قابل رحم لوگ/راحت اقبال

جبلت، ایک پیدائشی تحریک یا عمل کی ترغیب ہے جو عام طور پر مخصوص بیرونی محرکات کے جواب میں انجام دی جاتی ہے۔ آج جبلت کو عام طور پر ایک دقیانوسی، بظاہر غیر سیکھا ہوا، جینیاتی طور پر طے شدہ طرزِ عمل کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔

جان پینسکیپ، نیورو سائنسدان کے مطابق انسان سات قدیم جبلتوں سے عبارت ہیں۔ یہ طلب، غصہ، خوف، گھبراہٹ، غم، دیکھ بھال اور لذت/ہوس ہیں۔ ہر جبلت کا عمل جسم کی کسی نہ کسی حاجت کو پورا کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ آج میں جنسی جبلت پہ کچھ لکھنا چاہتی ہوں کیونکہ اس پر کھل کے بولنے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی مسئلہ کا اقرار اس کے حل کی جانب پہلا قدم ہے۔ اگر آپ کہیں کہ ایسا مسئلہ کم از کم یہاں تو نہیں ہے تو آپ غلط ہیں۔آۓ روز ایسی خبریں یوں تواتر کے ساتھ سننے کو ملتی ہیں کہ اب عام سی لگتی ہیں۔ کبھی کوئی بوڑھا پروفیسر داڑھ کے نیچے آئی شامت کی ماری کو مفت میں پاس کرنے سے انکاری ہوتا ہے۔ آپ بازار میں نکل کر دیکھ لیں کسی بھی عورت کا نظروں سے طواف جتنی عقیدت سے عمر رسیدہ شخص کرتا ہے جوان تو ان کے سامنے بالکے ہیں۔ کبھی سوچا کیوں ہے ایسا ۔؟

اس میں کوئی دو راۓ نہیں کہ روحانی عنصر کسی بھی شخص میں   نظم و ضبط  قائم رکھنے والی طاقت ہے۔ اسی لیے لوگ مذہب میں پناہ لیتے ہیں لیکن کبھی سوچا کہ کونسی ایسی طاقت ہے جو انسان کو عمر کے لحاظ سے بھی باہر نکال کر ایسے کام کروا دیتی ہے۔ ؟

اوپر بیان کی گئی جبلتوں میں ایک جبلت “لذت/ ہوس” بھی ہے۔ جنسی تحریک بھی بھوک اور پیاس کی طرح ایک جبلت ہے۔ جس کو ہم ماننے سے بھی ہچکچاتے ہیں۔ انسان واحد جاندار ہے جو اپنی جبلتوں کو پامال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ اوشو کہتا ہے کہ “اگر لوگوں کو ان کی جنسی زندگی خوشی خوشی گزارنے کا موقع دے دیا جائے تو 42 سال کی عمر میں ، میں 82 نہیں کہہ رہا، جنس ان پر سے غلبہ ختم کر دے گی۔”

جس طرح 14 سال کی عمر میں جنس اُبھرتی ہے اور اسی طرح 42 سال کی عمر میں وہ غائب ہو جاتی ہے۔ یہ فطری عمل ہے۔ جب جنس غائب ہو جاتی ہے تو بوڑھا آدمی ایک بالکل مختلف قسم کی محبت کا، ہمدردی کا حامل ہوتا ہے۔اس کی محبت میں ہوس نہیں ہوتی، خواہش نہیں ہوتی۔ وہ کچھ نہیں چاہتا اس کی محبت خالص پن کی، معصومیت کی حامل ہوتی ہے۔ اس کی محبت ایک خوشی ہوتی ہے۔
اگر جنس کو دبایا نہیں جائے اور اس سے آگاہی حاصل کی جائے تو جنسی توانائی محبت میں ڈھل جائے گی۔ ہمدردی میں ڈھل جائے گی تب بوڑھا آدمی دنیا کا سب سے خوبصورت آدمی ہو گا۔ دنیا کا سب سے صاف ستھرا انسان۔

لیکن اگر جنس کو دبا دیا جائے، تب حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ جسم بوڑھا ہو جاتا ہے، جسم تھک جاتا ہے جسم تمام جنسیت سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے لیکن ذہن دبائی ہوئی خواہشات کی وجہ سے طلبگار رہتا ہے۔ جسم جس کام کا اہل نہ ہو ذہن اس کا طلب گار ہو تو بوڑھا عذاب میں ہوتا ہے۔ اس کی نظریں جنسی شہوت بھری ہوتی ہیں جبکہ جسم بے جان ہوتا ہے۔اس کا ذہن اسے اکساتا رہتا ہے، مہمیز لگاتا رہتا ہے۔ اس کی نظریں گندی ہونے لگتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جسم جلد یا بدیر بوڑھا ہو جاتا ہے اسے بوڑھا ہونا ہی ہے لیکن اگرخواہشات کو پورا نہیں کیا ہوگا تو وہ تمہارے اردگرد منڈلاتی رہیں گی۔ وہ تم میں ضرور کچھ برا پیدا کر دیں گی، بصورت دیگر بوڑھا آدمی دنیا کا سب سے خوبصورت آدمی بن جائے گا کیونکہ وہ ویسی معصومیت کا حامل ہوگا جیسی معصومیت کے بچے حامل ہیں۔ لیکن اگر خواہشیں موجود ہوں تو وہ عذاب میں پھنس جائے گا۔ جب آپ انسان کو نفسیات کے اعتبار سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو کوئی بھی انسان برا نہیں رہتا۔ اس لیے اب مجھے ایسے لوگوں کے لئے دکھ محسوس ہوتا ہے۔ لیکن کوشش کریں کہ ہماری اگلی نسل جنسی ہوس ذدہ بوڑھوں پر مشتمل نہ ہو ۔۔آسان کر دیجیے شادیوں کو، اگر آپ کا بچہ کسی طرف مائل ہے تو سکون سے اس کی بات ایک دفعہ سن لیں۔ فطرت میں بہت آسانیاں ہیں اور جتنے بھی سچے مذاہب ہیں وہ تمام کے تمام فطرت کے بہت قریب ہے۔اس لئے خود کو سمجھنے کی کوشش کریں کسی بھی فعل سے نفرت کرنے کی بجائے اس کے محرک کو دیکھیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply