سلیمانی چائے۔۔ثنااللہ خان احسن

ہم تو بچپن سے اپنے گھر میں سلیمانی چائے کا نام سنتے آئے ہیں۔ جب بھی گھر میں مچھلی کا سالن بنتا تھا تو اس دن شام کو سلیمانی چائے ہی بنتی تھی کہ مچھلی کے بعد چھ سے آٹھ گھنٹے تک دودھ یا دودھ کی چائے ہمارے یہاں سختی سے ممنوع تھی۔ یا پھر کبھی کبھار گھر میں دودھ نہ ہوتا اور چائے کی طلب ہوتی تو سلیمانی چائے بنتی تھی۔ سلیمانی غالباً اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں دودھ غائب ہوتا ہے۔ اسی طرح بغیر کتھے چونے کے پان کو سلیمانی کہا جاتا ہے اور پان کی دکانوں پر عام مستعمل ہے۔ آپ اس سے سلیمانی پان مانگیں گے تو وہ بغیر کتھے چونے کے پان بنا کردے گا۔
بلکہ اب آپ کسی بھی پٹھان کے ہوٹل پر جہاں چائے پراٹھا ملتا ہے وہاں سلیمانی پراٹھے کا بھی آرڈر اکثر سننے کو ملتا ہے۔ سلیمانی پراٹھے میں گھی برائے نام بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

درست ہے کہ دودھ اور شکر کے بغیر تیار ہونے والی چائے پینے سے جو سلیمانی چائے بھی کہلاتی ہے وزن کم ہوتا ہے لیکن اس میں دودھ کے شامل ہونے کے بعد چکنائی کا مقابلہ کرنے والی خاصیت ختم ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے میں میں چوہوں پر ہونے والی تحقیق سے ثابت ہو ا ہے کہ چوہوں کو روغنی غذا کھلانے کے باوجود سادہ چائے پلانے سے مٹاپا لاحق نہیں ہوتا۔

مولانا ابوالکلام آزاد چائے کی لطافت اور اس کی تازگی کے بڑے قائل تھے۔ وہ چنبیلی کی کلیوں میں بسی سبز چائے کے دلدادہ تھے اور چائے میں دودھ اور شکر کی آمیزش ان کی نظر میں اسے محلول حلوہ بنا دیتی تھی۔ چین سے چائے لا کر انگریزوں نے اس کی کاشت برصغیر میں متعارف کروائی چونکہ دودھ بھی بہت تھا اور شکر بھی ڈھیروں فراہم تھی لہٰذا انھوں نے چائے میں ان دونوں کا اضافہ کیا ۔ دودھ اور چینی کی آمیزش سے چائے مزے دار ہوئی لیکن صحت کے لئے اس کی افادیت یقیناً گھٹ گئی۔

افغانیوں کو میں نے ہمیشہ سلیمانی چائے ہی پیتے دیکھا ہے۔ بلکہ اکثر دوپہر کے وقت میں نے اپنی پڑوسی افغان فیملی کو سلیمانی چائے کے ساتھ خشک نان کا لنچ کرتے بھی دیکھا ہے۔ یہ لوگ چائے میں چینی بھی نہیں ڈالتے بلکہ پھیکی چائے کے گھونٹ کے ساتھ مصری کی ڈلی کو کترتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے اسی فیملی کو انار کے دانوں کے ساتھ خشک نان سالن کی طرح کھاتے دیکھا ہے۔ یہ لوگ ہماری طرح باقاعدہ تکلفات کے ساتھ رات دوپہر کے کھانوں کا اہتمام نہیں کرتے۔ ان کے گھر میں روٹی بنانے کا رواج بھی نہیں ہے۔ بس بازار سے تین تین فٹ لمبے والے افغانی نان آنا کافی ہیں۔ ان کے ساتھ یہ کچھ بھی کھا لیتے ہیں۔
عرب ممالک میں ملباری کی سلیمانی چائے بڑی مقبول ہے۔

مالابار سلیمانی چائے:
اجزاء:ادرک (کوٹ لیجئے) آدھا چائے کا چمچ، چھوٹی الائچی ایک عدد، لونگ ایک عدد، چائے کی پتی آدھا چمچ یا ٹی بیگ ایک عدد، پام شوگر، گڑ یا شہد ایک چائے کا چمچ، لیموں کا رس آدھا چائے کا چمچ۔

ترکیب تیاری:تازہ ادرک کو چھیل کر کوٹ لیجئے تاکہ آدھا چمچ ادرک حاصل ہوجائے، اب ایک الائچی کو کچل کر رکھ لیں۔ ثابت الائچی بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ کیتلی میں پانی گرم کیجئے، پانی ابلنے لگے تو ادرک، الائچی، لونگ آدھا چائے کا چمچ، چائے کی پتی اور پام شوگر شامل کر کے پکنے دیجئے، ایک منٹ ابال دینے کے بعد پیالی میں نکال لیجئے، اوپر سے لیموں کا رس شامل کیجئے، اگر شہد ملانے کا ارادہ ہو تو اسے بھی لیموں کے ساتھ ہی شامل کیجئے، شہد کو چائے کے ساتھ پکانا درست نہیں۔ مزیدار مالاباری سلیمانی چائے تیار ہے!

مشتاق یوسفی اپنی کتاب زرگزشت میں ملباری کی چائے کا تذکرہ بڑے پرلطف انداز میں کرتے ہیں۔
“ملباری ہوٹل سے ایک آنے کی کڑک سلیمانی چائے منگا کر دن میں تین چار دفعہ طلب مٹا لیتے تھے۔ اسے چائے کہنے کے لیے رواداری کے علاوہ ضعفٍ بصارت و شامہ بھی درکار تھا۔ اس میں پودینہ، بڑی الائچی، اجوائن، سفید زیرہ، لاہوری نمک، زعفران، تمباکو کے پتوں پر پلی ہوئی مکھیوں کا شہد، لیموں، دار چینی اور کیوڑہ تو ہم بھی پہچان لیتے تھے۔ سننے میں آیا تھا کہ عبداللہ ملباری اس میں دودھ کی بجائے “پہلن” (پنجابی میں پہلی بار بیاہی ہوئی گائے یا بھینس کو کہتے ہیں) کی کھیس ڈال کر افیم اور سلاجیت کی سلائی پھیر دیتا ہے۔ جس نے ایک دفعہ اس کے ہاتھ کی چائے پی لی ہمیشہ کے لیے اسی کا ہو رہتا۔ یعقوب صاحب تو چائے کا جوگا تک حلق میں انڈیل لیتے تھے۔ کسی حکیم کو بھنک نہیں پڑی ورنہ اس نسخے سے تو یونانی امراض کا علاج کیا جاسکتا تھا۔ بہت سی روٹھی ہوئی، اٹواٹی کھٹواٹی لیے پڑی ہوئی جوانیوں کو منایا جاسکتا تھا۔”

ایک مخفی راز
معروف حکیم جناب عبدالوحید سلیمانی لکھتے ہیں کہ۔۔
لاہور کے ایک بڑے تاجر اپنے مہمانوں کی خاطر مدارت ایک خاص قسم کی چائے سے کرتے تھے۔ جو ایک دفعہ اس چائے کو پی لیتا وہ ہمیشہ کے لیے اسی کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہو جاتا۔ ذائقہ اور خوشبو میں قیمتی سے قیمتی چائے بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ بڑے بڑے رؤسا، نواب اور سیاسی لیڈر ہی اسی چائے کے معترف تھے۔ اگر ان سے کوئی چائے کا برانڈ پوچھتا تو ٹال دیتے۔ زیادہ اصرار کرتا تو کہتے یہ ہمارا خاندانی راز ہے۔ جب کبھی اس کی یاد ستائے تو بلا تکلف آ کر اس کی فرمائش کریں چائے تیار ملے گی۔ ایک دن شہید ملت لیاقت علی خان کے برادر اکبر نوابزادہ سجاد علی خان ان کے مہمان ہوئے تو صاحب خانہ نے فوری طور پر اپنے ایک ملازم سے کہا فوری طور پر دو چھوٹی الائیچیاں اور ایک لونگ بہت باریک پیسو حتیٰ کہ وہ سفوف بن جائے۔ دوسرے ملازم سے چائے تیار کروائی چائے دانی میں ڈلوائی اور یہ پسا ہوا سفوف اس میں ڈال کر پانچ منٹ دم دیا اور پھر نواب صاحب کو پیش کر دی۔ شیخ عبدالحمید صاحب مکتبہ تعمیر انسانیت والے کہتے ہیں میں ان دنوں اس فرم میں ملازم تھا۔ چائے کا ذوق رکھنے کی وجہ سے اس نسخہ کا خواہاں تھا لیکن اپنے عزیز ترین دوستوں سے پوشیدہ رکھنے والے مجھے بھلا کیوں بتاتے۔ اتفاق سے اس دن میری معرفت یہ چیزیں منگوائی گئیں اور پینے پر وہی لذت حاصل ہوئی تو میری من کی مراد بر آ ئی۔ اس کے بعد شیخ محمد قمر الدین صاحب مرحوم ناشر تفہیم القرآن اپنے عزیز دوستوں کے لیے بڑے اہتمام سے یہ چائے تیار کرواتے تھے۔ اس کے مداحوں میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، نواب فتح الدین خاں ممدوٹ اور ملک نصراللہ خاں عزیز جیسے نابغائے روزگارلوگ شامل ہیں۔

چائے تیار کرنے کا طریقہ

چائے کے شائقین نے بڑے بڑے مشکل طریقے لکھے ہیں۔ چین کے مشہور ادیب لن یوتانگ نے اپنی تالیف ’’جینے کی اہمیت‘‘ میں یہاں تک لکھا ہے کہ پینے والا خود ہی اپنے لیے چائے بنائے اور ایک وقت میں ایک برتن میں دو سے زائد کپ نہ بنائے جائیں، لیکن اس مصروف دور میں ہر شخص تو اس شغل چائے نوشی کے لیے وقت نہیں نکال سکتا۔ اس لیے ایک ایسی ترکیب درج کی جا رہی ہے جس پر ہر شخص عمل کر سکتا ہے۔

چائے کی پتی کا ایک چمچ چائے دانی میں ڈالیں اور ایک دفعہ جوش دیا ہوا، کھولتا ہوا پانی جو چار پیالی کے لگ بھگ ہوا اس میں ڈال کر چائے دانی کو سرپوش سے بند کر کے ٹی کوزی سے ڈھانپ دیں یا کوئی موٹا کپڑا لپیٹ دیں۔ پانچ منٹ بعد مناسب مقدار میں دودھ اور چینی شامل کر کے نوش فرمائیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ پتی کو جوش نہ دیا جائے، یہ نقصان دہ ہے۔ دودھ اور بالائی کا زیادہ استعمال کیا جائے، یہ مضر اثرات کی اصلاح کرتی ہے۔

بہترین سلیمانی چائے کی ترکیب:
چار سے چھہ پیالی پانی کیتلی میں ڈال کر ہلکی آنچ پر رکھ دیں۔ اس میں دو الائچی، دو لونگ ڈال دیں۔ جتنے کپ پانی ہے اتنے چمچ شکر ڈال دیں۔ ابال آنے پر چند چٹکی عام چائے کی پتی ڈال دیں۔ ابال آجائے تو لیموں کے پودے سے تین چار تازہ پتے ڈال دیں۔ پھر چوتھائی چائے کا چمچ نمک شامل کردیں۔ دو منٹ کے بعد دو لیموں کا رس شامل کریں اور چار سے چھہ کپ قہوہ تیار ہے۔
یہ قہوہ معدے کے لیے اکسیر ہے۔ مطالعے کی کثرت میں فائدہ مند ہے۔ قبض نہیں ہونے دیتا اور جسم کو چست کرتا ہے۔ ہر وقت استعمال ہوسکتا ہے۔ گارنٹی ہے مزا نہ آئے تو پیسے فورا ًواپس۔ یہ میں نے ایک بنگالی کک سے سیکھا تھا اب خاندان کی فرمائشیں ہوتی ہیں۔

چائے سے مراد اب روایتی چائے نہیں رہ گئی
اب تو تقریباً ہر چیز ہر مصالحے کی چائے کسی نہ کسی طبی فوائد کے بطور پیش کی جاتی ہے
چنبیلی یا جیسمین چائے کی بھی کئی  قسمیں ہیں
سب سے مہنگی قسم وہ ہے جس میں چنبیلی چائے کی گولیوں میں لپٹی ہوئی  ہوتی ہے
گرم پانی ڈالنے پر یہ لمبی لمبی چائے پیالی کی تہہ میں چپک جاتی ہے اسکی قیمت ڈیڑھ سو ڈالر فی آؤنس ہوتی ہے مگر خوب بکتی ہے
اسکے علاوہ ادرک کی چائے سے لے کر تلسی کی چائے اب امریکن مارکیٹ میں دستیاب ہے
انڈیا کی آیوویدک کمپنیاں بڑھ چڑھ کر اس مارکیٹ سے منافع حاصل کر رہی ہیں

پاکستان سے فقط دو یا تین قسم کی چائے آتی ہیں جس میں ٹپال کی دانہ دار چائے جس میں غالبا ًچائے کی ٹہنیاں کاٹ کر ملائی  جاتی ہیں اور ایک آدھ سبز چائے   کی اقسام دستیاب ہیں۔

چائے کے فوائد

طبیعت میں فرحت و انبساط پیدا کرتی ہے۔ مقوی اعصاب ہے۔ پیاس کو بجھاتی ہے۔ درد سر کو دور کرتی ہے۔ پسینہ آور ہے، اس لیے بخار کو بھی اتارتی ہے۔ مصفی خون ہے۔ جسم اور رخساروں کی رنگت نکھارتی ہے۔ ریاح اور ورموں کو تحلیل کرتی ہے۔ چائے کی پتی کو گرم کر کے سخت پھوڑوں پر باندھیں تو انہیں نرم کرتی اور پھوڑتی ہے۔ بواسیر کا درد رفع کرتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد استعمال کرنا اکثر حالتوں میں ہاضم اثر رکھتی ہے۔ ایسی خواتین جنہیں ایام کی بندش ہو مفید ہے۔ اعصاب رحم کو تحریک دے کر اس شکایت کا ازالہ کرتی ہے۔ زکام کے مریض کے لیے نافع ہے۔ ضعفِ قلب کی وجہ سے ہونے والی حالت نزع میں اگر چائے کی ایک پیالی میں لونگ اور تھوڑی سی دار چینی ڈال کر دیں تو آب حیات کا کام کرتی ہے۔ دم کشی کی ایسی صورت میں جب بلغم پتلی ہو گئی ہو چائے کا قہوہ پینے سے خارج ہو جاتی ہے۔ آنکھیں دکھتی ہوں تو چائے کی پتی گرم کر کے پوٹلی بنا کر آنکھوں پر باندھنے سے درد دور ہو جاتا ہے اور تڑپتا ہوا مریض سکون سے سو جاتا ہے۔ سرد بلغمی مزاج والے افراد کے لیے ہر موسم میں اور گرم مزاج والوں کے لیے کسی حد تک موسم سرما میں مفید ہے۔

نقصانات

Advertisements
julia rana solicitors

چائے کا بکثرت استعمال جدید طبی تحقیقات کی رُو سے بے شمار نقصانات کا باعث بھی بنتا ہے۔ یہ طبیعت میں گرمی پیدا کر کے گرم امراض پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ بہت گرم چائے پینا یا چائے نوشوں کی لغت میں لب سوز چائے، پینا یا نہار منہ (Bed Tea) استعمال کرنا مضر صحت ہے۔ اس کی زیادتی سے بعض افراد کو رعشہ کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ بلڈ پریشر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ نیند اُڑ جاتی ہے۔ پیشاب زیادہ لاتی ہے۔ دانت کمزور ہو جاتے ہیں۔ معدہ میں خراش پیدا کرتی اور بعض حالتوں میں ہاضمہ کو خراب کر دیتی ہے۔ قبض کی شکایت کا سبب بھی بنتی ہے۔ جگر خراب ہونے سے خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ یہ خون کو فاسد کرتی ہے۔ بعض مردانہ امراض بھی اس کے کثرت استعمال سے لاحق ہو جاتے ہیں۔ خونی بواسیر کے مریضوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ دیر تک استعمال کرنے سے نظر کو کمزور دیتی ہے۔ اس لیے چائے کو صرف ضرورت کے وقت استعمال کیا جائے، کیونکہ اس میں غذائیت بالکل نہیں ہوتی۔ صرف تازیانے کا کام کر کے وقتی طور پر چاق و چوبند کرتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply