اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔۔۔راحیلہ کوثر

بہت دنوں سے لکھنا چاہ رہی تھی مگر ملکی سیاسی گہماگہمی بھرے ماحول کو دیکھ دیکھ کر کوفت سی ہونے لگتی اور سوچتی کہ اس گڈ مڈ اور الجھاؤ سے بھرے ماحول میں مَیں کیا لکھوں؟پھر اسی دوران پیش آنے والے ٹرین حادثے نے مزید صدمہ پہنچایا دوسری جانب میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہر نئی آنے والی خبر گزشتہ خبر کوتیزی سےدھندلاتی رہی۔سیاسی حلقوں میں الگ بھگدڑ کا سماں بندھا ہوا ہے جس نے بے چاری غریب عوام کو خوب روند رکھا ہے۔ان تمام حالات سے بیزاری کے باوجودسوشل میڈیا اور میڈیا پر آئے روز کےسیاسی طوفان بدتمیزی کے ماحول میں اقبال کے قول کے عین مطابق عوام کی شجر سے پیوستگی قائم ہے۔

اپنی تحریر کا باقائدہ آغاز کرنے سے پہلے بتاتی چلوں کہ میں ایک غیر جانب دار انسان ہوں اور ججمنٹل بھی نہیں اور نہ ہی ایسے مکاتب فکر کے افراد سے میری کبھی ذہنی ہم آہنگی ہو پائی ہے ۔
میرا ماننا یہی ہے کہ انسان پیدا تو معصوم فطرت پر ہی ہوتا ہے مگر جیتا اپنی فطرت پر ہے اور مرتا قانون فطرت کے مطابق ہے۔ یہ دنیا اور انسان ہوا، مٹی اور پانی سے ہی مل کر تخلیق ہوئے ہیں اسی لیے خواہ اچھے حالات ہوں یا بُرے، یہ دونوں ایک دوسرے کو ہی قبول کر کے وقت گزار رہے ہیں۔ خیر فلسفہ میرا عنوان نہیں مگر شاید میری فطرت میں ہے۔ چونکہ میں غیرجانبدار ہوں اس لیے میں سبھی جمہوری اور سیاسی اہلکاروں  کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہوں۔

میں نے دسویں جماعت میں پڑھا تھا کہ جمہوریت میں جمہور کو حاکمیت اعلی حاصل ہوتی ہے جبکہ حاکم تو خدمت گار ہوتا ہے اس کا منصب اور اختیارات امانت ہوتے ہیں ۔ مگر ہمارے جمہوری نمائندگان انتخابات میں کامیاب ہوتے ہی دنیا کےاس قدر قیمتی ترین اور مہنگے ترین انسان بن جاتے ہیں کہ غریب جمہور کی دسترس سے باہر ہو جاتے ہیں۔ کرسی پر براجمان ہوتے ہی اپنے قول سے پھر جاتے ہیں کبھی کبھی یا ہر بار ہی بولتے تو وہ ہیں مگر وہ نہیں بولتے ، بولتی ہے ان کی کرسی اور اس کے پائے اور ان پائیوں کو جمود بخشنے والی زمین کو جمائے رکھنے والے ان کی زباں سے بولتے ہیں۔کچھ وقت گزرتے ہی ان کے چہروں پر کئی چہرے پیوست ہوجاتے ہیں اور ان کا اصل چہرہ مسخ ہوجاتا ہے۔ درجہ بالا پر پہنچتے ہی یہ لوگ بڑی بے رحمی سے جمہور کو روندتے ہوئے طبقاتی مفادات کے قوانین بنانے لگتے ہیں اور اس دبی ہوئی عوام پر مسلط کر دیتے ہیں ۔ جبکہ میں نے تو گریجویشن میں پڑھا تھا کہ جمہوریت ایک اسلوب شرافت ہے جو سب انسانوں کو برابر سمجھ کر احترام سیکھاتا ہے۔ مگر گرد و نواح کے حالات دیکھ کر باور ہوا کہ کتب نے بھی ہم سے ٹھٹھا ہی کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یا پھر ہمارے جمہوری نمائندگان جمہوری طرز فکر کو اپنے لیے مضر صحت گردانتے ہیں اور تو اور اس بات سے بھی  خائف ہی رہتے ہیں کہ کہیں عوام کو جمہوریت کے حقیقی مفہوم معلوم نہ ہو جائیں ۔ انہی مقاصد کے حصول کے لیے سیاسی جوڑ توڑ اور تو اور گٹھ جوڑ کرنے والوں نے اسے اپنے اپنے سانچوں میں ڈھال رکھا ہے اور یہ سب اپنی اپنی ڈفلی پر اپنا اپنا راگ الاپنے میں مصروف ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں جو خواب سلطنت رکھتی ہیں سوشل میڈیا کو بطور نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرا رہی ہیں۔ دوسری جانب سوشل میڈیا نے بھی سب کو اپنی اپنی ڈفلی تھما رکھی ہے اور یوں ڈفلی والے جمہور اور جمہوری جماعتیں سات سروں سے بھی آگے کسی آٹھویں نویں سُر پر سوار ہو کر نئے نئے راگ الاپنے میں مگن ہیں۔ اس بے ہنگم شورش نے سامعین کو درد شقیقہ میں مبتلا کر رکھا ہے مگر چونکہ وہ سامعین بن چکے ہیں تو دہ گولی ڈسپرین لیتے جائیں اور ہمت بڑھاتے جائیں۔ بھئی یہ جدید دور ہے جہاں ٹک ٹاک والے خود کو آرٹسٹ تصور کرتے ہیں تو ایسے میں اگر ہر جماعت کا جیالہ خود کو ایک بہت بڑا مفکر گردانتا ہے تو بپرا کیوں مانیں۔۔۔۔let them carry on کیونکہ ہر جماعت کے پیروکار کے پاس اپنے اپنے دلائل موجود ہیں بحث یا تو بی پی ہائی کرے گی یا ٹپمرامنٹ ہیں تو دونوں ہی مضر صحت توایسے میں تیرا کمال یہ ہے کہ تو با کمال رہے۔ دلائل سے یاد آیا کہ سبزیوں کے بھاؤ تاؤ پر بھی پچھلے دنوں کافی بیانات آئے اور جب ان بیانات کو درست ثابت کرنے والے دلائل سامنے آئے تو مجھے دسویں جماعت کی ریاضی کی وہ نشست یاد آگئی جس میں استانی صاحبہ نے پہلی بار مسئلہ فیثہ غورث سمجھاتے ہوئے دلائل سے عمودی کو عمودی اور متوازی کو متوازی ثابت کیا تھا اگرچہ وہ دلائل سچ تھے تو ثابت بھی ہوگیا مگر آج کے سبق کا سنک کافی زیادہ ہلا ہوا ہونے کے سبب منظر سے مطابقت رکھنے سے قاصر تھا تو دلائل سر کے اوپر سے ہی گزر گئے۔ خیر اب تو عادت سی ہے سب کو ایسے جینے کی، جینے سے اردو بی کی ایک اور چھٹی جماعت کی نشست یاد آگئی  جس میں مَیں نے پہلی بار یہ مضمون پڑھا تھا کہ تندرستی ہزار نعمت ہے سچ پوچھیے تو وہ بھی نصاب کا ہم سے ایک ٹھٹھا ہی تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply