اور اب کرپشن کے تصور کو محض مالی بدعنوانی تک ہی محدود کردیا جارہا ہے اور اسٹیبلشنٹ کی خواہش پہ اخلاقی یا جسمانی بدمعاملگی کو بڑے مکارانہ اسلوب سے کرپشن کی تشریح کے دائرے سے باہر کردیا گیا ہے اور یوں اس نظریاتی ملک میں اس پہلو سے کی جانے والی یہ گھناؤنی برائی مالی بدعنوانی سے بھی کمتر برائی کا درجہ پانے جارہی ہے اور اس مجرمانہ گریز کے نتیجے میں آئندہ اس قسم کی برائیوں میں ملوث  افراد کو ملک کے اہم ترین معاملے میں دخیل ہونے بلکہ اہم ترین فیصلے کرنے کے مناصب پہ پہنچنے سے روکا نہیں جاسکے گا اور یہ اس نظریاتی ملک کے وجود پہ نہایت کاری ضرب ہوگی اور ستم ظریفی یہ کہ یہ کاری ضرب اسکےمبینہ اپنوں کے ہاتھوں سے اور اندر سے لگنے کی نوبت آن پہنچی ہے اور یوں ہونےدینا بجائے خود ایک بہت سنگین اورایک نہایت تشویشناک جرم ہوگا- اس الزام کی صفائی کے بغیر عمران خان سے حلف لینا صدر مملکت یا اسپیکر کے لیئے اپنے منصب کے تقاضوں سے شدید روگردانی کا ارتکاب شمار ہوگا جس سے گریز کرنے کی صریح غلطی سے انہیں بہر صورت خود کو بچانا چاہیے  کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ بھی برابر کے جرم دار باور کیئے جائیں گے- ویسے بھی جس ملک کا قیام ہی اسلامی نظریے  کی بنیاد پہ ہوا ہو وہ اپنے اہم ترین منصبداروں کے انتخاب میں انکے کردار سے یوں غافل رہنے کا مکلف کیسے ہوسکتا ہے ۔۔۔؟؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply