• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کارگل کی ذمہ داری کبھی کسی پر عائد نہیں کی جائے گی: مشاہد حسین

کارگل کی ذمہ داری کبھی کسی پر عائد نہیں کی جائے گی: مشاہد حسین

کارگل کے محاذ پر ہونے والی لڑائی کو 20 برس بیت گئے ہیں۔

یہ لڑائی مئی سے جولائی 1999 کے درمیان لائن آف کنٹرول کے ساتھ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے کارگل کی برفانی چوٹیوں پر لڑی گئی۔ انڈیا میں سے ’آپریشن وجے‘ کا نام دیا گیا جبکہ پاکستان میں سے ’آپریشن کوہ پیما‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

اس جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کے درست اعدادوشمار میسر نہیں تاہم جہاں انڈیا میں 500 سے زیادہ فوجیوں کی ہلاکت کی بات کی جاتی ہے وہیں پاکستان کی جانب ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ تھیں۔ پاکستان نے اس معرکے میں مرنے والے اپنے دو فوجیوں کو اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ‘نشان حیدر’ سے بھی نوازا۔

کارگل کی لڑائی کے اختتام کے 20 برس بعد بھی اس کے آغاز سے لے کر اس میں ہونے والے نقصان تک بہت سی چیزوں کے بارے میں قیاس آرائیاں اب بھی کی جاتی ہیں۔

جب یہ تنازعہ پیش آیا تو پاکستان مسلم لیگ نون کے موجودہ سینیٹر مشاہد حسین سید وفاقی وزیرِ اطلاعات تھے۔ بی بی سی نے ان سے کارگل کی جنگ کی اندر کی کہانی جاننے کی کوشش کی ہے۔

نوازشریف کی لاعلمی

مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ نوازشریف اس بات سے بالکل لاعلم تھے کہ پاکستان کی فوج لائن آف کنٹرول پار کر چکی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’بطور وزیراعظم میاں صاحب کو کارگل کے بارے میں پہلی بریفنگ 17 مئی 1999 کو ڈی جی ایم او کی جانب سے دی گئی لیکن اس سے پہلے انڈیا سے آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ کچھ ہو رہا ہے۔‘

afp

مشاہد حسین کے مطابق کارگل سے چند ماہ پہلے فروری 1999 میں جب انڈیا کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے تھے تو اس وقت بھی نوازشریف بےخبر تھے کہ پاکستان کی فوج انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں کسی جنگی کارروائی کا منصوبہ بنا چکی ہے۔

مشاہد حسین نے بتایا کہ اٹل بہاری واجپائی کے دورے کے وقت دونوں ملکوں کے درمیان ماحول بہت اچھا تھا اور انڈین وزیراعظم کو پاکستان کے تینوں فوجی سربراہان نے باقاعدہ سلیوٹ بھی کیا تھا۔

اس سوال پر کہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ جنوری 1999 میں ایک بریفنگ میں نواز شریف کو بتایا گیا تھا کہ کارگل ہونے جارہا ہے، مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ ’جنوری میں تو ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا تھا۔ میں اس بریفنگ کا حصہ تھا اور وہ سکیورٹی پر ایک عمومی بریفنگ تھی۔‘

’سرکاری سچ‘

سابق وزیرِ اطلاعات کہتے ہیں کہ انھیں پاکستانی فوج کی کارگل میں موجودگی کی اطلاع انٹرنیشنل میڈیا کو بریفنگ سے تھوڑی دیر پہلے دی گئی۔

’جب یہ معاملہ منظرِ عام پر آ گیا تو مجھے کہا گیا کہ آپ بریفنگ دیں کیونکہ میں حکومت کا ترجمان تھا۔ اس وقت مجھے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ یہ ہمارے بندے ہیں۔ ناردرن لائٹ انفنٹری۔ ہمارے ریگولرز۔‘

مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ یہ ان کے لیے بہت مشکل مرحلہ تھا۔ ان کی رائے تھی کہ پاکستان کو انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے حقیقت بیان کرنی چاہیے۔

’ہندوستان نے بھی سنہ 1984 میں سیاچن میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی تھی تو ہم کہہ سکتے تھے کہ یہ حقائق ہیں اور مسئلے حل کریں۔‘

’لیکن کبھی سرکاری سچ کو سچ کرنا پڑتا ہے۔‘

فوج اور حکومت تقسیم

مشاہد حسین سید کے مطابق جب حکومتی حلقوں کو کارگل سے متعلق حقیقت کا ادراک ہوا تو شدید دھچکا لگا۔ ’ایک طرف ہم انڈین وزیراعظم کا خیر مقدم کر رہے تھے اور دوسری طرف تقریباً جنگ کی طرف جا رہے تھے۔

’نظام کے اندر ایک تقسیم آنا شروع ہو گئی تھی کہ یہ اتنی بڑی چیز کیسے کر لی گئی ہے۔ سیکریٹری دفاع جنرل افتخار علی خان نے کابینہ کو بریفنگ دی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ یہ بہت غلط ہوا ہے اور یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘

سابق وزیراطلاعات نے بتایا کہ ’نوازشریف کارگل کے بعد حیرانگی اور مایوسی کی کیفیت میں تھے کیونکہ انڈیا کے وزیراعظم امن کے لیے خود چل کر ہمارے پاس آئے تھے۔

’نوازشریف سمجھتے تھے کہ پاکستان ایک ایسے بحران میں پھنس گیا ہے جس کے نتائج ہم کنٹرول نہیں کر سکتے۔‘

نیوکلیئر آپشن

سی آئی اے کے سابق تجزیہ کار بروس ریڈل کے دعوؤں کے برعکس مشاہد حسین نے بتایا کہ اس لڑائی کے دوران کبھی بھی جوہری ہتھیاروں کو متحرک کرنے کی آپشن زیرغور نہیں آئی۔

بروس ریڈل نے 2015 میں دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کارگل کے دوران انڈیا کے خلاف اپنے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا سوچ رہا تھا۔

مشاہد حسین نے بتایا ’اس معاملے میں جوہری پہلو بالکل سامنے نہیں آیا یا کسی نے اس کے بارے میں سوچا بھی ہو۔

’ابھی تو جنگ ہی شروع نہیں ہوئی تھی۔ ابھی تو صرف کشیدگی بڑھ رہی تھی اور سرحد پر جھڑپیں ہورہی تھیں تو جوہری ہتھیاروں کا سوال ہی پیدا نہیں ہورہا تھا اور یہ بات دونوں طرف سے تھی۔‘

جب اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے تھے تو اس وقت بھی نوازشریف بےخبر تھے کہ پاکستان کی فوج کسی جنگی کارروائی کا منصوبہ بنا چکی ہے

جنگ بندی پر تنازعہ

مشاہد حسین سید نے تصدیق کی کہ جولائی 1999 میں نوازشریف نے امریکہ جانے سے پہلے اپنی کابینہ سے کوئی مشورہ نہیں کیا۔

اس امریکی دورے کے دوران نوازشریف نے غیرمشروط جنگ بندی اور فوجیں بلانے کے سمجھوتے پر دستخط کیے تھے جس پر فوجی حلقوں میں کافی ناپسنددیدگی کا اظہار کیا گیا تھا۔

’(جنگ بندی کے بعد کارگل سے) واپسی میں بھی کافی اموات ہوئیں تھیں کیونکہ وہ (فوجی) بلندی سے آرہے تھے اور وہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تھے۔ اس (جنگ بندی) کا (فوج میں) سینیئر اور درمیانی سطح پر ردعمل ہوا تھا۔‘

تاہم سابق وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ انھیں اس بات کا علم نہیں کہ کیا فوج اور نوازشریف کے درمیان واشنگٹن میں مذاکرات کے لیے کوئی ایجنڈا طے ہوا تھا یا نہیں۔

’(امریکہ کے دورے کی) تیاری ہورہی تھی۔ اس سے پہلے بھی جی ایچ کیو کا امریکہ کے ساتھ رابطہ تھا۔ نوازشریف ان (فوج) کے آشیرباد کے ساتھ گئے تھے۔ جنرل مشرف انھیں (ایئرپورٹ) چھوڑنے بھی آئے۔‘

انڈیا نے کارگل کے محاذ پر اپنی فضائیہ کے علاوہ بوفورز توہیں بھی استعمال کی تھیں

’کارگل 1965 والی غلطی‘

مشاہد حسین سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے اس خیال سے متفق نظر نہیں آتے کہ کارگل ایک جیتی ہوئی جنگ یا حالت تھی لیکن سیاسی قیادت کی کمزوری کی وجہ سے وہ شکست میں تبدیل ہوگئی۔

مشاہد حسین سید کی رائے ہے کہ کارگل میں پاکستان نے وہ ہی غلطی کی جو 1965 میں کی تھی۔

’ہمارے ہاں ادارے کی سطح پر فیصلے نہیں کیے جاتے۔ 1965 میں بھی مری میں ایوب خان سمیت 12ویں ڈویژن کے چار پانچ لوگ تھے (جنھوں نے آپریشن جبرالٹر کا فیصلہ کیا)۔

’(کارگل کے وقت )یہاں بھی بس تین چار لوگ تھے جنھوں نے فیصلہ کرلیا اور سوچ بھی وہی تھی کہ ہم جو مرضی کریں گے انڈیا اس کا ردعمل اس طرح نہیں دے پائے گا۔‘

مشاہد حسین کے مطابق پاکستان کو کارگل لڑائی کا بہت نقصان ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کا معاملہ دہشت گردی سے منسلک ہو گیا جبکہ انڈیا کی طرف امریکہ کا جھکاؤ بھی کارگل کے بعد شروع ہوا۔

 

کارگل میں انڈین فوجی ہیلی کاپٹروں کی محاذ جنگ پر فائرنگ کا منظر

جرنیلوں کا احتساب

سینیٹر مشاہد حسین سید کارگل میں ہونے والی ہلاکتوں کی حتمی تعداد تو نہیں جانتے لیکن وہ کہتے ہیں کہ انڈین مزاحمت پاکستان کی توقع سے بہت زیادہ تھی۔

’جو لوگ اوپر (انڈین پوسٹوں پر) بیٹھے تھے ہم (پاکستان) ان تک رسد نہیں پہنچا سکے۔ انڈیا تو بوفورز توپیں اور ایئرفورس لے کر آگیا۔ سب سے زیادہ قیمتی چیز کیا ہے، جان! ہمارا بہت جانی نقصان ہوا۔‘

لیکن اس قدر جانی نقصان کے باوجود کارگل کرنے والے جرنیلوں کا احتساب کیوں نہیں ہوا، اس سوال کے جواب میں مشاہد حسین نے کہا ’ہمارے دوہرے معیار ہیں اور ہم خوف زدہ ہیں۔ ہمارے ہاں خفیہ فیصلے ہوتے ہیں۔ ہم تو اپنے سائے سے ڈرتے ہیں۔ اس (کارگل کی لڑائی) کی ذمہ داری کبھی کسی پر عائد نہیں کی جائے گی۔‘

’کارگل لیکس‘

سابق وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا کہ کارگل کے وقت فوج کی اندر بھی کوئی ہم آہنگی اور ربط ضبط نہیں تھا۔

’ایک تو فوج میں سینیئر سطح پر صرف چار یا پانچ لوگوں کو پتا تھا۔ کور کمانڈرز بھی لاعلم تھے۔ پھر مسلح افواج کی تین شاخیں ہیں: بری، بحری اور فضائی۔ بری فوج کمانڈرز اور چار لوگوں کے علاوہ فضائی اور بحری لوگوں کو تو پتا ہی نہیں تھا۔‘

مشاہد کہتے ہیں کہ بحری اور فضائی فوج کے سربراہوں نے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سے شکوہ کیا تھا کہ انھیں کارگل کے منصوبے کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔

واجپائی کا دورہ دوریوں کی وجہ؟

مشاہد حسین کہتے ہیں کہ کارگل سے پہلے فوج اور حکومت کے درمیان ورکنگ ریلشن شپ ٹھیک تھا لیکن واجپائی کے لاہور کے دورے سے پہلے ایک اخبار میں شہ سرخی شائع ہوئی کہ فوج نے واجپائی کا استقبال کرنے سے انکار کردیا ہے۔

’کچھ لوگ شاید خوش نہیں تھے حالانکہ عجیب سی بات ہے کہ آج کل تو ہم منتیں کرتے ہیں مودی صاحب سے کہ آپ ہم سے بات کریں۔ آنے کی تو بہت دور کی بات ہے۔‘

’چاہے وہ شرارت تھی یا کسی نے خبر دی۔ اس سے یہ تاثر گیا کہ فوج یا اس میں کچھ عناصر شاید خوش نہیں ہیں اور ہو سکتا ہے یہ وہ ہی ہوں جو کارگل منسلک تھے۔‘

’کورٹ مارشل یا مارشل لا‘

مشاہد حسین کہتے ہیں کہ کارگل کے بعد نوازشریف اور اس وقت کے فوج کے سربراہ پرویز مشرف کے درمیان بداعتمادی پیدا ہوچکی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ اس خلیج کو دور کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن بالاآخر کارگل سے شروع ہونے والا تناؤ اکتوبر 1999 کے مارشل لا پر منتج ہوا۔

’17 مئی کو کارگل پر ہونے والی بریفنگ میں مجھے ایک فوجی ملا۔ میں نے اس سے صورتحال پوچھی تو اس نے کہا سر یا کورٹ مارشل ہو گا یا مارشل لا اور ایسا ہی ہوا۔‘

بشکریہ بی بی  سی

Advertisements
julia rana solicitors london

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply