حالتِ زار ایسی ہی رہے گی۔۔۔۔اظہر مشتاق

پاکستان میں عام انتخابات ایک دن کی دوری پر ہیں ۔ تمام سیاسی جماعتوں او ر امیدواران نے اپنی انتخابی مہم ختم کر دی ہے ۔ ٹیلی ویژن کی سکرینوں اور دیگر ذرائع پر چلنے والی انتخابی مہم نہ صرف امیدواروں کو ووٹ دینے کیلئے تھی بلکہ اس مہم میں  مخالفین کے دعوؤں کو جھوٹ کا پلندہ بھی کہا گیا۔ہر پارٹی اور امیدوار مرکزی یا صوبائی حکومت  کے کاموں کو ہدف ِ تنقید بناتا نظر آیا اور مختلف صوبوں کی ترقی کا جو نمونہ ٹی وی اشتہارات میں دکھایا گیا اس سے یہی اندازہ ہوتا تھا کہ بلاشبہ صوبے کے عوام خوشحال زندگی گذار رہے ہیں۔ وہ شہری علاقے جہاں سے مشہور سیاسی پارٹیوں کے بڑے سیاسی رہنما انتخابات لڑ رہے ہیں یا پچھلے انتخابات جیتے ہیں کو الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کی خصوصی توجہ حاصل رہی۔ بڑے شہروں کے قریباً تمام حلقوں میں الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے لوگوں کی رائے لیتے رہے اور حل طلب مسائل کی نشاندہی کرتے رہے۔  ان بنیادی مسائل میں کہیں  سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر کا مسئلہ تھا تو کہیں تعلیم کا، کہیں صحت کے مسائل تھے تو کہیں روزگار کے، کہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا تو کہیں کچرے کو ٹھکانے لگانے کا موزوں نظام کی عدم فراہمی بڑا مسئلہ تھا، کہیں گیس اور بجلی کے بڑھتے نرخوں کی دھائی تھی تو کہیں انصاف کا رونا۔  کوئی بھی حلقہ ایسا نہیں تھا جہاں کے سارے عوام خوش اور مطمئن نظر آئے ہوں ،  مگرایسا بھی نہیں ہوا کہ صد فیصد لوگوں نے سابقہ حکومت کے خلاف رائے دی ہو، دوسری طرف ساری سیاسی پارٹیوں کے امیدوار عوام کو ایک بہتر مستقبل کے لئے ان کو انتخاب  میں کامیاب کروانے کا  راگ الاپتے رہے اور ہر امیدوار حسبِ سابق  عوام کی ساری مانگیں پوری کرنے کے وعدے کرتارہا ہے۔

موجودہ اتخابات کی خاص بات یہ رہی کہ  انتخابات سے پہلے  پاکستان کی عدلیہ اور قومی احتساب بیورو نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے سارے مقدمات کو نمٹانا مناسب سمجھا اور پاکستان مسلم لیگ کے حامی عدلیہ کی اس جلد بازی کو مسلم لیگ نواز کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا عمل اور قیادت کو نشانہ بنانے سے موسوم کرتے رہے۔  پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی مخالفین کا یہ ماننا ہیکہ پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت کو عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور اس حمایت کے پیشِ نظر  تحریک انصاف موجودہ انتخابات میں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔  اس کے علاوہ انتخابی نشان “جیپ ” کے حامل آزاد امیدواران ، بلوچستان عوامی پارٹی، گرینڈ ڈیموکریٹک الائینس سندھ اور پاک سر زمین پارٹی کو بھی مخالفین اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کی حامل سیاسی پارٹیاں خیال کرتے ہیں۔

جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کے ماننے والے ناقدین کی کڑی تنقید کے باوجود پاکستان کی عدلیہ نے ہنگامی انصاف کی فراہمی کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ ناقدین کی رائے ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی ملی بھگت سے صرف ایک سیاسی پارٹی کو دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔ اس تنقید کی جتنی بھی حقیقت ہو مگر یہ بھی ایک ننگا سچ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کے آشیر باد کے بغیر مسندِ اقتدار پر براجمان نہیں ہو سکی۔

قطع نظر اس کےکہ کون اقتدار میں آئیگا،  اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں ہونیوالے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعت کو نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی میدان میں بھی مسائل کا سامنا ہو گا۔ مثال کے طور پر دہشت گردی جیسا پیچیدہ مسئلہ جس کی وجہ سے نہ صرف عام لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ دہشت گردی کے ممکنہ خطرے کے پیشِ نظراکثرامیدوار اپنی انتخابی مہم  تک نہیں چلا سکے، انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے تین سیاستدان دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہوئے اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے  دہشت گردی کے خلاف جامع پالیسی بنانے کی بجائے، دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے مسئلے پر ایک معذرت خوانہ رویّہ اپنائے رکھا اور یہی وجہ ہے کہ کئی حلقوں میں کالعدم  تنظیموں کے قائدین انتخابی امیدوار وں کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔

انتخابی مہم اور جلسوں کے دوران کئے گئے وعدوں اور سبز خواب دکھانے پر ایک ذی شعور انسان ، سیاسی امیدواروں کی اہلیت اور ان کے ماضی کو دیکھتے ہوئے سوال اٹھانے پر مجبور ہوتا ہے کیونکہ انتخابات محض کرسیءِ اقتدار پر براجمان ہونے کا نام نہیں بلکہ  کرسی اقتدار وہ ڈرائیونگ سیٹ ہے جس پر بیٹھنے کے بعد عوام کو وہ تما م  بنیادی ضروریات دینے کی سعی کی جاتی  ہے جس کا ضامن ریاست کا آئین ہوتا ہے۔  اقتدار کا مطلب  پیش رو حکومت کی نقائص پر تنقید کرنا اور ادھورے کاموں کا رونا نہیں ہوتا بلکہ شہریوں کو ان تمام بنیادی حقوق کی فراہمی ہے جو ریاست کے فرائض میں شامل ہیں۔

اس وقت پاکستان پر مجموعی قرضے کا حجم 91 بلین  ڈالر ہے  اور پاکستان میں افراطِ زر کی شرح میں رواں سال  5 فیصد اضافہ ہوا ہے، پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت  میں گرانقدر اضافہ ، تیل کے آسمان کو چھوتے نرخ،  ایک کروڑ سے زائد سکولوں سے باہر بچے، تعمیرات، صحت، آبی وسائل  کی کمی، تنزل کی جانب مائل زراعت ، خارجہ امور، بھارت اور افغانستان سے تعلقات جیسے مسائل نئی حکومت  کے انتظار میں ہونگے۔ اسکے علاوہ پاکستان کے فوری حل طلب مسائل میں  بڑھوتری کے تناسب میں اضافہ اور بے روزگاری کی شرح میں کمی جیسے مسائل شامل ہیں۔   تعلیم ، صحت ، بے روزگاری، بگڑتی زراعت اور آبی وسائل کی کمی جیسے مسائل کو حل کرنے کیلئے مجموعی گورننس میں بہتری کی ضرورت ہے۔

انتخابات کے بعد بننے والی حکومت چاہے وہ جس کی بھی ہو کو  عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کرنے ہونگے  لیکن بدقسمتی سے پاکستانی جمہوریت   میں اختیار  و طاقت چند سماجی اور معاشی طور پر مضبوط ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے ایسا نظام فی الحال نافذالعمل نہیں ہو سکا جس میں ریاستی آئین میں عوام کو تقویض کردہ حقوق کی عدم فراہمی یا مناسب اقدامات نہ کرنے کی صورت میں ذمہ داران کو عوام کے سامنے جوابدہ ہونا  پڑے۔  پاکستان میں سیاسی قبلے ہوا کے رُخ کو دیکھتے ہوئے تبدیل کر لئے جاتے ہیں اور وہی چہرے مناسب رنگ و روغن کے بعد دوبارہ پیش کر دئیے جاتے ہیں۔  چند ایک امیدوران کو چھوڑ کر سیاسی منظر نامے اور انتخابی عمل میں شامل کسی بھی امیدوار  یا سیاسی جماعت کا منشور عوامی نہیں اور نہ ہی عوامی ضروریات کو دیکھتے ہوئے   منشور ترتیب دئیے جاتے ہیں۔ مرکزی دھارے کی تمام سیاسی جماعتوں نے بنیادی انسانی ضروریات کو اپنی ترجیحات کے دوسرے درجے پر رکھا ہے۔  یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں سیاست اور الیکشن میں مقابلہ کر کے جیت جانا  ایک مہنگی سر گرمی ہے، اسی لیے عام انسان اتخابات ، جمہوریت اور ووٹ کی افادیت کو  سمجھنے سے نہ صرف قاصر ہے بلکہ وہ کوشش کے باوجود دانستہ طور پر اس عمل کا حصہ بننے سے معذوری ظاہر کرتا ہے اور جو انتخابات میں مقابلہ کرتے ہوئے پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر آتے ہیں انہوں نے  شاید اپنی ساری زندگی میں عام انسان  جیسے مسائل کا سامنا نہ کیا ہو۔  عام انسان کو اس سے سروکار نہیں کہ ریاست کا آئین کیا کہتا ہے یا حکومت کی آئینی حدود و قیود کیا ہیں وہ اپنے روزمرہ مسائل کا  حل چاہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عام انسان موجودہ الیکشن کے بعد طبقاتی نظامِ تعلیم کے خاتمے ،  سستے انصاف، پائیدار امن، روزگار، چھت، صحت کی سہولیات، پینے کا صاف پانی اور پیشہ وارانہ استعداد کار میں اضافے کا متمنی ہے۔ لیکن پاکستان  کے موجودہ نظام  جو صرف اشرافیہ ، اسٹیبلشمنٹ اور اسکے کاسہ لیسوں کا نظام ہے  سے ایسی جادوئی تبدیلیوں کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ یہ اندازہ لگانا قطعاً  غلط نہیں ہوگا کہ اگلے پانچ سالوں میں عوام کی حالت زار اور کسمپرسی میں کوئی واضع کمی نہیں ہوگی۔ ننگ، دہشت، عدم مساوات، سہولیات کے فقدان کا یہ نظام تب تک نہیں بدلے گا جب تک عام انسان،  اشرافیہ اور سامراج کے کاسہ لیسوں کے خلاف تمام مذہبی  اور سماجی تفرقات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے محض انسانی اور طبقاتی بنیادوں پر ایک فیصلہ کن جنگ کا آغاز نہیں کرتے۔ 

Facebook Comments

اظہر مشتاق
اظہر مشتاق سماج کے رِستے زخموں کو محسوس کرنے والا عام انسان ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply