“اس نے کہا تھا”: ثقافتی مطالعہ کے تناظر میں/جاوید رسول

“ان عناصر کی بازیافت میں جنہیں قدامت پسند کلچر نے حاشیے پر دھکیل دیا ہے، ثقافتی مطالعات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔”
(ٹیری اگلٹن، تھیوری کے بعد)
یہ کوئی  مذاق نہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں سے اُردو ادب میں مابعد جدیدیت پر مباحثے ہورہے ہیں، درجنوں کتابیں لکھی گئیں، مضامین لکھے گئے سیمینار اور سیمپوزیم تو ہر سال ہوتے رہتے ہیں۔لیکن اردو کا قاری ہے کہ ابھی تک بےچارہ مابعد جدید ادب کی شناخت میں ہچکولے کھا رہا ہے ۔میرے خیال میں ٹیری اگلٹن بڑے آسان لفظوں میں اس قضیہ کا حل بتا چکے ہیں۔غور کیجیے تو ثقافتی مطالعہ کے ذریعہ کسی بھی بیانیے میں حاشیے پر پڑے کرداروں کی کھوج مابعد جدید ادب کی شناخت کا ایک اہم پہلو ہے،لیکن ظاہر ہے مابعد جدید ناول کی شناخت اگر ثقافتی مطالعہ کے ذریعے ہونی ہے تو بہرصورت قاری کو دو اہم اور بنیادی زاویوں سے معاصر ناول کا مطالعہ کرنا ہوگا ؛ اوّل یہ کہ معاصر ناول میں ایسے کون سے کردار ہیں جنہیں ہمارے قدامت پسند کلچر یعنی روایت نے حاشیے پر دھکیل دیا ہے؟اور دوم یہ کہ کہیں ان کرداروں کی بازیافت میں معاصر اردو ناول کا رویہ متعصبانہ اور غیر معروضی تو نہیں؟”

اب جب میں خود ان زاویوں سے اپنے عہد کے ناول کو دیکھتا ہوں تو کم از کم اتنا تو کہہ سکتا ہوں کہ اُردو ناولوں میں حاشیے پر پڑے کرداروں کی بازیافت کا عمل شروع ہوچکا ہے یا یہ کہ اُردو ادب نے اس نئی  صورتِ معنی کی گنجائش اپنے لیے نکال لی ہے۔دِلت سماج کے مسائل ہوں، یا دوسری اقلیتوں کے مسائل، چونکہ ان میں ریاست کی مداخلت کا شروع سے خدشہ لاحق رہا ہے لہذا روایتی ناولوں میں ان مسائل کو یا تو حاشیے پر رکھا گیا یا زیادہ مبہم انداز میں یوں پیش کیا گیا کہ ان کی اصل مسخ (Distort)ہوگئی،لیکن معاصر اُردو ناولوں میں پہلی مرتبہ ان مسائل پر کُھل کے لکھا جارہا ہے۔یہاں تک کہ تیسری جنس کے مسائل پر بھی بغیر کسی روایتی تعصب کے لکھا جارہا ہے۔محمد حسن عسکری نے افسانہ “پھسلن” میں اگرچہ ہم جنسیت کی فطری صورت حال کو Fictionalize کرنے کی کوشش کی تھی تاہم یہ افسانہ تیسری جنس کے شناختی مسائل کو لے کر کوئی  ڈسکورس پیدا نہیں کرتا۔لیکن اشعر نجمی کا ناول “اس نے کہا تھا” پہلا اردو ناول ہے جس میں تیسری جنس(LGBTQ) کے شناختی اور تحفظاتی مسائل کو کھل کر پیش کیا گیا ہے۔اسے بالخصوص اردو ادب میں ایک نئے ڈسکورس کا آغاز کہا جاسکتا ہے۔

