وہ ایک دیوانہ جو ہر لمحے میں مرتا گیا۔۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

اچانک اُس کی آنکھ کُھلی اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی اُس نے اتنا جان لیا کہ اُس کی اماں رو رہی ہے وہ کچھ لمحے یونہی لیٹا رہا اور رونے کی آواز سنتا گیا کہ اچانک کمرے کا دروازہ کُھلا اور اُس کی اماں کمرے میں داخل ہوئی، کمرے میں تاریکی تھی اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا مگر اُس نے جان لیا تھا کہ دروازہ کُھلتے ہی اُس کی اماں نے اُن سب کو روتے ہوئے اُٹھنے کے لئے کہا تھا اُس کے ساتھ اِس کمرے میں اُس کی چار بہنیں بھی سو رہی تھیں، ان سب کی عمریں اُس سے زیادہ تھیں ، سب جاگ کر اٹھ بیٹھے تھے کہ اِسی دوران کمرے کے دیوار پر لگا ہوا زرد رنگ کا بلب جل اُٹھا اور روشنی پھیل گئی، اُس نے ماں کی صورت دیکھی جو خاصی حواس باختہ لگ رہی تھی ناجانے کیا ہوا تھا کہ اِسی لمحے ماں نے اُن کے ابا کا نام لیا اور ساتھ ہی کہنے لگی کہ اُن کا ابا سانس نہیں لے رہے ہیں، وہ سب چونک پڑے اور جلدی سے اُس کمرے کی طرف دوڑے  ، جہاں ابا سو رہے تھے، کمرے میں داخل ہوتے ہی انہوں نے دیکھا کہ اُن کے ابا چارپائی پر سیدھے بےسُدھ پڑے ہوئے ہیں وہ قریب گیا اُس نے ابا کے سینے پر اپنا دایاں کان جُھکا دیا اور کچھ سننے کی کوشش کرنے لگا اُس کا سر بہت دیر تک ابا کے سینے پر جُھکا رہا مگر لاحاصل ،کچھ  نہ  ملا۔۔۔۔ اُس کے ابا کی دل کی دھڑکن ساکت تھی وہاں دھڑکن کی آواز روٹھ کر کہیں بہت دور چلی گئی تھی، اُس نے اماں کی طرف دیکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اِس کے ساتھ ہی اُس کی بہنیں اور خود اماں بھی دھاڑیں مار کر رونے لگی اُن کے ابا اِن سب کو اکیلا چھوڑ کر دوسرے جہاں کے سفر پر جا چکے  تھے۔

ابا کی تدفین ہو چکی تھی آس پڑوس کے ساتھ ساتھ اپنے پرائے اور رشتہ دار بھی اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے تھے گھر میں اگر کوئی تھا تو وہ صرف وہی ایک بھائی اماں اور چار بہنیں تھی اور اُن کے سوا چار دیواریں اور ایک چھت، تقریباً ایک ماہ گزر گیا وہ آہستہ آہستہ سنبھل رہے تھے ابا کے جانے کا غم بُھلانا کافی مشکل تھا مگر زندگی بھی ابھی باقی تھی اور وہ اُن کو کاٹنی تھی سو وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اُن کی اماں کے پاس موجود ایک ایک پیسہ ختم ہوتا گیا آخر وہ دن آن پہنچا جب کچھ دن بعد اُن کے پاس شاید کچھ نہ ہوتا، اِسی دوران اُس نے سوچا کہ اب اُسے کچھ کام کاج ڈھونڈنا چاہیے  کیونکہ اتنا تو وہ جانتا تھا کہ سب کچھ خریدنے کے لئے پیسہ ضروری ہے اور پیسہ آسمان سے زمیں پر نہیں آتا بلکہ اُس کو زورِ بازو سے چھلانگ لگا کر پکڑنا ہے، دوسرے دن ہی اُس نے اماں کو بتایا کہ وہ کام ڈھونڈنے جا رہا ہے تو اُس کی اماں کی آنکھوں میں آنسو ڈ جھلملانے لگے اُس سے وہ آنسو دیکھے  نہ  گئے اور گھر سے نکل گیا۔

آج اسے کام کرتے ہوئے دسواں دن تھا وہ ایک موٹرسائیکل ٹھیک کرنے والے کے ساتھ کام پر لگ چکا تھا جو اُسے دن کے پچاس روپے دیہاڑی دیتا تھا شام کو جب وہ جاتا تو اُس کے دل کو عجیب سا سکون محسوس ہوتا شاید وہ اِس وجہ سے کہ اب اُس کی اماں کی آنکھوں میں آنسو نہیں آتے تھے وہ جاتے ہی پچاس روپے اماں کے ہاتھوں میں دے دیتا اور اماں کی زباں سے دعائیں بہار کے پھولوں کی طرح مہکنے لگتیں ، اُس کا جسم دن بدن بڑھتا رہا برسوں بیت گئے، اور وہ پچاس روپے روز لاتا رہا اب وہ پچاس روپے پانچ سو میں تبدیل ہوچکے تھے کہ آخر ایک دن آیا کہ جب اُس کے مالک نے اُس کو کہیں اور کام ڈھونڈنے کا کہا کیونکہ مالک نے اپنی دکان کسی اور کو بیچ دی  تھی ، اُس دن وہ بہت اداس رہا اور گھر آکر بھی وہ ساری رات اِنہی سوچوں میں گُم تھا کہ کل اُس کے پچاس روپے کہاں سے آئیں گے ناجانے کب اُس کی آنکھیں بند ہوئیں  اور وہ خوابوں کی دنیا میں چلا گیا۔

بیٹا تانگہ ذرا تیز چلانا ہمیں دیر ہو رہی ہے، اُس نے یہ آواز سنی جو تانگے میں بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے کی تھی جو کہیں جارہا تھا، اُس نے تانگے کے دونوں بازو اپنے ہاتھوں کے پنجوں میں مضبوطی سے پکڑے اور قوت صرف کرکے اُسے اٹھایا اور چل پڑا سارا راستہ اُس نے کافی تیز رفتاری کے ساتھ طے کیا باوجود اِس کے کہ وہ سارا پسینے میں شرابُور تھا سخت گرمی اور پیاس کی شدت کے ، وہ نہیں رکا اور ایک ہی باری  میں اپنی سواریوں کو مطلوبہ مقام تک پہنچا دیا، بوڑھا شخص تانگے سے اترا اور اُس کو کرایہ دے کر ایک طرف چل پڑا اُس نے اِسے جاتے دیکھا اور پھر یہاں وہاں نظریں دوڑانے لگا کسی دوسری سواری کے لئے لیکن کوئی نہ ملا اُس نے تانگہ کھینچا اور ایک سایہ دار جگہ پر کھڑا ہوگیا کچھ ہی دور ایک پانی کے مٹکے سے پانی پیا اور پھر آکر تانگے کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔

بیٹا نرگس اب بڑی ہوگئی ہے اور اب اُس کی شادی کرنے کی عمر ہے زیادہ دیر تک کنواری بیٹی کو گھر بیٹھانا اچھا نہیں سمجھا جاتا، اُس کی ماں نے ایک دن اُس کو کہا اور وہ سوچنے لگا کہ واقعی اُس کی اماں ٹھیک کہہ رہی تھی مگر وہ کیا کرتا تانگے کی مزدوری میں اتنا منافع نہیں تھا کہ وہ کچھ بچا لیتا گھر کی دال روٹی ہی بڑی مشکل سے آجاتی اُس کی کمائی میں، تاہم اُس نے ایک گہرئی سانس لی اور سوچ میں ڈوب گیا۔

اُس نے اپنے شانوں پر موجود گرد کو ہاتھوں سے جھاڑا اور رسی اپنے کمر کے گرد باندھ کر اُس بُلند و بالا عمارت سے نیچے اُترنے لگا تین مہینے ہوچکے تھے اب وہ تانگہ چلانے کے ساتھ ساتھ اِس جگہ بھی کام کرتا تھا دن کو یہاں آجاتا اور شام کے بعد ریل سٹیشن پر چل کر سواریاں اٹھاتا اب اُس کے پاس کچھ پیسے بچ جاتے جو وہ بہت احتیاط کے ساتھ رکھ لیتا تاکہ بڑی بہن کی شادی کا خرچ پورا کرسکے دن  گزرتے  گئے اور وقت کے گھوڑے نے ہوا میں اُڑان بھری دس سال پانچ مہینے اور بیس دن کیسے گزرے کچھ معلوم نہ تھا اگر اِن دس سالوں میں کچھ ہوا تھا تو وہ یہ کہ اُس نے ہر وہ مزدوری کی جہاں سے اُس کو کچھ ملا، بوجھ اٹھایا، تانگہ چلایا، سبزیاں بیچی، کدال لے کر زمین کا سینہ چاک کیا، ایسے کتنے ہی کام اُس نے کئے اسے خود بھی یاد نہیں تھا اور اُس کے ساتھ ہی اُس کی  چاروں بہنوں کی شادیاں بھی ہوگئی تھیں ، اُس کی اماں کے بالوں میں سفید چاندنی بکھر  گئی تھی وہ بھی اب زندگی کے اُس دور میں تھا جہاں انسان کو کسی دوست کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، ایک دن ماں نے اس سے کہا کہ بیٹا تمھارے لئے ایک لڑکی دیکھی ہے اُس نے اماں کو کچھ نہ کہا اور سر جھکا دیا۔

اُس کی شادی ہو گئی اور وہ اب کچھ پرسکون سا رہنے لگا مگر یہ سکون اُس دن ختم ہوا جب اُس کے گھر میں ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی شادی کے بعد ذمہ داری اور بڑھ گئی اور اب تو اولاد بھی آگئی تھی اب وہ رکشہ چلا رہا تھا جوکہ ایک دوست نے اُسے قسطوں پر دلا دیا تھا۔

اس کے بالوں کا رنگ سفید ہونے لگا تھا آج وہ تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کا باپ تھا اُس کی اماں بھی اُسے چھوڑ کر آبا کے پاس جاچکی تھی، وہ کبھی کبھی سوچتا کہ اُس نے زندگی میں کام محنت مشقت کے سوا کیا ہی کیا ہے؟ مگر پھر مسکرا دیتا اور اپنے بہنوں اور جوان بیٹیوں کے بارے میں سوچنے لگتا، بیٹیاں بھی اب جوان تھیں اور اُن کی شادیاں بھی کرنی تھی آج اُس کے رکشے میں دو لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھی جو کسی فنکشن میں جانے کی باتیں کر رہی تھی وہ رکشے کو دوڑاتا رہا اور کچھ ہی دیر بعد اُس جگہ پہنچ گیا اُس نے دیکھا کہ بہت سی لڑکیوں نے کچھ کاغذ کے بڑے بڑے ٹکڑے اُٹھائے ہوئے تھے جن پر مختلف قِسم کے جُملے لکھے ہوئے تھے اُس نے ایک لڑکی کی طرف غور سے دیکھا اور پھر اُس کی آنکھوں میں اپنی اماں کی طرح آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ آیا اُس نے لڑکی کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے بورڈ کو غور سے دیکھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ

Advertisements
julia rana solicitors

” ہمیں مردوں کی غلامی قبول نہیں ہمیں آزادی چاہیئے”
لڑکی نے بھی شاید اُس کو دیکھا دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں  اور لڑکی کی آواز آئی ” ابا آپ”!

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply