اب نہیں، تو کب؟۔۔رانا اورنگزیب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی حدود کو نافذ کرو، خواہ کوئی قریبی ہو یا دور کا، اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا نہ کرو (سنن ابن ماجہ 2540)
ایک مخزومی عورت کا معاملہ جس نے چوری کی تھی، قریش کے لوگوں کے لیے اہمیت اختیار کر گیا اور انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملہ میں کون بات کر سکتا ہے اسامہ رضی اللہ عنہ کے سوا، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پیارے ہیں اور کوئی آپ سے سفارش کی ہمت نہیں کر سکتا؟ چنانچہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کیا تم اللہ کی حدوں میں سفارش کرنے آئے ہو۔
 پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور خطبہ دیا اور فرمایا
”اے لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اس لیے گمراہ ہو گئے کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے لیکن اگر کمزور چوری کرتا تو اس پر حد قائم کرتے تھے اور اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد نے بھی چوری کی ہوتی تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کا ہاتھ ضرور کاٹ ڈالتے (صحیح بخاری #6788)
معاشرہ کیا ہے۔معاشرے کی بہت سی تعريفيں کی گئی ہیں۔مگر میرا معاشرہ ایسا ہے کہ ان سب تعریفوں سے ہٹ کے کوئی  ایسی تعریف وضع کی جاۓ جس کی رو سے میرا معاشرہ بھی معاشرہ لگے۔معاشرے میں چند سو لوگ ہوں یا کروڑوں جب تک ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھتے اپنے حقوق لینے اور فرائض ادا کرنے کا شعور ہم میں نہیں آتا ہم معاشرہ نہیں کہلا سکتے۔ ہمارا معاشرہ چیونٹیوں سے بھی گیا گزرا ہے۔میں نے کہیں کسی محدث کا ایک واقعہ پڑھا تھا کہ جھوٹ بولنے پر چیونٹیاں اپنے ساتھی کو قتل کر دیتی ہیں۔ہم چیونٹی جیسی حقیر مخلوق سے بھی گئے گزرے  ہیں۔ بھیڑیا ایک ظالم درندہ ہے مگر اپنے معاشرے میں وہ بھی اپنی برادری کے بزرگوں کا خیال رکھتا ہے معذوروں پر رحم کرتا ہے اپنے بچوں کا خیال رکھتا ہے۔بندریا اپنے بچے کو سنبھال کے سینے سے چمٹاۓ پھرتی ہے دوسرے بندر اس بچے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ہم انسان نہیں ہم جانور کی تعریف پر بھی پورے نہیں اترتے۔کسی بھی جانور کی مثال لیں اسے اپنے معاشرے پر منطبق کر کے دیکھیں وہ اور  ا س کا طرزعمل ہم سے کئی گنا بہتر ہوگا۔
کیا لکھوں؟ کیسے لکھوں؟۔۔ دل سنبھلتا ہی نہیں، کبھی میں قران پاک کھولتا ہوں اور اس ظلم کے بارے پرانی قوموں کا طرز عمل سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔کبھی صحاح ستہ کی ورق گردانی کرتا ہوں کہ دیکھوں اس جرم پر کیا حکم آیا ہے۔کبھی تاریخی واقعات پڑھتا ہوں کبھی پرانے سلاطین کی سوانح عمری پھولتا ہوں۔مگر مجھے بیٹیوں کو زندہ دفن کرنے کے واقعات ملتے ہیں۔مجھے صلیبیوں کے مظالم نظر آتے ہیں کہ وہ بچوں کو ہوا میں اچھالتے اور اپنی تلواروں پر روکتے ،بچے کے ٹکڑے ہوجاتے۔مجھے تاریخ میں کہیں بھی کسی بچے کے ساتھ  زیادتی کرتی کوئی  قوم نظر نہیں آئی  ،کمسن بچیوں کی لٹتی عزت کہیں نہیں دیکھی۔پاکستان بننے کے دنوں میں سینکڑوں نہیں بلامبالغہ ہزاروں بچے سنگینوں میں برچھیوں ،کرپانوں میں پروۓ گئے مگرکہیں کسی معصوم بچے یا بچی کے ساتھ  زیادتی نظر نہیں آئی۔

یہ پڑھیں :   سیکس ایجوکیشن کیا ہے؟ اسلامی معاشرے کے لیے قابل قبول یا نہیں ؟رانا اویس

میں کیا لکھوں اس ظلم پر لکھنا بھی تو دل گردے کا کام ہے۔ قلم نہیں کند چھری ہے جو میرے ہی دل پر چل رہی ہے۔لفظ ہیں کہ قابو میں نہیں آتے ذہن ہے کہ دکھ سے بانجھ ہوچکا۔خیال میں کوئی حرف جم نہیں رہا۔بیٹھتا ہوں دو لفظ لکھتا ہوں کہیں سے کانوں میں آواز آتی ہے پاپا جی۔میں تڑپ اٹھتا ہوں سراسیمگی میں ادھر ادھر دیکھتا ہوں۔کیسے لکھوں میں کیا محسوس کر رہا ہوں۔لفظ مجھ سے روٹھ گئے ہیں۔دل کی نگری میں ماتم ہے مدام ماتم ہے۔میرے حواس سیاہ لباس پہنے سینہ کوبی کر رہے ہیں۔جب چند دن پہلے امان فاطمہ کو اس زمین پر امان نہ ملی تھی دل پر سیاہ چادر تن گئی تھی ،بہت کوشش کی کہ چند سطریں لکھ سکوں مگر قلم بانجھ ہوگیا۔تخیل اجڑ گیا۔جیسے ہی اس معصوم کے لیے لکھنے کی کوشش کی الفاظ گم ہوگئے۔حرف کم پڑ گئے۔انگلیاں اینٹھ گئی۔جب اس بچی کی لاش کی تصوير دیکھی تو کئی دن تک حواس مختل رہے۔ اب زینب لٹ گئی۔زینب کیا گئی دل کا سکون گیا۔سینکڑوں وسوسے دل ودماغ میں زہریلے ناگ بن کے پھنکار رہے ہیں۔
کیا چند دن اخبار ٹی وی اور سوشل میڈیا میں ہنگامہ کرنا،احتجاج توڑ پھوڑ اور سڑکیں بلاک کرنا گھروں میں بیٹھے بچوں سکول و مدرسہ جاتی بچیوں اور کچرے سے ملتی لاشوں کا رستہ روک سکتا ہے۔دل کا خون ہونا سنتے آۓ تھے دل کا خون ہونا اب سمجھ میں آیا ہے۔زینب بیٹی کس کی ہے میں نہیں جانتا۔ان والدین کی ذات برادری قبیلہ قوم کیا ہے، مجھے نہیں علم ،ان کا مسلک کیا ہے ،وہ کس سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔۔ ہاں مگر بیٹی زینب تھی ان کی نہیں میری تھی کہ میری بچی زینب جیسی ہے۔میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو مجھے زینب کی جگہ اپنی بچی کی لاش دکھائی دیتی ہے۔گھبرا کے آنکھیں کھول دیتا ہوں۔
آہ اک اور کلی مسلی گئی۔ایک اور نازک سی گڑیا کو ظالموں نے کچل ڈالا۔ننھی زینب جو کہ گھر سے قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے نکلی۔مگر پھر چاردن کے بعد اس کی لاش کچرے سے ملی۔اگر کوئی  سوچ سکتا ہے سوچ کے دکھاۓ۔اگر سینے میں دل کی جگہ پتھر نہیں رکھا تو بس چند منٹ کیلئے اس معصوم کا تصور کریں۔کسے روئی  ہوگی، کتنا تڑپی ہوگی۔کیسے چلائی  ہوگی۔اس کو اٹھانے والا کوئی  اس کا ہم عمر بچہ تو نہ ہوگا۔ قصور وار کون ہے؟ قانون معاشرہ حکمران یاہم ؟ اگر حکمران مجرم ہیں تو بھی مجرم ہم ہیں کہ ان کو ہم نے چنا ہے اگر قانون کی کوتاہی ہے تو بھی مجرم ہم ہیں کہ قانون بنانے والے ہمارے انتخاب ہیں۔معاشرہ مجرم ہے تو معاشرہ بھی ہم ہی ہیں۔مذہب کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔کہ مذہب تو کسی مجرم کو کسی بھی صورت معافی دینے کے حق میں نہیں ۔
تف ہے ان کی سوچ پر صد حیف ان کے تخیل کی پرواز پر، جن کو زینب کی لاش میں سیاست نظر آتی ہے ،جن کو اس میں مذہب اور مذہبی لوگ مجرم لگ رہے ہیں۔مجرم تو سارا معاشرہ ہے جن کو اسلامی سزائیں وحشیانہ لگتی ہیں۔مجرم تو ہر وہ شخص ہے جو کسی بھی طرح کی قانون شکنی کا مرتکب ہے۔مجرم تو ہر وہ شخص ہے جو کسی بھی طرح کی قانون شکنی کا مرتکب ہے۔سب ہی لکھ رہے بول رہے  ہین ،ہر کوئی  زینب کی لاش پر کھڑا ہوکے اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے چکر میں ہے۔مین سٹریم میڈیا ہو یا سوشل میڈیا ہر جگہ بڑھ چڑھ کے زینب کیلئے انصاف مانگا جا رہا ہے۔ ملک کے بہت معروف قلم کاروں سے لے کر چند حرف گھسیٹ لینے والے تک سب ہی نئے نئے نقطے زاویے بیان کر رہے ہیں۔کسی کو والدین کی کوتاہی نظر آرہی ہے کہیں معاشرتی کم علمی، قدامت پسندی کارفرما دکھائی پڑتی ہے۔کسی کو جدت پسند اور لبرل مجرم نظر آتے ہیں۔
بھائیو !مان لو کہ ہم سب مجرم ہیں ،ہمارا سماج مجرم ہے ،سارا سماج مجرم ہے۔اگر سننے کا حوصلہ ہے تو سنو ،اگر دل ہے دماغ ہے عقل وشعور ہے تو سوچو ! ہم وہ ہیں کہ ہمیشہ ظالم کے ساتھ کھڑے ہوکے مظلوم پر صلح کیلئے دباؤ بڑھاتے ہیں کہیں مذہب  کے حوالے دیتے ہیں کہ دیکھیں جی معاف کرنے والے کے کتنے درجات ہیں۔کہیں آخرت کے ثواب کا لالچ ،کہیں معاشرتی دباؤ ،دیکھیں جناب جو ہونا تھا ہو چکا اب اگر مجرم کو آپ سزا بھی دلوا دیں نقصان تو پورا نہیں ہوسکتا۔ کیا انصاف کی راہ میں ہم سب رکاوٹ نہیں ہیں؟۔جب تک ہم غلط کو غلط نہیں مان لیتے۔ہر قانون شکن کیلئے سزا کا بندوبست نہیں کر لیتے۔اس وقت تک ہم یونہی ذلیل ہوتے رہیں گے۔پوری طاقت اور استقامت کے ساتھ انصاف اور حق کیلئے کھڑے ہونا ہوگا۔اپنے اجتماعی قومی مزاج کے خلاف چلنا ہوگا۔دودن ایک واقعے کو لے کے احتجاج کرنا پھر حکمرانوں کی طفل تسلیوں سے بہل جانا اور بھول جانا پھر اگلے واقعے تک جگتیں سیاسی مسلکی جھگڑے، گالم گلوچ ہی ہی ہاہا۔۔ یہ سب چھوڑیں اور مستقل مزاجی کے ساتھ بچوں کے مسئلے پر قانون سازی اور سخت سزاؤں  کے عملدرآمد تک اس آگ کو بجھنے نہ دیں۔
اگر یہ سب نہیں کر سکتے تو پھر یہ وقتی جوش اور ابال کس کام کا۔جو لوگ اپنے چور اور سزا یافتہ لیڈر کیلئے منٹوں میں قانون بنا کے گھنٹوں میں پاس کراسکتے ہیں وہ عوام کیلئے بھی یہ سب کرسکتے ہیں مگر عوام کو اس کے لیے اتنا ہی سنجیدہ ہونا پڑے گا جتنا مسلم لیگ ن کی قیادت کیلئے نوازشریف ہے۔اگر ہماری حکمران جماعت ہمارے لٹتے کٹتے اجڑتے اور قتل ہوتے بچے بچیوں کیلئے نواز شریف کی محبت سے ایک تہائی محبت اور خلوص بھی دکھا دیں تو یقیناً ہمارے بچے محفوظ ہو سکتے ہیں!

 

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اب نہیں، تو کب؟۔۔رانا اورنگزیب

Leave a Reply