بلوچ لانگ مارچ پنجاب میں داخل

(عامر حسینی چیف رپورٹر) جنوبی پنجاب بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف جاری لانگ مارچ رکھنی کے راستے سے ڈیرہ غازی خان پنجاب میں داخل ہوگیا. لانگ مارچ کے شرکاء نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں نے لانگ مارچ کا استقبال کرنے والوں پر لاٹھی چارج کیا کئی ایک کو گرفتار کرلیا۔گرفتار ہونے والوں میں مرد اور خواتین بھی شامل ہیں۔

اطلاعات کے مطابق لانگ مارچ کے شرکآہ نے گرفتار شدگان کی رہائی کے لیے ڈیرہ غازی خان میں گدائی چنا ٹرک اڈا کے قریب مرکزی شاہراہ پر دھرنا دے رکھا ہے۔ دھرنے کی صبح کے وقت کی تصویر بلوچ یک جہتی کمیٹی ڈیرہ غازی خان کے آفیشل ایکس اکاؤنٹ پر جاری کی گئی ہیں اور یہ بھی اطلاع دی گئی ہے کہ 12 بج کر 30 منٹ دوپہر کو بلوچ یک جہتی کمیٹی کی طرف سے گرفتار شرکاء کی رہائی کے لیے گدائی چنی ٹرک اڈا کے سامنے شاہراہ پر احتجاجی جلسہ بھی کیا جائے گا-

سماجی رابطے کی ایپ ‘ایکس’ پر بلوچ یک جہتی کمیٹی کی رہنما اور لانگ مارچ کو منظم کرنے والوں میں سے ایک نمایاں بلوچ خاتون کارکن ڈاکٹر مہ رنآ بلوچ نے اپنے سرکاری ہینڈل سے پوسٹ کی جس میں انھوں نے لکھا:

“ہمارا لانگ مارچ ڈیرہ غازی خان پہنچ چکا ہے۔ ظالمانہ ریاستی جبر نے ڈیرہ غازی خان سے بہت سے نوجوانوں کو جبری طور پر غائب کر دیا ہے اور اس عوامی ابھار کو روکنے کے لئے خواتین اور بچوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس کے باوجود ڈیرہ غازی خان کے عوام کو مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔”

ایک اور پوسٹ میں انھوں نے براہ راست ریاستی انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ وہ ڈی جی خان میں لانگ مارچ کو خوش آمدید کہنے والے خواتین، بچوں اور نوجوانوں کو گرفتار کررہی ہے اور انھوں نے اس اقدام کو ریاستی انتظامیہ کے کمزور ہونے، خوفزدہ ہونے اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوجانے کی علامت قرار دے ڈالا-

بلوچ لانگ مارچ میں شریک ایک اور سرگرم کارکن سمی دین محمد بلوچ نے بھی ڈیرہ غازی خان میں لانگ مارچ کے شرکاء کا استقبال کرنے والی خواتین، بچوں اور نوجوانوں کی گرفتاری کی مذمت کی – انھوں ایکس ایپ پر دی بلوچستان پوسٹ کی ایک وڈیو اپ لوڈ کی ہے جس میں پنجاب پولیس کی خواتین اہلکاروں کی جانب سے کچھ خواتین کو پکڑ کر قیدی وین میں بٹھاتے دیکھا جاسکتا ہے۔ سمی دین بلوچ کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے ریاست کے حصّے میں مزید نفرت آئے گی-

پاکستان کے مرکزی دھارے کی قریب قریب تمام سیاسی جماعتوں نے تربت سے چلنے والے بلوچ لانگ مارچ بارے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کے شعبہ اطلاعات و نشریات اور ڈیجیٹل میڈیا ونگز سے باضابطہ طور پر بلوچ لانگ مارچ بارے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز جس کے سربراہ میاں محمد نواز شریف ‘نیا لاڈلا’ ہونے کا الزام شد و مد سے سامنے آرہا ہے، انھوں نے بھی لانگ مارچ کے حق میں کوئی بیان نہیں دیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف جس کا کہنا ہے کہ اس کے خلاف ریاستی جبر روا رکھا جارہا ہے – انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں- اسے اپنے کارکنوں اور رہنماؤں کے جبری گمشدہ ہونے کا دعوا ہے۔ اور اس نے پاکستان کے سیکورٹی اور خفیہ اداروں پر اس کی قیادت اور حامیوں پر تھرڈ ڈگری کے استعمال کیے جانے کا الزام عائد کیا ہے نے بھی باضابطہ طور پر اپنے آفیشل چینل سے بلوچ لانگ مارچ کی حمایت نہیں کی ہے۔ اس پر پاکستان تحریک انصاف پر کئی حلقے تنقید بھی کررہے ہیں-

پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری بلوچ رہنماؤں کی طرف سے شدید تنقید کی زد میں ہیں- ان رہنماؤں کا کہنا ہے پیپلزپارٹی کی قیادت کے قول و فعل میں واضح تضاد ہے۔ – ان کی تنقید کا سبب یہ ہے کہ اس کی قیادت نے پاکستان پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس پر کوئٹہ بلوچستان میں جلسہ عام اور ایک پریس کانفرنس میں بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگی اور جعلی مقابلوں میں مار دیے جانے جیسے عمل کی مذمت کی تھی لیکن اس سے اگلے روز پی پی پی کے آفیشل ڈیجیٹل میڈیا ونگ نے آصف علی زرداری کے ساتھ انتہائی متنازعہ شخصیت شفیق مینگل کے ساتھ ملاقات کی خبر اور تصویر جاری کردی- اس کے بعد بلاول بھٹو کی موجودہ نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے ساتھ پریس کانفرنس کو براہ راست آفیشل اکاؤنٹس سے نشر کیا گیا-

آج جب بلوج لانگ مارچ پنجاب کی حدود میں داخل ہوا تو پی پی پی کے چیئرمین کی جمال ریئسانی کے ساتھ ملاقات کی تصاویر جاری ہوئی ہیں۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا تینوں شخصیات بلوچ نسل کشی میں ملوث اور بطور آلہ کار استعمال کی جارہی ہیں- ان کا پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اسلام آباد کی جانب سے جاری مبینہ بلوچ نسل کشی میں مددگار بننے جارہی ہے۔

پختون قوم پرست سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے نوجوان مرکزی رہنما ایمل خان ، جمعیت علمائے اسلام -ف کے مرکزی صدر مولانا فضل الرحمان ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے بھی بلوچ لانگ مارچ پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ جبکہ نیشنل پارٹی -بزنجو گروپ کے سربراہ سابق چیف منسٹر ڈاکٹر عبدالمالک نے بھی لانگ مارچ بارے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ انتخابی سیاست میں فعال پاکستان کی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں چاہے وہ وفاق پرست ہیں یا قوم پرست ان کی قیادت بلوچ لانگ مارچ اور اس کے پیچھے متحرک مطالبات سے صرف نظر کررہی ہیں- اور ان اے انتخابی ایجنڈوں میں بھی اس پر کوئی واضح لائن دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔

پاکستان کے معروف میڈیا گروپ کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور ڈیجیٹل ویب سائٹس پر بلوچ لانگ مارچ کی کوریج کی غیر اعلانیہ سنسرشپ جاری ہے۔

اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں اور میڈیا گروپوں نے بلوچستان پر اسٹبلشمنٹ سے منحرف سمجھے جانے والے سیاسی و سماجی گروپوں اور افراد اور ان کے ہاں موجود انتہائی سلگتے مسائل پر موجود رائے کو ‘ریڈ لائن’ سے پار کا معاملہ قرار دے ڈالا ہے۔ اور وہ اسے دوریپر نظر آتے ہیں- اس بات پر اختلاف ہے کہ سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی یہ کریزپائی ‘خودساختہ/ خود مسلط کردہ یا باہر سے نافذ شدہ’ ہے۔

بلوچ یک جہتی کمیٹی مارچ نے 6 دسمبر 2023ء کو تربت سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا- یہ اعلان کمیٹی نے تربت میں انسداد دہشت کردی پولیس ڈیپارٹمنٹ بلوچستان کی جانب سے ایک مبینہ جعلی مقابلے میں چار بلوچ نوجوانوں کی ہلاکت کے خلاف دھرنے میں کیا تھا- بلوچ لانگ مارچ 11 دن میں بلوچستان سے سفر کرکے 11 دن میں پنجاب کے شہر ڈیرہ غازی خان پہنچا ہے۔ اسلام آباد میں بھی بہت سارے جبری لاپتا ہونے والے لوگوں کے خاندان کے افراد جن میں خواتین نمایاں ہیں دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور بلوچ یک جہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کا اسلام آباد پہنچنے کا انتظار کررہے ہیں-

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ خبر والے

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply