میرا، تیرا اور جذباتی عورت کا چاند۔۔۔علی اختر

پاکستان بننے سے دو سال پہلے یعنی سن 1945 کا ایک دن ہے ۔ لاہور میں اکھاڑا تیار کیا جا چکا ہے ۔ پنڈال میں دو لاکھ سے زیادہ تماشائی موجود ہیں ۔ آج کشتی کی تاریخ کا بہت بڑا مقابلہ ہے ۔ ایک طرف دیو ہیکل دو سو کلو گرام وزنی آسٹریلیا کا کنگ کانگ پہلوان ہے ۔ دوسری جانب ایک سو بتیس کلو گرام وزنی مشہور عبدالحمید عرف حمیدا پہلوان ہے ۔ حمیدا نواب جلالدین رادھنپور کی اسٹیٹ کا آفیشل پہلوان تھا ۔ بھولو پہلوان اور اسلم پہلوان کا استاد اور رستم ہند کا ٹائٹل رکھنے والا مشہور پہلوان ۔ اس کشتی کا تماشائیوں کو مہینوں سے انتظار تھا ۔ آج وہ دن آن پہنچا ۔ تماشائیوں کا جوش و خروش ، شور آسمان سے باتیں کر رہا تھا ۔ دونوں پہلوان آمنے سامنے تھے ۔

لیجیئے داوپیچ شروع ہوئے ۔ دونوں پہاڑ نما انسان گتھم گتھا ہیں کہ اچانک کشتی کے جوش سے بھری ایک تماشائی  عورت نے اپنا گود کا بچہ  اکھاڑے میں پھینک دیا ۔ کشتی روک کر بچے کو رنگ سے نکالا گیا ۔ ماں سے بچہ پھینکنے کی وجہ پوچھی گئی  تو اس نے  بتایا کہ  کشتی دیکھتے ہوئے وہ جوش میں خود پر قابو نہ پا سکی ۔ کوئی اور نہ ملا تو گود میں موجود بچے کو ہی دھوبی پچھاڑ لگا دیا ۔

مجھے نہیں پتا کہ  یہ واقعہ ریکارڈ پر موجود ہے کہ  نہیں ۔ مجھے یہ بات بتانے والے ایک مرحوم پڑوسی تھے ۔ جو خود بھی پہلوان رہے تھے اور اس مقابلہ کو دیکھنے کے لیے کئی  میل کا سفر بیل گاڑی پر طے کرکے اپنے گاؤں سے لاہور پہنچے تھے ۔ وہ اس واقعے کے چشم دید گواہ تھے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  مجھےیہ بیس بائیس سال پہلے سنا واقعہ اچانک کیوں یاد آیا تو اسکی وجہ جناب محترم وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد عزیز صاحب کے کچھ بیانات ہیں جو انہوں نے چاند کی روئیت سے متعلق دیے ہیں ۔ یکے بعد دیگرے محترم کے کچھ بیانات درج ذیل ہیں ۔

“چاند دیکھنے پر کم و بیش چالیس لاکھ کا خرچہ آتا ہے ”
“ہم عوام کو مجبور نہیں کر سکتے کہ  سب روئیت ہلال کمیٹی کے بتائے ہوئے دن کے مطابق عمل کریں ”
“چاند دیکھنے کے لیے موبائل ایپ تیار کی جائے گی ”

چاند دیکھنے کے موقع پر ہر سال وطن عزیز میں اختلاف ہوتا ہے ۔ کبھی دو تو کبھی تین عیدیں بھی ہوتی ہیں ۔ ابھی رمضان سے ایک دن پہلے ہی میری نانی کے ایک بھائی  کا یہاں کراچی میں انتقال ہو گیا ۔ نانی کا تعلق پشاور سے ہے تو دیگر دو بھائیوں کو مطلع کرنے کے لیے صبح صبح فون کیا ۔ گھر والوں نے بتایا کہ سحری کر کے سوئے ہیں ۔ ہم حیران کہ  ہمارے روزے تو کل شروع ہونے ہیں ۔ پھر پتا چلا کہ نانی کے دیگر دو بھائی  پوپلزئی صاحب کی روئیت ہلال کمیٹی کو فالو کرتے ہیں ۔ واضح رہے کہ  یہ دونوں کٹر مولوی یا گاؤں دیہات کے لوگ نہیں بلکہ ایک انکم ٹیکس انٹیلیجنس سے اور دوسرے ائیر فورس سے ریٹائرڈ ہیں اور پوری امید ہے کہ  دونوں حضرات اس مضمون کے چھپنے والے دن عید کی نماز کے بعد خوشی خوشی عیدی بھی تقسیم فرما رہے ہونگے ۔

یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ  بھائی  یہ چاند کا اختلاف پاکستان کے دو پہلوانوں کی لڑائی ہے ۔ دونوں ہزاروں لاکھوں فالورز، طالب علم ، مساجد و خانقاہوں کے مالک ہیں ۔ کوئی  کہتا ہے کہ  کل عید ہے تو کوئی  پرسوں کا فتوٰی صادر کرتا ہے ۔ لوگ مانتے بھی ہیں کوئی  کسی کو تو کوئی  کسی کو ۔۔اب بیچ میں ایک جذباتی عورت بھی موجود ہے جو دوران کشتی اپنے بچے کو قینچی داؤ لگائے بیٹھی ہے کہ  موبائل ایپ ، سائنس و ٹیکنالوجی کے استعمال سے چاند دیکھ لو ان پہلوانوں کی کشتی کو چھوڑو ۔ اماں جان چہ پدی و چہ پدی کا شوربہ ۔ آپ بات جب کریں کہ  آپکو کوئی  لفٹ کرا رہا ہو ۔ بیکار میں خود کو اور معصوم بچے کو ہلکان کیوں کرتی ہیں ۔

قارئین درج بالا سطور پڑھ کر یہ اندازہ نہ لگائیں کہ راقم سائنس و ٹیکنالوجی کے خلاف ہے ۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ آج کا انسان ٹیکنالوجی کی مدد سے ستاروں کو مسخر کر چکا تو یہ عید کا چاند کس کھیت کی مولی ہے ۔ میں تو بس کسانوں , بھٹہ مزدوروں ، لانگ روٹ کے ٹرک ڈرائیوروں وغیرہ کو آئن اسٹائن کی E=mc 2 یا نیوٹن کے قانون حرکت کی مساوات پر عمل کرانے یا سمجھانے کے خلاف ہوں ۔

معاف کیجئے لیکن عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ بات کرنے سے پہلے مخاطب کی ذہنی سطح کا تجزیہ کر لیا جائے ۔ ہماری ذہنی حالت تو یہ ہو کہ  مولوی صاحب ہزاروں کے مجمع میں آواز لگائیں “او دلیو ” اور ہم ہیلی کاپٹر کی جانب چپل اچھال دیں ۔ عامل ایک کی بیٹی سے زیادتی کرکے پریگننٹ کریں تو چار اور تیار کہ “بابا ایک نظر ادھر بھی” ۔ کچھوے کو پیر بنا کر اسکے موتر وسرجن والے پانی کو بطور تبرک پئیں ۔ پولیو ویکسین پلانے والی ٹیموں پر فائرنگ ہو کہ یہ نامردی اور ایڈز پھیلا رہے ہیں ۔ بابا جگر کے کینسر کا علاج مرچوں کی دھونی دے کر کمر پر ڈنڈے برسا کر کریں ۔ وہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کی باتیں خود کا مذاق بنانا نہیں تو اور کیا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اصل بات وہی پرانی والی کہ  اس ذہنی سطح و جہالت کو پروموٹ کرنے والی قوم کو بہت محنت سے تیار کیا گیا ہے ۔ اس سے بہت سے کام لینے ہوتے ہیں ۔ کسی بھی عقل و شعور رکھنے والی قوم کے سامنے مہاجر صوبہ  سندھ کی تقسیم کا چورن اٹھارہ بار نہیں بیچا جا سکتا اور نہ ہی اسے امریکہ سے تعلق رکھنے والی پاکستانی   ڈاکٹر کی دو روپے والی ویڈیو دکھا کر یہ یقین دلایا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی اوور سیز پاکستانی اربوں ڈالر لیئے وطن واپس آجائیں گے ۔ ایسے ہاتھ کرنے کے لیئے ایسی ہی ابن ابو جہل ٹائپ   قوم کی ضرورت ہوتی ہے ۔ باقی رہے نام اللہ کا جسے آج عید منائی ہو وہ آج اور جسے کل منانی ہو  ، کل منائے ۔ سانوں کیہہ۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply