سپنوں کی موت۔۔کھمان کھون کھائی/ترجمہ حمید جہلمی

’’سپنوں کی موت‘‘ تھائی لینڈ کی دیہی زندگی کی جیتی جاگتی کہانی ہے۔ ایک نوجوان استاد بڑے بڑے عزائم لے کر ایک گاؤں جاتا ہے وہاں سکول اور لائبریری قائم کرنے کے لیے دن رات ایک کردیتا ہے لیکن ٹمبر مافیا جو ناجائز طور پر جنگل کی لکڑی کاٹ کاٹ کراس ملک کو ویران کررہا ہے اسے اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ آخری ٹمبر مافیا جیت جاتا ہے اور استاد اپنے ملک اور اس علاقہ کے لیے اپنی جان قربان کردیتا ہے

عجیب بات ہے کہ تھائی لینڈ میں فلم پہلے آئی اور ناول بعد میں۔ غیر ملکی فلمیں اس ملک میں آنا شروع ہوئیں تو ان کی کہانیاں کتابی شکل میں شائع کی جانے لگیں۔ یہ کتابیں اتنی مقبول ہوئیں کہ اسی طرح طبع زاد کہانیاں لکھنے کا رواج بڑھنے لگا۔ ان کہانیوں کا انداز بھی فلمی ہوتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس ملک میں فلم سے پہلے کہانیاں کہنے سننے کا رواج نہیں تھا۔ دیو مالائی کہانیاں سنائی جاتی تھیں اور منظوم داستانیں صدیوں سے چلی آرہی تھیں۔ چونکہ تھائی لینڈ جس کا قدیم نام سیام تھا قدیم ہندوستانی تہذیب کا ہی ایک حصہ تھا اس لیے اس کی دیومالائی کہانیاں بھی وہی تھیں جو قدیم ہندوستان کی تھیں لیکن مغربی طرز کے ناول لکھنے کا رواج بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں پیدا ہوا۔ تھائی ادب پر فلموں کا اثر کتنا ہے اس کا اندازہ زیر نظر ناول سے ہی ہوسکتا ہے۔ یہ ناول پہلے فلم اسکرپٹ کی شکل میں لکھا گیا تھا۔ اس پر ایک نوجوان فلمساز سورسی پتھیم نے فلم بنائی تھی جو 1978 میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کو بہت پسند گیا گیا۔ فلم کے بعد یہ ناول کتابی شکل میں شائع کیا گیا تو وہ بھی بہت مقبول ہوا۔ تھائی زبان میں اس ناول کا نام ” کھروبانوک” ہے۔ جس کا لفظی مطلب ہے ” دیہاتی سکول ٹیچر”

ناول بظاہر تو ایک ایسے سکول ٹیچر کی زندگی کی داستان ہے جو بے غرضی اور جان نثاری کے ساتھ ایک گاوں کے بچوں کو پڑھاتا ہے۔ اس گاوں میں سکول اور لائبریری کی عمارت تعمیر کرانے کے لیے اپنا تن من دھن لگا دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ناول تھائی لینڈ کی معیشیت اورمعاشرت کی کہانی بھی ہے۔ ناول نگار نے جس گہرائی میں جا کر تھائی لینڈ کی دیہاتی زندگی کا نقشہ کھینچا ہے اس ملک کے دیہات، وہاں کے باشندوں اور ان سے باہمی رشتوں کی سچی تصویر ہمارے سامنے آجاتی ہے۔ تھائی زبان میں استاد کو کھرد کہا جاتا ہے۔ یہ وہی کھرد ہے جو ہماری زبان میں گرو ہے۔ گرو صرف استاد نہیں ہوتا اس کے ساتھ سماجی اور مذہبی رشتہ بھی وابستہ ہوتا ہے اور صرف سکول میں پڑھانا ہی عام زندگی کے روزمرہ معاملات میں رہنمائی بھی کرتا ہے۔ ناول کا گرو پیا بھی یہی کام کرتا ہے۔ وہ ہر جگہ موجود ہوتا ہے اور ہر شخص کے کام آتا ہے۔

پاکستان کی طرح تھائی لینڈ میں ٹمبر مافیا موجود ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دولت کمانے کے لیے جنگل کے جنگل صاف کر دئیے ہیں۔ اس طرح وہ صرف قدرتی ماحول کو نقصان نہیں پہنچارہے ہیں بلکہ پورے ملک کو اس کی قدرتی دولت سے محروم کر رہے ہیں۔ ان لوگوں میں بااثر تاجروں اور ٹھیکداروں کے ساتھ سیاست دان بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ ایک عام اسکول ٹیچر ان کا مقابلہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور پیا کی یہی غلطی ہے کہ وہ ان کا مقابلہ کرنے کی جرات کرتا ہے۔ وہ ان کے کرتوت عوام کے سامنے لانے کی ہمت کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے کہ جو ہم تیسری دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں ہر روز دیکھتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تحریر فیس بک پیج عالمی ادب کے اردو تراجم سے لی گئی ہے

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply