ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچے۔۔محمود اصغر چوہدری

مان لیا جناب آپ بہت بڑے دانش ور ہیں۔ تمام مسائل کا حل آپ کی جیب میں ہوتا ہے ۔زینب جیسی معصو م کلی کے مسلے جانے جیسا جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے۔ آپ اپنی جیب سے وہی پڑی نکالتے ہیں اور ہمیں پیش کر دیتے ہیں کہ” دیکھیں جی یہ سب ہماری ثقافت پرمغربی یلغا رکا نتیجہ ہے ۔غیرملکی فلموں ، انٹرنیٹ ، اور بے ہودہ لباس نے ہمارے معاشرے میں فحاشی و عریانی کو بڑھا دیا ہے ۔ رشتوں کا تقدس ختم کر دیا ۔ بے حیائی نے ہمار ی قدروں کی چولیں ہلا کر رکھ دیں پھر آپ جوش خطابت میں فرماتے ہیں کہ یہ سب اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے۔۔“

جان کی امان پاﺅں تو کچھ عرض کروں ۔ یہ سب توآپ کا تجزیہ ہوا ۔ حل کیا ہے وہ بتائیں ؟۔ سات سال کی پارہ  پڑھنے والی بچی کو برقعہ پہنا دیں؟ چلو مان لیتے ہیں لیکن محترم ہم آٹھ سالہ عمران کو کیا پہناتے وہ تو مدرسے میں پڑھتا تھا اس کوزیادتی کے بعد اس کی لاش کو تیسری منزل سے نیچے پھینکا گیا۔آپ فرماتے ہیں کہ اسلام سے دوری کے سبب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں۔۔ تو جناب جو بچے مدرسوں اور مسجدوں میں جنسی تشدد کا شکار ہوئے ان کا کیا قصورتھا ۔پھر آپ فرماتے ہیں کہ جہالت بھی اس کی ایک وجہ ہے تو جناب جو ننھی طیبہ ایک فاضل جج کے گھر کام کرتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنی اس کاذمہ دار کون سا جاہل ہے ؟

آپ اپنے تجزیہ میں غیر ملکی تہذیبوں کی یلغار کا رونا روتے ہیں لیکن عالی جاہ میرا سوال یہ ہے کہ ان تہذیبوں سے بچنے کا کوئی طریقہ ہے آپ کے پاس؟ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔ نیویارک ، لندن اور روم میں بیٹھا ایک شخص اپنے فون کے براؤز میں چار لفظ ٹائپ کرکے جو ویب سائٹس کھول سکتا ہے وہی پاکستان کے ایک دیہات میں بیٹھامزدور بھی دیکھ سکتا ہے ۔ آپ اس یلغار کو روکنے کے لئے کیاکر سکتے ہیں ؟اگر دنیا سکڑ کر ایک گاؤں بن چکی ہے توآپ اس گاؤں میں خود کو پوری دنیا سے کاٹ کر کیسے رہ سکتے ہیں ۔اب سار ی ہی تہذیبیں ایک دوسرے کی روایات کو آلودہ کر رہی ہیں ۔ٹیکنالوجی کے اس دور میں بچناتو نا ممکن ہے۔

یہ پڑھیں  پاکستان کا سب سے بڑا مقدمہ چیف جسٹس کے سامنے ہے۔۔عامر سہروردی

آپ نے کوشش کر کے دیکھ لی تھی نا۔آپ نے اسپیکر کے خلاف ،پرنٹنگ پریس کے خلاف، ریڈیو ٹی وی کے خلاف اور انٹرنیٹ کے خلاف تحریکیں چلا کر دیکھ لیں۔۔ آخر آپ نے دیکھا کہ وقت کا پہیہ سب کو روندتا ہو ا آگے بڑھتا رہا۔

میری مانئے صاحب ،تہذیب کی آلودگی کا رونا رونے کی بجائے آئیے اس کا حل مل کر تلاش کرتے ہیں ۔

زینب جیسے واقعات پوری سوسائٹی کے لئے ویک اپ کال ہوتے ہیں تاکہ ہم خواب غفلت سے جاگیں اور ان  کا  تدراک  سوچیں۔جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیوں ہمارے معاشرے میں کچھ مسائل پر بات کرنا درجہ تحریمی پر فائز ہے ۔ ہمارے ہاں خرابی کو دور کرنے کی بجائے اس پر پردہ ڈالنے کو عقلمندی کیوں سمجھا جاتاہے۔خدا رااس تصور سے نکلیے ۔ علم کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے   میں اس عورت کو شریف سمجھا جاتا ہے جو اگرکسی پبلک مقام پر چھیڑی جا رہی ہو تو خاموش رہے ۔ ہمارے معصوم بچوں کو یہ تک پتہ نہیں کہ ان کا کون سا رشتہ دار ان سے پیار کر رہا ہے اور کون ان کو ابیوز کر رہا ہے ۔ ہمیں ان تصورات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا ۔ہمیں اب شور مچانا ہو گا۔ آگاہی کا دیپ جلانا ہوگا ۔ شعور اجاگر کرنا ہوگا ۔

جرائم پوری دنیا میں ہوتے ہیں ۔ کسی بھی معاشرے میں جرائم کو صفر نہیں کیا جا سکتا لیکن حادثے کے اسباب جان کر ان کا سدباب کرنا معاشرے کا اجتماعی فریضہ ہو تا ہے اور اگرمعاشرہ ایسے کسی اجتماعی فریضے سے پہلو تہی کر رہا ہے تو سارا معاشرہ اس جرم اور اس حادثے کا ذمہ دار ہے کوئی بری الذمہ نہیں۔لوگوں کو مغربی ممالک کے اعداد و شمار بتا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں کہ وہ ہم سے زیادہ برے ہیں کہ وہاں اتنی عورتوں کی عصمت دری ہوتی ہے ، اتنے بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ لوگوں کو آدھی معلومات نہ دیں انہیں ساتھ میں یہ بھی بتائیں کہ انہوں نے ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کیا کیا پالیسیاں مرتب کی ہیں ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ذرا پاکستان میں بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی دست درازی یا تشدد کے اعداد وشمار نکال کر دیکھیں آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے ۔ایک این جی اوکی ریسرچ کے مطابق پاکستان میں ہر روز گیارہ بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں اور یہ تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے ۔دس سال سے کم عمر بچیوں کو پردہ کروانے والے دانشوروں کو یہ جان کر حیرانگی ہو گی کہ بچوں میں جنسی تشدد کا تناسب یہ  ہے کہ ان بچوں میں 41فیصد میل چائلڈ ہیں ۔ جدید تہذیب کو مورودالزام کہنے والوں کو جان کر پریشانی ہوگی کہ جنسی تشدد کا شکار ہونے والے بچوں میں سے 76فیصد بچے دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔یاد رہے کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو پولیس رپورٹ کی صورت میں سامنے آئے لیکن جو کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے ان کی تعداد یا حجم کتنا زیادہ ہوگا ؟ یہ سوچنا ہی ہوش ربا ہے ۔

جنسی تشدد کے ایسے کیسوں میں اضافہ ہورہا ہے جس میں جنسی تشدد کے بعد بچوں کو قتل کر دیا گیا یا وہ ہلاک ہو گئے۔ ریسرچ کے مطابق جنسی تشدد کا شکار کہیں بھی ہو سکتے ہیں جنسی تشدد کے واقعات کا شکار ہونے والے بچوں میں سے 73 فیصد ایک دفعہ او ر 13فیصد بچے ایک سے زیادہ دفعہ بھی جنسی تشدد کا شکار ہوئے ہیں ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہم کون سی ثقافت کی بات کرتے ہیں ہم کیوں ان موضوعات پر بات کرنے سے کتراتے ہیں ہم کیوں ان موضوعات پر تربیت اور بچوں کو آگاہی دینے  سے ڈرتے ہیں ؟صاحب ہمارا دشمن اور کوئی نہیں ہے ہم سب اپنے بچوں کے دشمن ہیں ۔ والدین بچوں سے اس موضوع پر بات کرنے سے کتراتے ہیں استاد اپنے شاگردوں کو اورمبلغ اپنے پیروکاروں کو آگاہ نہیں کرتے ، میڈیا ان موضوعات کو اتنی اہمیت نہیں دیتا ، این جی اوز اس پر کوئی آگاہی مہم شروع نہیں کر تیں  ۔ ریسرچ میں یہ بات اہم ہے کہ 45فیصد سے زیادہ بچے اپنے قریبی رشتہ داروں سے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں اکثریت ایسے افراد سے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں جو ان کے اپنے جاننے والے یا قابل بھروسہ ہوتے ہیں

زینب چلی گئی اس  کے قاتلوں کو سخت سے سخت سزا  ملنی  چاہیے، حکومت کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا چاہے۔ عدالتوں کو ایسے معاملات کا  ہنگامی بنیادوں پر فیصلہ سنانا ہوگا ۔ مجرموں کو نشان عبرت بنانا ہوگا ۔ پارلیمنٹ کو اس سلسلے میں اہم قانون سازی کرنا ہوگی۔ لیکن اب ہم سب کو انفرادی واجتماعی سطح پر جاگنا ہوگا ۔ یورپ میں بچوں کے بارے میں اتنے سخت قانون ہیں کہ کوئی بالغ شخص کسی بچے کو ہاتھ تک لگانے سے ڈرتا ہے ۔ ہمارا تعلق جس مذہب اسلام سے ہے اس نے اس موضوع کو غیر معمولی اہمیت د ی جو مذہب سات سال کے بچے کا بستر علیحدہ کرنے کی بات کرے جو مذہب کزنز اور رشتہ داروں تک سے فاصلہ رکھنے کی ترغیب دے، اس کے ماننے والے ہی ایسے  موضوعات پر بات کرنے کو غیر اخلاقی خیال کرتے ہیں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں ۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ دوستی کریں ان سے ہر موضوع پر کھل کر بات کریں ۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے خصوصی پروگرام کروائیں ، ہمارے تعلیمی نصاب میں انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں ۔ میڈیا پر ایسے خصوصی پروگرام کرائے جائیں۔ ورنہ یہی ہوگا کہ نوٹس لے لیا گیا ۔

یہ نوٹس عجیب ہے ہر واقعہ کے بعد لے لیا جا تا ہے ۔لیکن کسی درندے، کسی مجرم کسی وحشی کو اس نوٹس سے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا ۔ کوئی جرم ہوتا ہے تو سوشل میڈیا پر واویلا مچتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے نوٹس دلانے پرالیکٹرانک میڈیا نوٹس لیتا ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا کے بار بار ٹکر چلانے پر وزیر اعلیٰ کو ہوش آتی ہے اور وہ نوٹس لے لیتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد پتہ چلتا ہے کہ چیف جسٹس نے بھی نوٹس لے لیاہے ۔پھر اس واقعہ پر شروع ہوتی ہے گندی توتکار ۔ سیاسی مخالف حکومت کو زچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حکومت پولیس کے  افیسران معطل کرتی ہے اور کیس عدالت میں پہنچا کر نظام عدل پر ملبہ گراتے ہیں ۔ عدالت کمزور استعاثہ کا بہانہ بنائے گی اور مجرم ایک دفعہ پھر آزاد ۔ خدا کے لئے جاگو کہیں بہت دیر نہ ہو جائے

یہ ضروری ہے انہیں نئے کل کی ضمانت دی جائے

ورنہ سڑکوں پہ نکل آئیں گے سارے بچّے!

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ان فضاؤں میں تو مر جائیں گے سارے بچے۔۔محمود اصغر چوہدری

Leave a Reply