دوسری اہم بات، یہ ناول اپنی ردِتشکیلی قرات میں ایک استفہامیہ بھی ہے، وہ یہ کہ کیا ہم بحیثیت قوم شعور کے اس درجے کو پہنچ چکے ہیں کہ انسان کو رنگ، نسل، ذات اور جنس جیسی تخصیص کے بغیر قبول کر سکیں؟ ظاہر ہے نہیں۔ اس لیے کہ ہم ابھی تک مذہبی عقائد اور رسومات کے اسی خول میں پھنسے ہوئے ہیں جو ہمیں عقلی بنیادوں پر انسان کے حیاتیاتی وجود کو سمجھنے سے روکتا ہے۔ناول “اس نے کہاتھا” کا مرکزی کر دار ایک “گے” ہوتا ہے جس کا صرف اس لیے جنسی اور جذباتی استحصال کیاجاتا ہے کیوں کہ  ہمارے سماج میں ایسے لوگوں کی شناخت مشتبہ ہوتی ہے بلکہ ہمارے یہاں ان سے متعلق ایک تصور (Notion) ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ یہ لوگ لذتیت کے پروردہ ہوتے ہیں اور سماج میں ایسوں کی موجودگی باعث خطرہ ہوتی ہے۔اس لیے یہ بہ آسانی بغیر کسی سنسرشپ کے ہمارا نشانہ بنتے ہیں۔لیکن اب جب تھیوری نے حاشیے پر پڑے ایسے کرداروں کی بازیافت کا عمل شروع کر دیا ہے تو ان کی شناخت کو مزید مشتبہ بنانے کے لیے ان کی نتھی بائیں بازو کی سیاست سے کی جانے لگی ہے۔پھر ہندستان میں تو بائیں بازو کی سیاست کو عموماً ہر مذہبی شدت پسند اپنی سالمیت کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، جیسے مذکورہ ناول کے ہیرو کو ایک پنڈت “ہندو سبھیتا” کے لیے خطرہ سمجھ کر مار دیتا ہے۔گوکہ ناول میں مذہبی شدت پسندی کی  کوئی  خاص تُک نہیں بنتی  تھی، لیکن کہیں نہ کہیں یہ رویہ اس شدت پسندی کے امکانی نتائج کو منکشف کرنے میں معاون رہا ہے جو آج بھی آزاد خیالی کو “سبھیتا” کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔یہاں ہوسکتا ہے آپ کو لفظ “ہیرو” کا استعمال متضاد لگے اور ممکن ہے کہ آپ اسے جنسی تخصیص پر قیاس بھی کریں؟ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔اس لیے کہ ناول کے “ہیرو” کو لڑکا کہلانے سے کبھی اتنی کدورت نہیں رہی ،جتنا اسے اپنی مرضی کے خلاف زبردستی کوئی  جنس اختیار کرنے سے رہی ہے۔جیسے لڑکپن میں ہی اس کا باپ اس کی زنانہ حرکتوں کی وجہ سے اسے گھر سے نکال دیتا ہے، یا جس طرح ناول میں “ستیش” نامی کردار پر زبردستی مرد بننے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے اور نتیجے کے طور پر وہ خودکشی کرلیتا ہے۔غرض جنسی تخصیص ضروری نہیں کہ سبھی کے لیے موزوں ہو اور پھر سوال یہ بھی ہے کہ اگر جنسی تخصیص کی بنا پر مرد اور عورت کے وجود کو ہمارا سماج تسلیم کرچکا ہے تو تیسری جنس کو تسلیم کرنے میں اسے کراہت کیوں محسوس ہوتی ہے؟ کیا تشکیل نوء  صرف ریاستی قوانین سے متعلق ہے؟کیا مذہبی رسومات اور سماجی سطح کے ان تصورات( Notions) کی تشکیل نوء  نہیں ہوسکتی جو ایسے بہت سے انسانوں کو حاشیے پر دھکیلتے ہیں؟

مذکورہ ناول پر کئی  لوگوں نے سوچا ہوگا کہ اس ناول میں کہیں کہیں پر ناول نگار نے عالمانہ رُخ اپنا کر معروضی دلائل دینے کی خوامخواہ کوشش کی ہے۔لیکن مجھے Thematically یہ طریقہ بہت مناسب معلوم ہوا۔اس لیے کہ یہ ناول موضوع کے اعتبار سے ایک تو روایت سے بالکل مختلف اور متضاد ہے ،دوم چونکہ ناول پڑھنے والے ہمارے قارئین کی اکثر تعداد ادب میں آج بھی مذہبی اخلاقیات کی قائل ہے لہذا ناول نگار نے شعوری طور پر چند معروضات کے ذریعے موضوع کو استدلال بخشنے کی کوشش کی ہے۔پھر یہ استدلالی رویہ تخلیقی امتزاج کا حامل ہے اس لیے کسی بھی لحاظ سے ناول کے فن کو مجروح نہیں کرتا بلکہ روایتی سوچ کے بالکل برعکس ایک نئی اور منطقی سوچ کے ذریعے ناول کی قرات میں قاری کی راہنمائی  کرتا ہے۔

ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ روایتی بیانیے ہمارے عہد کی حسیت کو پوری طرح سے نمایاں نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے عہد کے تقاضے اور بالخصوص مسائل الگ ہیں، اگر الگ نہیں تو کم سے کم نوعیت کے لحاظ سے مختلف ضرور ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے عہد کی ناول نگاری تخلیقی صلاحیتوں کے علاوہ نئی  ذہنی افتاد چاہتی ہے تاکہ قاری حقیقت کا بھرپور ادراک کرسکے۔یہ پورا بیانیہ خود کلامیہ ہے اور کسی حد تک شعور کی رو تکنیک کا استعمال بھی ہوا ہے لیکن اسے محض فلیش بیک نہیں کہا جاسکتا،کیونکہ ناول کا ہیرو “کوما” میں ہونے کے باوجود اپنے آس پاس کھڑے لوگوں کے مکالمے نہ صرف سن رہا ہے بلکہ اس کا ذہن ایک طرح سے ان پر سوچتا بھی ہے۔دراصل واقعہ یہ ہے کہ اشعر کو اپنے ہیرو کی بےبسی اور لاچارگی پر بین کرنا ہرگز مقصود نہ تھا بلکہ اس کا مقصد بڑی مستعدی کے ساتھ اپنے ہیرو کے ذریعے ہندستانی سماج کی Irony سے پردہ اٹھانا تھا اور وہ ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔مثلاً ناول کے مرکزی کردار کی یہ خودکلامی دیکھیے؛
“ساٹھ یا ستر کی دہائی  تھی۔اب یوں تو کہنے کو آزادی مل گئی تھی مگر “کسے” اور کن پہلووں سے، یہ طے ہے نے کی کاروائی جاری تھی اور شاید اب بھی ہے،ذات پات،مذہبی روایتوں وغیرہ کا وہی حال تھا جو آج ہومو سیکچیولٹی کا ہے، یعنی دستور میں موجود تو ہے مگر سماجی طور پر عمل سے برسوں دور” ص 204

ظاہر ہے یہ مضحکہ خیز حقیقت ہمارا اپنا سچ ہے اور کوئی  ضروری نہیں کہ جو سچ پہلے سے سب کو معلوم ہو اس کا اعتراف کیا جائے۔ہمیں لگتا تھا کہ پریم چند کے ہوری کی طرح حاشیے پر پڑا ہر کردار اپنی موت آپ مرے گا لیکن ہم بھول رہے تھے کہ زمانہ جس تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے یہی تغیر ایک دن ان کرداروں کو جنبش دے گا اور یہ ہماری اجارہ داری کو چیلنج کریں گے۔جیسے ناول کا ہیرو کہتا ہے؛
“یہ ضرور تھا کہ اب میری سوچ کا استحصال کرنا پہلے جیسا آسان نہ تھا اور نہ اب پدری سماج کی حاکمیت کا خوف رہا اور نہ ہی سماجی روایتوں کا” ص 203
یہ قدامت پسند کلچر کی لامرکزیت کا اعلان ہے جو دراصل مابعد جدید یت کا مابہ الامتیاز ہے۔جن پرانے تصورات نے مختلف خرابیوں اور المناکیوں کو بعض انسانوں کا مقدر بنا دیا تھا،یہ ان کے خلاف ردعمل کی صورت حال کا بیانیہ ہے۔

اچھا دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا بیانیہ مذہب اور سماجی اخلاقیات کی اس زبان (لانگ) پر بھی طنز ہے جو بعض لوگوں کو حاشیے پر دھکیل کر پدری بلکہ پورژوا سماج تشکیل دیتی ہے۔چونکہ مابعد جدید اردو ناول میں تشخص کے مسائل پر لکھنا اس عہد کی مرکزی حسیت کا بنیادی تقاضا سمجھا جاتا ہے، لہذا ایسے میں ناول نگار کے لیے کرداروں کی پیش کش اس کا تخلیقی مسئلہ بن جاتا ہے۔اب جو ناول نگار کرداروں کو سماجی اخلاقیات یا اس کی زبان کے تابع کرتا ہے وہ نہ صرف ان کی نفسیات پر جبر کرتا ہے بلکہ ان کے تشخص کو ہی مشتبہ بنادیتا ہے۔اشعر البتہ اس معاملے میں بیباک نکلے کہ انہوں نے سماجی اخلاقیات کی مروجہ زبان کا لحاظ کرنا “جبر” کے مترادف سمجھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا یہ ناول متنازعہ ٹھہرا۔مثلاً یہی دیکھیے کہ ناول کے ہر باب میں کوئی  نیا چہرہ اسی نفسیات کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے جس سے ناول کے ہیرو کو مناسبت ہوتی ہے۔یعنی ہر دوسرا کردار عملی طور پر وہی مسرت بہم پہنچاتا ہے جس کی توقع پہلے کردار سے ہوتی ہے۔اگرچہ ان کا جذباتی ردعمل تھوڑا سا مختلف ہوتا ہے تاہم مقصد ایک ہوتا ہے۔کچھ قارئین نے تو اسے ناول کے ہیرو کی جنسی بھوک سے بھی تعبیر کیا ہے۔ لیکن غور سے دیکھیے تو ناول کا ہیرو احتجاج درج کرنے کے لیے اپنی شناخت کو اخلاقی ضوابط یا کسی یوٹوپیا کے تابع نہیں کرتا بلکہ اسے ہر لحاظ سے برہنہ کرتا ہے تاکہ اس کی شخصیت میں کوئی  دوئی نہ رہے۔وہ خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ

“یہی آدھے ادھورے چہرے میری زندگی کا اثاثہ ہیں۔۔۔میرے وجود کا اثبات ہیں۔” (ص 16)۔

ظاہر ہے یہ ناول اگر ترقی پسند دور میں بھی لکھا گیا ہوتا تو عبد العلیم جیسے نیم مارکسی نقاد بھی اسے فحش نگاری ہی قرار دیتے۔ کون نہیں جانتا کہ ان کے لیے ادب جس اخلاقی دائرے کا پابند تھا وہ قدامت پسند کلچر ہی کا زائیدہ تھا لیکن ان کی جنگ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام سے تھی اس لیے وہ کردار جو اس نظام کے بجائے کسی دوسرے نظام یا کلچر کے دھکیلے ہوئے تھے ان پر ان کی نگاہ نہیں گئی۔لیکن ہمارے عہد کے ناول کی شعریات مختلف ہے۔اب ناول میں بیانیہ اہم ہوگیا ہے اور کتھارسس کے بجائے ڈسکورس پیدا کرنا ناول نگاری کا مقصد بن چکا ہے۔”اس نے کہا تھا” پڑھ کر آپ ہیرو کی موت پر بین نہیں کریں گے، بلکہ معروضی بنیادوں پر تخلیق کیا گیا یہ بیانیہ آپ کو اپنے قدامت پسند کلچر پر سوچنے اور اس کی ردتشکیلی ضرورت کو محسوس کرنے پر آمادہ کرے گا۔
پھر صرف یہ نہیں کہ تیسری جنس کا ہی مسئلہ ہمارے عہد کے فکری اور معاشرتی نظام کو چیلنج کر رہا ہے بلکہ بقول ٹیری اگلٹن ” تانیثیت نے نہ صرف کلچر کے پورے لینڈ سکیپ کو بدل کر رکھ دیا ہے بلکہ یہ ہمارے عہد کے لیے اخلاقیات کا نمونہ بن گیا ہے” (23)۔یہاں یہ جاننا اہم نہیں کہ جنوبی ایشیاء میں تانیثیت نے کلچرل لینڈ سکیپ بدلا ہے کہ نہیں، بلکہ یہ جاننا زیادہ اہم ہے کہ کیا یہ اسے چیلنج کرپارہی ہے؟ مجھے نہیں لگتا کہ اس سوال کے جواب میں ہمارے لیے اثبات میں سر ہلانا مشکل ہوگا۔بلکہ ہم اگر اپنے مقامی بیانیوں/کلچر کی ہی بات کریں تو اس حقیقت کو جھٹلانا بھی ہمارے لیے مشکل ہوگا کہ ہندستان میں دلت مسائل کو لے کر جیسے آج مزاحمت ہوتی ہے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔لیکن پھر بھی ہمیں اس بات کا اندازہ تو ہے کہ ہم ابھی تک شعور کے اس درجے کو نہیں پہنچ پائے ہیں جہاں یورپ اس وقت کھڑا ہے۔ظاہر ہے اس میں سب سے بڑا دخل مذہب کو ہے جبکہ یورپ مذہب کے اس خول سے بہت پہلے نکل چکا ہے جس میں تنگ نظری کے سوا کچھ بھی نہیں۔واضح رہے یہ مذہب کو چھوڑنے کی نہیں بلکہ اسے نئے عہد کے تقاضوں کے مطابق Re Construct کرنے کی بات ہورہی ہے جس کا تذکرہ اوپر ہو بھی چکا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب چند باتیں مذکورہ ناول کے اسلوب کے تعلق سے بھی ہوں تاکہ بات کی ایک اور گرہ کھل جائے۔میرے نزدیک اس ناول کا اسلوب بیانیہ کی دیگر ضرورتوں مثلاً ترسیل معنی کو پورا کرنے کے لیے بالکل موافق ہے۔چونکہ میں اوپر عرض کرچکا ہوں کہ اس ناول میں معروضی استدلال کی تخلیقی آمیزش ناول نگار کی شعوری کوشش کا نتیجہ ہے اس لیے پہلی بلکہ عمومی اور اکہری قرات میں ذرا سے کھردرے پن یا فلسفیانہ انداز بیان کا احساس ہر قاری کو ہوسکتا ہے۔لیکن اپنی درست تفہیم کے لیے یہ ناول رد تشکیلی قرات کا مطالبہ کرتا ہے۔اس پر متعجب ہونے کی چنداں ضرورت نہیں، بلکہ جس طرح ٹیری اگلٹن کہتا ہے کہ “ضروری نہیں،سب کی دلچسپی کے حامل سوالات سادہ ہی ہوں” (ص 79) اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر بیانیہ کا اسلوب سادہ ہو۔ ظاہر ہے ہر بیانیہ موضوع کے موافق اسلوب پیدا کرتا ہے، جیسے “اس نے کہا تھا” عنوان کے لحاظ سے ہی ایک پیچیدہ موضوع معلوم ہوتا ہے جس میں “اس” حاشیے پر پڑا وہ کردار ہے جس کی ہمارے کلچر میں کوئی  شناخت نہیں۔یہ پورا بیانیہ اسی عدم شناخت کے سبب پیدا ہونے والی عدم تحفظ کی صورت حال پر مبنی ہے، لہذا ایسے موضوع پر لکھتے وقت پیچدگی کا درآنا فطری ہے۔پھر بھی اشعر نے اپنی سطح پر اسلوب سادہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔اس میں کوئی  شک نہیں کہ اس ناول سے اردو ادب بالخصوص فکشن میں حاشیائ Marginalized کرداروں کی بازیافت کے عمل میں توسیع ہوئی ہے۔اس طرح کے ناولوں کی خاص بات یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے ہمارے قاری کو مابعد جدید ناول کی مبادیات سمجھنے میں مدد ملتی ہے ورنہ وہ بےچارہ تو ابھی تک صرف تھیوری ہی پڑھ رہا تھا جبکہ ادب میں اس کے اطلاقی نمونے ناپید تھے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply