یہ فلسطینی شاعر رفات العریر کی آخری نظم کی پہلی دو لائنوں کا آزاد ترجمہ ہے۔ اس لمحے دنیا میں یہ سطریں شاید سب سے زیادہ دہرائی جارہی ہیں ۔ سوگ کی فضا میں ، اصل انگریزی نظم یا اس کے تراجم پڑھے اورسنے جارہے ہیں۔ رفات العریر ماردیا گیا ہے، ا س کی نظم زندہ ہے، اور دنیا کو العریر اور ہر فلسطینی کی کہانی سنارہی ہے۔
فلسطین میں ایک صدی سے ، اور خاص طور پر تین ماہ سے جو کچھ ہورہا ہے، اس سے غزہ کا ہر شہری موت کو ایک سانس کی دوری پر محسوس کرتا ہے۔ رفات العریر کوبھی احساس تھا کہ وہ مار دیا جائے گا۔ اسے یہ احساس ایک اور سبب سے بھی تھا۔ وہ غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں انگریزی کا پروفیسر تھا۔ انگریزی میں نظمیں اور مضامین لکھتا تھا۔ اسے تدریس ، ادب اور شاعری سے دلی لگاؤ تھا۔ ایسے لوگوں کی سب سے بڑی آرزو امن اور فرصت ہوا کرتی ہیں۔
وہ اپنی یونیورسٹی میں ایک پراجیکٹ سے وابستہ تھا: ہم اعداد نہیں ہیں۔ یعنی ہم فلسطینیوں کو گنا نہ جائے، ہمیں ناموں سے ، اپنے اصل عر ب ناموں سے پکارا جائے اور یا دکیا جائے۔ عدد میں شناخت گم ہوجاتی ہے۔ نام شناخت دیتا ہے اور شناخت کو باقی رکھتا ہے۔یہ پراجیکٹ نئے مصنفوں کی تخلیقی کاوشوں کو مہمیز کرنے کا منصوبہ ہے۔
اس نے انگریزی کو اس لیے ترجیح دی کہ وہ اس زبان کے ذریعے، دنیا کو فلسطینیوں کی تارتارروح اور اسرائیل کا بھیانک چہرہ دکھاسکے۔ جو اپنے چہرے کو بھیانک بناتے ہیں ، وہ سب سے پہلے خود ہی سے خوف زدہ ہوتے ہیں ۔ وہ اپنی اصل صورت کا سامنا نہیں کرسکتے۔وہ ایسے شاعروں کا سامنا نہیں کرسکتے جو اپنے اور اپنے لوگوں کی حالتوں کے بیان میں ان کی جانب اشارہ بھی کرتے ہیں ۔
رفات العریر ایک مختصر نظم میں کہتاہے: دو قدم: ایک، دو۔آئنے میں دیکھو۔دہشت ، محض دہشت۔فلسطینیوں کے آئنے میں دہشت اور صرف دہشت ہے۔ وہ اسی دہشت کو لکھتا تھا ۔ ایک شاعر یہی کرسکتا ہے۔ایک شاعر کو یہی کرنا چاہیے۔ اپنے زمانے کی تاریکی کو ا س کی تمام تر ہیبت کے ساتھ لکھنا چاہیے۔
چوالیس سالہ رفات کو اس کے گھر میں ، اس کے بھائی ، بہن اور بہن کے چار بچوں سمیت مار دیا گیا۔ ایک پورا خاندان تباہ کردیا گیا۔ جو بستیوں ، شہروں کو برباد کردیتے ہیں،ان کے لیے ایک گھر،ایک خاندان کی تباہی کیا معنی رکھتی ہے۔طاقت،بارود،نفرت کےلیےزندگی کےمعنی اورہوتےہیں۔
رفات العریر نے ۲۰۱۵ء میں ایک کتاب مرتب کی تھی : Gaza Unsilenced ۔ ۲۰۱۴ء میں جب اسرائیل نے غزہ پر اسی طرح بمباری کی تھی ،جیسے وہ آج کررہا ہے تو اس نے فلسطینیوں کی مصائب بھری کہانیوں کو جمع اور یک جا کیا تھا۔ مزاحمت کی یہ سب سے طاقت ور اورمئوثر صورت ہے۔
آپ یادداشت کو نہ مرنے دیں۔ جو کچھ آ پ کے ساتھ اس دنیا کے عفریت کرتے ہیں، آپ اس سب کو اپنی نظموں ، کہانیوں ، تحریروں میں محفوظ کریں ۔ دوسروں کی لائی ہوئی مصیبت کو اپنی یادداشت کی سچائی اور تخیل کی طاقت کے ساتھ ، اہل جہاں کے سامنے رکھیں،خدا کے سامنے رکھیں، تاریخ کے سامنے رکھیں،انسانی ضمیر نام کی کوئی شے ہے تو اس کے سامنے رکھیں۔
دہشت انگیز موت کی چیخوں اور بے گھر کردیے جانے کے جاں لیوا صدمے کو ہوا کا رزق نہیں بننا چاہیے۔انھیں زبان ،قلم اورتصویر میں آنا چاہیے۔ جہاں ان واقعات کو بھلا دیا جاتا ہے، وہاں ان واقعات کو نہ صرف کثرت سے دہرایا جاتا ہے ، بلکہ وہاں کے رہنے والے اپنی آخری متاع سے بھی محروم ہوجاتے ہیں: آبرو کی موت۔ رفات کی موت ، آبرو مندانہ موت ہے۔
وہ موت کے وقت شمالی غزہ میں اپنے قصبے شجاعیہ میں موجود تھا۔ اسے موت کا یقین تھا،مگر اس نے اپنا گھر چھوڑا نہ حوصلہ۔اسے کسی محفوظ جگہ منتقل ہونے کی ترغیب دی گئی،مگر اس کا اصرار تھا کہ وہ ایک استاد، شاعر اور عام شہری ہے۔ وہ اپنے بارے میں بالکل درست کہہ رہا تھا مگر غاصب سے متعلق اس کا اندازہ درست نہیں تھا۔ العریر نے ۷ اکتوبر کے حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں ، اس حملے پر تنقید سے گریز کیا تھا۔ یہ جرم معمولی نہیں تھا!
وہ یہ بھی کہتاتھاکہ وہ اس کےگھرکی طرف آنےوالےاسرائیلی سپاہی کےچہرےپرقلم پھینکے گا۔معلوم نہیں،وہ ایساکرسکایانہیں مگراس منظرکوتخیل میں دیکھیں تویہ صرف اپنےدفاع کی انوکھی صورت ہی نہیں،آخری سانس تک ایک آبرومندانہ طرززندگی کوبرقراررکھنےکی روش بھی ہے!
قلم،وہ کہانیاں سناتارہتاہےجنھیں بندوق ختم کرنےکےدرپےہوتی ہے۔
اس نے بس ایک پیغام چھوڑا کہ اگر میں مار دیا جاؤں تو تم زندہ رہنا، تاکہ تم دنیا کو میری کہانی سنا سکو،یعنی فلسطین کی کہانی۔ اس وقت لاکھوں لوگ اس کی کہانی ، دنیا کو سنارہے ہیں۔ ایک نظم ، ایک غاصب کے خلاف استغاثہ بنی ہوئی ہے۔
ایک نظم کی سرگوشی ،ایک بم کے دھماکے سے زیادہ دور تک سنی جاسکتی ہے
تاریخ کے ایوانوں میں بھی ، جو موٹی فصیلوں میں گھرے ہیں
لیکن کیا ایک نظم ، دنیا کے مقہور انسانوں کی تقدیر کو بدلنے کی تمہید بن سکتی ہے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں