• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • خدا بھی آن لائن ہے بھیّا (قصّہ دوسرے موبائل کی آمدورفت کا)-محمد وقاص رشید

خدا بھی آن لائن ہے بھیّا (قصّہ دوسرے موبائل کی آمدورفت کا)-محمد وقاص رشید

راولپنڈی والے موبائل کے بعد وہی ماڈل اب شہزادے نے ملتان سے ڈھونڈ نکالا۔ ملتان والا ایک بڑا یوٹیوبر تھا جس کے  سبسکرائبر لاکھوں میں تھے سو اس بنیاد پر کہا گیا فون لگا دیجیے اور فون لگا دیا گیا۔

سامنے سے بڑے تابعدارانہ انداز میں گفتگو کا آغاز ہوا ۔ اسے اپنے پنڈی فون کے تجربے کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ برائے مہربانی کسی ایسی مشکل سے خود بھی بچے ہمیں بھی بچائے۔ سافٹ وئیر ،  ہارڈوئیر ، کیمرہ ، کیسنگ اور سیٹ کا کھلا نہ ہونا وارنٹی میں شامل ہو گا اور اسکی وہ تحریر دے گا۔ سو موبائل فون کا سودا طے ہو گیا۔ پانچ ہزار ایڈوانس اور بقیہ ڈیلیوری پر معاہدے کا حصہ تھا۔

ایک بات حیران کن تھی کہ پانچ ہزار روپے وصول ہوتے ہی بھیا کا لہجہ ذرا تبدیل ہو گیا۔ ہوا یوں کہ انہوں نے کہا تھا کہ موبائل آج ہی یعنی ہفتے کی شام ہی کو ڈسپیچ ہو جائے گا۔ یہ کوئی چار بجے کا وقت تھا۔ پیسے ملنے کے بعد بھیا نے رات تلک فون نہیں اٹھایا اور نہ واٹس ایپ میسج سین ہوا۔ لگ بھگ آٹھ بجے کہنے لگے کہ ٹی سی ایس والا چلا گیا اس لیے سوموار تک انتظار کرنا ہو گا۔ اسے بتایا کہ بھائی آپ نے پہلے عہد کی خلاف ورزی تو کر لی ، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا تو ذرا درشت لہجے میں کہنے لگے غلطی ٹی سی ایس والے کی ہے۔

سوموار کو اسے کال کرنی شروع کی نہ فون اٹھائے نہ میسیج دیکھے۔ بہرحال سوموار شام اس نے فون ڈسپیچ کر دیا۔ لیکن پانچ ہزار کی رسید نہ بھیجی۔ بار بار فون کیے میسجز بھیجے۔ کہنے لگا میں میٹنگ میں تھا۔ عرض کیا یہ آٹھ گھنٹے والی میٹنگ پہلی بار دیکھی ہے۔ ۔ ساری دال کالی لگ رہی تھی۔

موبائل فون ریسیو ہوا تو وہیں بیٹھ کر اس سے کہا فوری طور پر رسید بھیجے۔ جواباً حیلے بہانے۔۔۔بہرحال کچھ دیر میں رسید آ گئی۔ اور فون گھر لے جا کر ویڈیو ریکارڈنگ میں کھولا گیا۔ فون میں بنیادی طور پر تین نقص تھے ۔ پکسل برننگ ، کیمرے میں ڈاٹس اور سب سے بڑھ کر بیٹری آدھے گھنٹے میں پچاس فیصد ڈسچارج۔ اگلے دن پوری تسلی کے بعد اسے اطلاع دینے کے لیے سارا دن کالز اور میسجز، مگر جواب ندارد۔

پھر ایک وائس میسج کیا کہ بھیا جو تم کر رہے ہو یاد رکھو کہ ملتان کوئی پاکستان سے باہر نہیں۔ ملتان میں میرا سسرال ہے ۔ ملتان میں بہت سے دوست ہیں جن میں سے ایک کے بھائی کی لا ء فرم ہے۔ ابھی اسی وقت آپکی خدمت میں حاضر ہو کر لوگ میری کال آپکو ریسیو کروا سکتے ہیں آگے آپکی مرضی۔

کچھ دیر بعد اسکی کال آئی کہ ہاں جی کیا مسئلہ ہے ۔ میں اب خلاف معمول آپ سے تم پر منتقل ہو گیا اور اسے کہا چھوڑو فون کو یہ بتاؤ آن لائن ہو کر اور میسج سین کر کے بھی جواب کیوں نہیں دیتے؟

اس نے کہا سارے ملتان میں انٹرنیٹ کا مسئلہ تھا۔ میں نے اسکا نام لے کر کہا کتنے جھوٹ بولو گے ؟ میں نے تمہیں پہلے دن کہا تھا کہ راولپنڈی والے فون کا تجربہ مت دہرانا۔ اگر مجھے وکیل کرنا پڑگیا تو یاد رکھو اب کی بار تمہیں پیسے بھی دوگنے چوگنے دینے پڑیں گے ،ایف آئی اے میں تمہاری ویب سائیٹ کو فراڈولینٹ کمپنی  رپورٹ بھی کروں گا اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ہوتے ہوئے تمہارے خلاف کیمپین بھی کروں گا۔ تم نے مالی نقصان تو پہنچایا ذہنی اذیت سے بھی دوچار کیا ، کبھی رات گیارہ بجے تک تمہاری میٹنگ ہوتی ہے کبھی پورے ملتان کا انٹرنیٹ غائب ہو جاتا ہے اور کبھی تم واٹس ایپ کے نیلے ٹکس سے مُکر جاتے ہو۔ میں فون واپس بھیج رہا ہوں مجھے تین دن کے اندر اندر پیسے بھیجو وگرنہ پھر کورٹ میں ملاقات ہو گی اب دیکھتے ہیں یہ فون تمہیں کتنے میں پڑتا ہے۔

زندگی میں بہت کم اس طرح کسی سے بات کی ۔ پھپھسی سی آواز میں کہنے لگا ویسے میں نے فون چیک کروا کے بھیجا تھا۔ میں نے کہا تو مجھے بتاؤ چلو پکسل برننگ کی بھی خیر ہے ایک چھوٹا سا نشان ہے کیمرہ ڈاٹس کی بھی چلو فون کھلے ہونے کا شک جاتا ہے لیکن وہ بھی سہی مگر تمہیں تصویریں بھیجیں، فون کے اپنے ریکارڈ ٹائم اور بیٹری یوزیج کی۔ اس پر کمپرومائز کیسے ممکن ہے ۔ آپ اندازہ لگائیں کہ کہنے لگا چلیں ٹھیک ہے آپکو پندرہ دن بعد پیسے ملیں گے کیونکہ ٹی سی ایس ہمیں پندرہ دن بعد پیسے لوٹاتا ہے۔ میں نے کہا پھر جھوٹ مجھے ٹی سی ایس والے نے بتایا کہ دو دن بعد پیسے تم لوگوں کو مل جاتے ہیں لیکن مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تم نے چیک وارنٹی سات دن کی دی ہے تمہاری ویب سائٹ پر بھی لکھا ہوا ہے، اس سے ایک دن بھی اوپر جاؤ تو تم کورٹ آف لا ءکو جوابدہ ہو ، کہنے لگا ٹھیک ہے رسید کے ٹائم کے اندر اندر پیسے مل جائیں گے اور یوں تین چار دن بعد موبائل اُسے اور پیسے مجھے واپس مل گئے۔ اور میں نے تہیہ کر لیا کہ آئندہ کبھی کم ازکم موبائل فون آن لائن نہیں خریدوں گا۔

ایک بار پھر وہی تاسف کہ کاش کہ انگریزی کی دھمکی کی بجائے اردو کی التجا کو فوقیت ملتی ، کاش کہ ویب سائٹ پر لاکھوں لوگوں سے دعویٰ کردہ سچائی   جھوٹی اور کھوکھلی ثابت نہ ہوتی اور کاش کہ ترجیح چار ٹکوں (جو کہ آخر منہ   چڑاتے واپس گئے) کی بجائے انسانیت ہوتی، دیانت جسکی میراث ہے۔   بارِ دگر عرض ہے کہ ان چھوٹی موٹی عدالتوں سے ڈرنے کی بجائے اس حتمی عدالت کا ڈر ہو جہاں منصف کوئی اور نہیں وہ ہو گا جس کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ “واللہ خیر الرازقین”۔۔۔او بھائی سوچو ۔۔۔اس نے تمہاری دکان کو اٹھا کر پورے ملک میں پھیلانے کے اسباب پیدا کر دیے مگر تم جھوٹ ، دھوکہ دہی اور وعدہ خلافی کو آن لائن کر کے اپنے خلاف گواہان بڑھانے لگے۔ یاد رکھو خدا بھی آن لائن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں ریاستی سطح پر پھر وہی گزارش کہ آن لائن مارکیٹ بہت بڑے پیمانے پر عمل پیرا ہے۔ دھوکہ دہی ، فراڈ اور حق تلفی کے تدارک کے لیے عوامی مفاد کی ناصرف سہل قانون سازی ہو بلکہ اسکے لیے باقاعدہ ایک آگاہی مہم چلائی جانی چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply