انٹرنیٹ اور معاشرے کا ڈارک و ڈیپ ویب۔۔بلال شوکت آزاد

سانحات اور حادثات پر افسوس اور دکھ کرنا اب عام سی بات ہے لیکن ہم المیوں پر بھی اب سانحات وحادثات جیسا ردعمل دیکر سکون سے بیٹھ جاتے ہیں اور یہ ہی ہماری قوم کا من حیث القوم بہت بڑا المیہ ہے۔

زینب امین انصاری, تہمینہ اور طیبہ جیسی اور درجنوں بچیوں کے ساتھ ہوئے عظیم ظلم اور المیے کی سب کڑیاں بہت مضبوطی سے اورمربوط طریقے سے جڑی ہوئی ہیں۔بطور معاشرہ اور سماج ہم ناکام ترین لوگ ہیں۔ہماری اپنی کوئی ذاتی پہچان اور تاریخ نہیں۔ہمارا نظام اور انتظام تک ذاتی نہیں بلکہ مستعار لیا ہوا ہے۔ہماری اخلاقیات اور ذاتیات کا کوئی سر پیر نہیں۔بس لاشیں اٹھانے, الزام تراشی کرنے, سازشیں تلاش کرنے اور طاقت دکھانے کے ہم ماہر ہیں۔یہ بڑی بڑی باتیں ہم سے کروالو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے کہ باتوں اور منہ پھاڑ کر اور چنگھاڑ کربولنے کے کون سے پیسے لگتے ہیں۔

یاد رکھیں وحشت اور دہشت کے بیج بوئے جاتے ہیں پھر وحشی اور دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں۔یہ درندے ہمارے معاشرے اور ہمارے معاصر کا ہی وہ اصل چہرہ ہوتے ہیں جن پر علمیت, مذہب, معاشرت, سیاست اور اخلاقیات کانقاب چڑھا ہوتا ہے۔جنسی زیادتی کے کیس ہر ملک میں ہوتے ہیں اور یہ بہت ہی سنگین جرم ہے جو اخلاقی و انسانی اقدار کا سیدھا سیدھا قتل ہے۔بھارت میں یہ لہر گزشتہ دس سے زیادہ سالوں سے چل رہی ہے۔لیکن اب اس لہر نے پاکستان کا رخ گزشتہ پانچ سالوں سے بہت دھیمے انداز میں کیا اور اب اس میں شدید تیزی آگئی ہے۔بھارت میں جنسی زیادتی کے واقعات میں خواتین اس کا شکار درج ذیل وجوہات سے ہوتی ہیں وہاں کے مذہبی اور معاشرتی ماحول کی رو سے جیسے فحاشی و عریانی کا وہاں فیشن کے نام پر عام ہونا۔بالی وڈ  اور ہالی وڈ انڈسٹری کا گڑھ اور نت نئے عریاں سٹنٹس کا وہاں عام ہونا۔گینگز کی غنڈہ گردی کا شکار ہونا۔ہیومن ٹریفکنگ مطلب لڑکیوں کو خواہ کسی بھی عمر کی ہوں اغوا کرکے چند دن استعمال کرنا اور پھر آگے بیسیوں ہاتھوں میں فروخت کرنا۔بچیوں کا پیدائش سے پہلے سیکس چیک کروا کر حمل گرانا وہاں عام سی بات ہے جس سے وہاں لڑکیوں کی نئی نسل کی تعداد بہت کم ہے اور موجود نئی نسل کے مردوں کے لیے  جائز راستے سے شادی کے ذریعے جنسی ضرورت پوری کرنے میں مشکلات ہیں, جس سے معاشرہ عدم توازن اور انارکی کا شکار ہوچکا ہے۔انٹرنیٹ و سوشل میڈیا پر دستیاب فحش مواد سے متاثر جرائم پیشہ مردوں کی ہوس کا شکار ہونا۔اور تیسری سب سے اہم اور خطرناک وجہ پورنو گرافی, ڈارک ویب اور ڈیپ ویب کی سب سے بڑی منڈی اور اجارہ دار ہونا ہے۔اور پاکستان میں بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات میں بھی اوپر بیان کی وجوہات شامل ہیں مگر چند اور بھی توجہ طلب وجوہات ہیں جو یہاں ہماری غلطیوں کا نتیجہ ہیں جیسے کہ

یہ پڑھیں اب نہیں، تو کب؟۔۔رانا اورنگزیب

ہمارامیڈیا ایک اسلامی جمہوریہ ملک کا ترجمان میڈیا نہیں ہے۔ یہاں ذومعنی اور براہ راست عریانی و فحاشی پر مبنی اشتہارات, ڈرامے اور فلمیں و مارننگ شوز اب عام سی بات ہوگئی ہے۔بچیوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے کیسز کا ہمارے الیکٹرونک میڈیا کو بہت کریڈٹ جاتا ہے اسکی ایک چھوٹی سی ہی مثال دوں گا کہ سمجھنے والے سمجھ جائیں۔آپ اور میں جو 80 اور 90 کی پیدائش ہیں ان باتوں سے نابلد اور ناواقف تھے جن کو آج ہمارا آزاد میڈیا ڈنکے کی چوٹ پر ہماری نئی نسل جو 2000 کے بعد کی پیدائش ہے کو مفت میں اور جان بوجھ کر بتا اور سکھا بلکہ مزید جاننے پر اکسا رہا ہے۔

خواتین کو ماہانہ ماہواری کا فطری معاملہ کوئی جدید دور میں شروع نہیں ہوا اور نہ ہی اس مسئلے کے ممکنہ حل اور تدراک سے ہماری بڑھی  مائیں اور  بہنیں ناواقف تھیں اور ہیں جو آج ہر خاص و عام ٹی وی چینل اس مسئلے سے جڑی مصنوعات کا سرعام پرچار کرتا ہے فقط پیسوں کی خاطر اور اب تو گزشتہ دو سالوں سے ان اشتہارات میں نابالغ بچیوں کو زینت بنایا جارہا ہے جو کہ ہوس پرست اور جرم پسند نئی نسل کے ترسے ہوئے مرد حضرات کے اذہان کو شدید ایکسپلائیٹ کرتا ہے۔

اس کے علاوہ  ناپسندیدہ  بالوں کی صفائی کی مصنوعات کے بے ہودہ اور ادھ ننگے اجسام والی بے حیا  خواتین کے اشتہارات سے جلتی پر تیل والا کام ہوتا ہے۔اس سے بڑھ کر آبادی کے کنٹرول اور جنتی مزے سے مزین  ساتھی, ٹچ اور جوش  برانڈز کے اشتہارات دکھا کر دعوت عام دی جاتی ہے نئی اور گمراہ نسل کو  کہ بھیا تمھارے بڑے تو خصی تھے لو تم ذرا مردانگی کا مزہ چکھو اب وہ کیسے اس مزےکا بندوبست کرتے ہیں یہ بتانے کی شاید مجھے ضرورت نہیں۔اور اب تو حیرت اور پریشانی سے میری پیشانی پر پسینہ نمودار ہورہا ہے کہ اب خواتین کے زیر جاموں کی تشہیر پر مبنی ذومعنی اشتہارات بھی چینلز کی زینت بن گئے ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ اور اس جیسی مصنوعات سات پردوں میں پہلے بک نہیں رہی تھی جو ان کو نام نہاد فیملی چینلز پر دکھا کر مارکیٹ کیا جاتا ہے؟

پیمرا کہاں  سویا  ہوا ہے ان باتوں کو نظر انداز کرکے۔اور ہمارے ڈراموں میں جو انداز اور کہانیاں اب پیش کی جاتی ہیں وہ خود اپنے آپ میں ایک شاہکار ہے ہمارے میڈیا کا۔سو میں سے اسی فیصد ہیرونز ڈوپٹے اور چادر سے  بے نیاز ہوتی ہیں ،کیمرہ تکنیکس کے ذریعے جسم کے مختلف حصوں کی خاص نمائش کی جاتی ہے۔۔اور رومینٹک معمولات کی ذومعنی عکاسی سے ہر کنوارے و شادی شدہ مرد  و خواتین  کے جذبات  کو بھڑکانا عام سی بات ہے۔

یاد رکھیں مکمل ننگ سے ادھورا ننگ اور ذومعنیت جنسی و حیوانی جذبے کو بہت زیادہ بڑھاتی ہے۔جب ڈراموں کا یہ حال ہے تو فلموں کی داستان خود ہی سمجھ لیں آپ۔مطلب ہمارا آزاد و بے باک میڈیا ہر اینگل سے ہر جنسی زیادتی کے واقعے سے جڑا ہوا ہے۔دوسری وجہ خواص کے بے ہودہ فیشن کے نام پر عوام کو عریانی کی طرف مرغوب کرنا ہے۔تیسری وجہ ہمارا بطور مسلمان اسلامی شریعت سے انحراف ہے جیسے حدود اور سزائیں تو جرم کرنے پر بعد کی بات ہیں لیکن جرم کے تدراک کے حل جیسے زیادتی وفحاشی کا واحد حل نکاح میں جلدی اور دوسری تیسری اور چوتھی شادی میں پوشیدہ ہے لیکن ہم نے ان کو گناہ اور  شجرِ ممنوع  کا درجہ دیکر پھر خود ہی بالغ و نابالغ افراد سے جنسی زیادتی کا راستہ کھلا چھوڑا ہوا ہے۔بلوغت کی خود ساختہ  طے کی ہوئی عمر اٹھارہ سال بھی ہمارے موجودہ بزرگوں کو شادی کے لیے  موزوں  نہیں لگتی بلکہ آسائشات و شہرت و دولت کے حصول کے لیے  طے  کردہ عمر پچیس سال بناکر بندھ  باندھا  ہوا  ہے  نئی  نسل کی جنسی خواہشات کی تکمیل پر۔پھر وہ کیا کریں اپنی ثانوی جبلت کی تسکین کی خاطر؟

وہ پھر بدی اور جرم کا وہ راستہ اپناتے ہیں جو زنا بالرضا اور زنا بالجبر کی سنگلاخ اندھیری وادیوں کی طرف لے کرجاتا ہے۔زنا بالرضا کا انجام خودکشیاں اور بھاگ کر شادی یا پھر لڑکیوں کے لیے کوٹھا ہی بچتا ہے۔اور زنا بالجبر کا انجام پھر نابالغ بچوں اور پچیوں کا جنسی استحصال اور ناحق خون کی صورت نکلتا ہے۔بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کوئی نابالغ عزت لٹوا کر زندہ نکل آئے یابک جائے آگے بیسیوں ہاتھوں میں۔اس کے بعد ہمارا جمہوری و قانونی نظام ایسےواقعات کو جنم دیتا ہے کہ مجرم کو معلوم ہے وہ چار روپے اور کسی طاقتور کی طاقت کی نمائش کرکے دندناتا ہوا نکل آئے گا۔بطور معاشرہ اخلاقی و شرعی اور انسانی وجوہات و پابندیوں کو ہم نے لبرل ازم اور روشن خیالی کی بھینٹ اور دولت و شہرت کی ادنیٰ سے قیمت پر فروخت کردیا ہے۔

اور ہاں اب بات بہت دھیان سے سننے پڑھنے والی ہے کہ بھارت کی طرح اب پاکستان بھی پورنو گرافی ڈارک ویب اور ڈیپ ویب کی منڈی بننے کی قطار میں شامل ہوچکا ہے ہمارے ارباب اختیار و بساط کی مہربانی اور خصوصی توجہ سے۔پورنو گرافی سے تو ہر بالغ اور پڑھا لکھا فرد واقف ہے آئیں آپ کو ذرا ڈارک ویب اور ڈیپ ویب کی معلومات فراہم کی جائے۔

بعض لوگ ڈارک ویب اور ڈیپ ویب (Deep Web) کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔ لیکن ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ڈیپ ویب کا حجم اُس ورلڈ وائیڈ ویب سے پانچ سو گنا زیادہ ہے جس تک ہمیں رسائی حاصل ہے۔ اسے بعض اوقات سمندر میں بہتے آئس برگ سے تشبیہ دی جاتی ہے جس کا اوپری حصہ عام ویب یا سرفیس ویب جبکہ پانی کے نیچے موجود حصہ ڈیپ ویب ہے۔

ڈیپ ویب دراصل وہ ویب سائٹس یا آن لائن سروسز ہیں جن تک عام لوگوں کو رسائی حاصل نہیں ہوتی ۔ انہیں کوئی سرچ انجن بھی انڈیکس نہیں کرتا اس لئے گوگل جیسے سرچ انجن پر تلاش کرنے پر بھی ان کا کوئی ربط نہیں ملتا۔ ڈیپ ویب کی مثال کے طور پر ایک آن لائن ڈیٹا بیس پیش کیا جاسکتا ہے جس میں تلاش کے لئے آپ کو کچھ آپشن منتخب کرنے ہوتے ہیں یا Captcha ٹائپ کرنا پڑسکتا ہے۔ چونکہ کوئی سرچ انجن ایسا نہیں کرسکتا، اس لئے آپشن منتخب کرنے کے نتیجے میں جو ڈیٹا ملتا ہے، وہ سرچ انجن کی دسترس میں نہیں ہوتا۔ دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں ویب سائٹس ایسی ہیں جن پر بے شمار خفیہ سروسز چل رہی ہیں۔ ڈارک ویب بھی دراصل ڈیپ ویب کا ہی حصہ ہے، لیکن یہ ڈیپ ویب کے حجم کے مقابلے میں بہت چھوٹا ہے۔ (مانامہ کمپیوٹنگ جون 2017)

گوگل، یوٹیوب اور یہ عام ویب سائٹس جو ہم روزانہ استعمال کرتے ہیں یہ انٹرنٹ کا صرف ایک فیصد حصہ ہے جو بالکل معمولی سا ہے-انٹرنیٹ کا بہت بڑا حصہ عام یوزر کی نظروں اور ان کی پہنچ سے چھپا ہوا ہے- جسے ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کہا جاتا ہے-

ڈیپ ویب ورلڈ یا ڈارک ویب ورلڈ تک وہی پہنچ سکتے ہیں جنہیں کمپیوٹر اور انٹرنٹ کے بارے میں بہت کچھ پتا ہوتا ہے۔ ورنہ عام بندہ صرف گوگل یوٹیوب جیسی عام ویب سائٹس تک رہتا ہے-وہاں پر جاکر کچھ کرنا، کچھ خریدنا یا بیچنا ایک سنگین جرم مانا جاتا ہے کیونکہ وہاں ہر قسم کے غیرقانونی   اور غیراخلاقی کام ہوتے ہیں-
وہاں منشیات، اسلحہ، جعلی آئی ڈی کارڈ، پاسپورٹ وغیرہ خریدے اور بیچے جاتے ہیں- لوگوں کے قتل کی بولی لگائی جاتی ہے۔وہاں پر پیسے بھر کر لوگوں پر ظلم ہوتا ہوا یا ان کو مرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں- وہاں پر بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتے ہوئے انھیں قتل  کرنے کی ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں اور بہت کچھ موجود ہے ( ڈارک ویب یا ڈیب ویب ورلڈ کیا ہے؟ وقار عظیم, 5 اگست 2017ء, مکالمہ)

دنیا بھر کا انٹرنیٹ اس وقت تین الگ ویب میں تقسیم ہے جو کہ ورلڈ وائڈ ویب, ