تتتھاگت نظم۔۔5 (گوتم سے عیسےٰ تک)

پیش لفظ
کہا بدھ نے خود سے : مجھ کو۔ دن رہتے، شام پڑتے، سورج چھپتے، گاؤں گاؤں یاترا، ویاکھیان، اور آگے ، اور آگے۔ بھارت دیش بہت بڑا ہے، جیون بہت چھوٹا ہے، لیکن اگر ایک ہزار گاؤں میں بھی پہنچ پاؤں تو سمجھوں گا، میں سپھل ہو گیا۔ ایک گاؤں میں ایک سو لوگ بھی میری باتیں سن لیں تو میں ایک لاکھ لوگوں تک پہنچ سکوں گا۔ یہی اب میرا کام ہے ،فرض ہے ، زندگی بھر کا کرتویہ ہے۔ یہ تھا کپل وستو کے شہزادے، گوتم کا پہلا وعدہ … خود سے …اور دنیا سے۔ وہ جب اس راستے پر چلا تو چلتا ہی گیا۔اس کے ساتھ اس کا پہلا چیلا بھی تھا، جس کا نام آنند تھا۔ آنند نام کا یہ خوبرو نوجوان سانچی کے ایک متمول خاندان کا چشم و چراغ تھا، لیکن جب یہ زرد لباس پہن کر بدھ کا چیلا ہو گیا تو اپنی ساری زندگی اس نے بدھ کے دستِ راست کی طرح کاٹ دی۔ یہی آنند میرا ، یعنی ستیہ پال آنند کے خاندانی نام ’’آنند‘‘ کی بیخ وبُن کی ، ابویت کی، پہلی سیڑھی کا ذوی القربیٰ تھا۔ اسی کی نسب خویشی سے میرے جسم کا ہر ذرہ عبارت ہے۔ مکالمہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان نظموں کے اردو تراجم اس میں بالاقساط شائع ہو رہے ہیں۔ اردو کے غیر آگاہ قاری کے لیے یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ ’’تتھا گت‘‘، عرفِ عام میں، مہاتما بدھ کا ہی لقب تھا۔ یہ پالی زبان کا لفظ ہے جو نیپال اور ہندوستان کے درمیان ترائی کے علاقے کی بولی ہے۔ اس کا مطلب ہے۔ ’’ابھی آئے اور ابھی گئے‘‘۔ مہاتما بدھ گاؤں گاؤں گھوم کر اپنے ویا کھیان دیتے تھے۔ بولتے بولتے ایک گاؤں سے دوسرے کی طرف چلنے لگتے اور لوگوں کی بھیڑ ان کے عقب میں چلنے لگتی۔ آس پاس کے دیہات کے لوگ جب کچھ دیر سے کسی گاؤں پہنچتے تو پوچھتے کہ وہ کہاں ہیں، تو لوگ جواب دیتے۔ ’’تتھا گت‘‘، یعنی ابھی آئے تھے اور ابھی چلے گئے‘‘۔ یہی لقب ان کی ذات کے ساتھ منسوب ہو گیا۔ میں نے ’’لوک بولی‘‘ سے مستعار یہی نام اپنی نظموں کے لیے منتخب کیا۔ ستیہ پال آنند –

تتتھاگت نظم۔۔5 (گوتم سے عیسےٰ تک)
ستیہ پال آنند

گوتم سے عیسےٰ تک
یہ نظم پہلے انگریزی میں From Gautama to Jesus کے زیر عنوان لکھی گئی اور میری کتاب One Hundred Buddhas میں شامل ہے
…………………………………………..

اور پھر ایسے ہو کہ
بھیڑ ساری چھٹ گئی اور
آخری بھکشو بھی ’’گچھّامی‘‘ ۰۰کا منتر جاپ کرتا لوٹ آیا

اپنے کُش آسن۰۰ پہ بیٹھے
بدھّ اپنی آتما کی آنکھ کھولے
دھیان میں اگلے جنم کو دیکھنے میں محو تھے…
جو آخری تھا
(پانچ چھہ صدیاں ہی شاید رہ گئی تھیں)

پاس سے آنندؔ بولا
’’اے مہا مانو۰۰ تتھا گت، اب مجھے انتِم بِدا ۰۰دینے سے پہلے
آخری اُپدیش دو … نروان کے رستے پہ چل کر
آپ کی مانند میں بھی
اس جنم کے بعد مکتی چاہتا ہوں!‘‘

بدھّ بولے، ’’کون سا نروان؟ وہ مکتی جسے میں
خودگذشتہ ایک سہ جنموں سے (یا اس سے زیادہ)
ڈھونڈنے کی سعئ لا حاصل میں سرگرداں، بھٹکتا
وقت سے لا وقت تک رستے بدلتا
اس جنم تک ہی پہنچ پایا ہوں، بولو؟‘‘

دست بستہ
پھر کہا آنند نے، ’’اے پیر و مرشد
میں بھی تو آوا گون ۰۰ سے مُکت ہونا چاہتا ہوں
روح کو آزاد کرنا چاہتا ہوں!‘‘

بدھّ بولے، ’’میں تو اب اس جسم کا چولا بدلنے جا رہا ہوں
جانتا ہوں تم سبھی شاگرد میرے
آنے والے اُس جنم میں بھی مرے ہمراہ ہو گے
جس میں مجھ کو دائمی مصلوبیت کی وہ سعادت بھی ملے گی
جس کو پا چکنے سے میں آوا گون سے
چھوٹ کر نروان حاصل کر سکوں گا!‘‘

’’آپ کے ہمراہ ہوں گے؟ ہم سبھی؟ ‘‘ آنند بولا

’’ہاں، سبھی!تم میرے پیروکار..۰۰
تم آنند اور دیگر سبھی جو ’’بدھّ کی میں شرن ۰۰میں جاتا ہوں‘‘ کہہ کر
سَنگھ ۰۰ میں شامل ہوئے تھے
آنے والے اُس جنم میں (جو کہ میرا آخری ہے)
تم مرے ایمان سے اانکار کر دو گے، مجھے جھوٹا کہو گے
تم مری مصلوبیت میں دوسروں کا ساتھ دو گے!‘‘
سر جھکائے، بدھّ کا صادق امیں، آنند جیسے رو دیا
پر کچھ نہ بولا
جانتا تھا، بدھّ جو کہتے ہیں وہ بالائے شک ہے

Advertisements
julia rana solicitors

بُدھ نے تب پیار سے تنبیہ کی:’’آنند، اب جاؤ یہاں سے
میں بھی اب اگلے سفر کے واسطے تیار ہونا چاہتا ہوں!‘‘
……………………………………………………………………………………………………………………………………….
Notes on dotted words and phrases.
۰۰ گچھامی : بدھ مت میں داخلے کا حلف۔ بدھم شرنم گچھامی ۔۔(سنسکرت) میں بدھّ کی پناہ میں جاتا ہوں۔
۰۰ کُش آسن ۔ چٹائی
۰۰ انتم بَدا ۔ آخری الوداع
۰۰ ’’آوا گون‘‘ یا ’’آوا گمن‘‘۔ مسئلۂ تناسخ ۔جسم کی موت کے بعد روح کا دوسرے قالب میں ظہور
۰۰ ’’سنگھ‘‘۔ Sangha بدھ بھکشوؤں کی تنظیم کا نام
بدھّ کے دو چیلے، بھکشو آنندؔ اور بھکشو کشیپؔ Kashyap موت کے وقت بدھّ کے دائیں بائیں بیٹھے تھے۔
ٍ خصوصی طور پر ان کا ذکر عیسےٰ مسیح کے دو شاگردوں John & Peter یعنی یوحنا ؔ اور پطرسؔ سے مماثلت میں ہے۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply