تحقیق پر تحقیق

تحقیق کا مطلب ہے بال کی کھال اتارنا ۔آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیجیے کہ اگر کوئی شخص یہ جاننے کی جستجو کرے کہ پیاز کے عین وسط میں کیا ہے تو یہ تحقیق ہو گی۔ اورمحقق ہر اس شخص کو کہتے ہیں جو تحقیق کرے گویا بال کی کھال اتارے۔البتہ کھال سے بال اتارنے والے کو نائی کہتے ہیں ۔انسانوں میں تحقیق کی روایت قریب اتنی ہی پرانی ہے کہ جتنا خود انسان ۔دیکھیے نا جب دو انسان بنا دیے گئے تھے تو تیسرا لازماً کسی نہ کسی تحقیق کے نتیجے میں ہی معرضِ وجود میں آیا ہو گا ۔اور اس کے بعد پھر چل سو چل ۔تحقیق بھی اور انسان بھی۔ البتہ تحقیق پر تحقیق ابھی پانچ منٹ قبل ہم نے شروع کی ہے ۔
تحقیق کا بنیادی فلسفہ تو انسانیت کی فلاح اور ان کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے ۔تاہم اکثر اوقات یہ محققین کی فلاح کا باعث ہوتی ہے ۔اس سلسلہ میں محققین کا ایسا ماننا ہے کہ اصل محقق وہ ہوتا ہے جو پہلے مسئلہ پیدا کرے پھر اس کا حل ڈھونڈے۔معلوم انسانی تاریخ کے مطابق سب سے زیادہ تحقیق جرمنوں نے کی۔لیکن اس بات پر ابھی تحقیق جاری ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ تحقیق کے بنیادی طورپر کیا، کیوں اور کیسے تین ذرائع ہیں۔اور غیر بنیادی طور پردو، کس کے لیے اور کس کے ذریعے۔ اسی طرح یہ تین طریقوں سے کی جاتی ہے۔کسی ایک نکتہ پر، کسی خط پر اور دائرہ میں۔ کسی نکتہ پر تحقیق بہت مشکل اور پیچیدہ کام ہے۔چونکہ نقطہ عموماََ چھوٹا سا ہوتا ہے، لہٰذا اس پر کھڑے ہونااورپھر کھڑے ہو کر تحقیق کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔۔اور دوسرا کسی بھی بڑے محقق کے لیے زیادہ دیر مسلسل ایک ہی نکتہ پر خوض کرتے رہنا خود اس کی ذہنی صحت کے لیے اچھا نہیں ہو تا۔اسی لئے زیادہ محققین پروفیسر ہوجاتے ہیں۔اور تیسرا اور سب سے اہم یہ کہ نقطہ سے محرم کا مجرم میں بدلنے کا خدشہ بہت ہوتا ہے ۔
البتہ کسی خط پر یا خطوط پرتحقیق نسبتاً آسان عمل ہے۔کیونکہ ان پر آگے پیچھے چلنے کی آزادی ہوتی ہے ۔البتہ اگر خطوط محبوب کے ہوں یا کسی دشمن کے تو جان لینا چاہیے کہ تحقیق اب غلط خطوط پر ہورہی ہے ۔لہٰذا اس کو صحیح خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔اور صحیح خط کے لیے لازم ہے کے کسی اچھے نائی کا انتخاب کیا جائے۔ دائرہ میں تحقیق ویسے تو بڑی عمدہ ہوتی ہے لیکن اسکا نقصان یہ ہے کہ محقق دائرے میں گھومتے گھومتے تنگ پڑجاتا ہے پھر اس کو تحقیق کا دائرہ کھلا کرنا پڑتا ہے ۔ایسا کرنے سے بعض اوقات نئے محقق اور نئے مسئلے تحقیق کے دائرے میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جن کو روکنے کے لئے پھر الگ سے تحقیق کرنا پڑتی ہے۔
تحقیق کے میدان میں ہم پاکستانیوں کا ایک اپنا ہی مقام ہے ۔ جس سطح کی اور جن اقسام کی تحقیقات پاکستان میں ہوتی ہے باقی دنیا میں اس کا تصور بھی محال ہے ۔۔ہمارے مشاہدہ کے مطابق کم از کم چھیانوے فیصد پاکستانی تحقیقاتی ذہن اور رویےرکھتے ہیں۔ اگر کسی کو اس دعویٰ پر شک ہے تو ، ایک موٹر سائیکل ڈرائیور، ایک خاتون اور ایک چادر لے کر کسی معروف مصروف شاہراہ پر پہنچ جائے۔کرنا صرف یہ ہے کہ سڑک کے کنارے خاتون کی چادر موٹر سائیکل کے چین میں پھنسانی ہے اور چند ثانیوں کےلیے وہاں کھڑے رہنا ہے ۔ایسے ایسے تحقیق کے دلدادہ گوہرِ نایاب دریافت ہوں گے کہ آپ بے ساختہ کہہ اٹھیں گے
ایسی “چنگاریاں”بھی یارب اپنے خاکستر میں تھیں ۔۔
سائیکلیں، موٹر سائیکلیں روک روک کے تحقیق کی جائیگی۔ گاڑی والے کھڑکی سے گردن نکال نکال کر تحقیق کر یں گے ۔کوئی موٹر سائیکل پر تحقیقاتی مقالہ لکھنے کا خواہشمند ہوگا تو کوئی خاتون پر۔کوئی چین کی ساخت جاننے کا متمنی ہوگا تو کوئی چادر کا برانڈ ۔ڈرائیور کی ذات پات برادری تک پر تحقیق ہوگی۔ یقین جانیں یہ تحقیقاتی عمل آپ کے وہاں سے جانے کے کئی گھنٹے بعد تک جاری رہے گا۔ ہماری تو خواتین تحقیق کی اتنی دلدادہ ہیں کہ قریب چھیانوے فیصد نوجوان لڑکیوں نے غیر اعلانیہ قومی پروگرام برائے تحقیق میں حصہ لے رکھا ہے ۔اس پروگرام کے تحت یہ اپنے خرچ پر اس بات پر تحقیق کررہی ہیں کہ رنگ گورا کرنے والے کریمیں بھلا واقعی رنگ گورا کرتی ہیں یا نہیں۔
درجنوں وقف تحقیقاتی ادارے ان پر سوا ہیں۔ ایک خلائی تحقیق کا ادارہ ہے ۔جس میں پہلے پہل خلاؤں پر تحقیق کی جاتی تھی ۔پھر انہوں نے حکومت کو ایک مراسلہ بھیجا ،کہ وہ مزید یہ تحقیق جاری نہیں رکھ سکتے کیونکہ قوم کے آدھے سے زائد نوجوان ہر وقت خلاؤں میں گھورتے رہتے ہیں ۔یا ان کو اس کام سے باز رکھا جائے یا ہمیں کوئی اور کام تفویض کیا جائے ۔تب سے پھر سرکار ان کو اس خلا پر تحقیق پر لگا دیا جو بڑے آدمیوں کے مرنے سے پیدا ہوتا ہے ۔ابھی ادارے کے نمائندے نے بتایا ہے کہ وہ زیادہ عرصہ اس کام کو بھی جاری نہیں رکھ سکیں گے کہ ملک میں بڑے آدمی اب تھوڑے ہی رہ گئے ہیں ۔
ایک تحقیقاتی ادارہ برائے چاول ہے۔درجنوں ایکڑ اراضی پر مشتمل ۔درجنوں سائنس دان اور بیسیوں کام کرنے والے کم از کم دو دہائیوں سے تحقیقات میں مشغول۔ سنا ہے کہ جاں گسل تحقیقات کے بعد اب اس قابل ہیں کہ چاولوں کی وہ فصل جو عام کسان اپنے کھیتوں میں اگاتے ہیں ۔یہ ان کی مدد کے بغیر اب ادارے کے اندر اگا سکتے ہیں ۔ فیصل آباد میں ایک زرعی تحقیق کا تدریسی ادارہ ہے ۔ایک شعبے میں سائنسدان کئی سال کی انتھک تحقیق کے بعد ڈھائی کلو کی مولی اورچار کلو کا شلجم اگانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔پوچھا کہ بھائی اس کی افادیت کیا ہے ۔کہنے لگے اگلے دس سال اس پر ہی تحقیق کریں گے کہ اس سے فائدہ کیا ہوگا ۔
اپنے تو شاعر بھی محقق ہیں۔ دیکھیں کیسی تحقیق فرمائی کہ دل بھی چرایا جا سکتا ہے ۔اور چوری شدہ دل کے ساتھ بندہ نہ صرف مکمل طور پر نارمل زندگی بسر کر سکتا ہے بلکہ اچھل کود اور گا بھی سکتا ہے۔ یہاں تک کہ معاشقہ بھی فرما سکتا ہے ۔اور شاعروں کی اس تحقیق کو تائیدی سند جاری کی ہے اپنے ڈاکٹروں نے ۔بلکہ انہوں نے اس تحقیق کو مزید آگے بڑھایا ہے کہ صرف دل ہی نہیں گردے اور دیگر اعضاء بھی چرائے جا سکتے ہیں۔اور بیچے بھی جا سکتے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں نے کمال تحقیق سے ایسا طریقہ بھی وضع کر لیا ہے کہ ادھر مریض دواؤں کی دکان سے سو روپے کی ادویات خریدے ادھر تیس ڈاکٹر کے کھاتے میں جمع ہو جاتے ہیں ۔ابھی ڈاکٹر حضرات اس بات پر تحقیق فرما رہے ہیں کہ یہ سو کا سو کسی طور ان کے کھاتے میں منتقل ہو جائے ۔
ڈاکٹروں کی بات ہو تو جینیاتی میدان میں اپنی لازوال تحقیق کا ذکر نہ کریں تو زیادتی ہوگی ۔ دیکھئے اس قدر جدید تحقیق کا کمال کرشمہ جو پوری دنیا میں یکتا ہے،کہ ہمارا ایک شخص بیک وقت بھٹو بھی ہے اور زرداری بھی۔ساری دنیا کے جینیاتی محقق تاحال کومہ میں ہیں۔
ہمارے تو حکمران بھی اللہ کے فضل سے محقق ہیں۔ ادھر پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ اس بات پر تحقیق میں لگے ہیں،کہ ایک شہر میں زیادہ سے زیادہ کتنے پل اور انڈرپاس بن سکتے ہیں ،اور دوسری طرف سندھ کے اس پر تحقیق فرمارہے کہ کراچی کی سڑکوں پر زیادہ سے زیادہ کتنا کچرا جمع کیا جا سکتا ہے ۔ وہاں خیبرپختونخوا کی ایک نجی رسدگاہ نے کامیاب تحقیق کے بعد یہ بات ثابت کر دی ہے کہ مریخ کی طرح زمین کے بھی دو چاند ہیں جو ایک دن کے فرق سے دکھائی دیتے ہیں ۔ پوری دنیا اس بات پر لگی ہے کہ زمین میں موجود معدنیات کے خزانوں کو کس طرح نکال کر ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ۔لیکن ہماری تحقیق اس بات پر جاری ہے کہ اگر ان کو نہ نکالا جائے تو کہیں یہ خراب تو نہیں ہو جاتے ۔
ہمارے مولوی حضرات اس بات پر تحقیق کرنے میں لگے ہیں کہ ایک شخص کو زیادہ سے زیادہ کتنی بار دائرہ اسلام سے نکالا جا سکتا ہے ۔امید ہے کہ یہ تحقیق جلد مکمل ہو جائے گی کیونکہ مولویوں کو بہتر سے آگے شاید گنتی نہیں آتی۔ تحقیقی مقالہ جات کی تو ایک طویل لسٹ ہے جو اس ضمن میں بطور ثبوت پیش کی جاسکتی ہے ۔لیکن ہمارے خیال میں جو اب تک قائل نہیں ہوا کہ ہم محقق قوم ہیں ایک تحقیق ان کے بارے میں بھی شروع کروا دیتے ہیں۔

Facebook Comments

ابن فاضل
معاشرتی رویوں میں جاری انحطاط پر بند باندھنے کا خواہش مندایک انجینئر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply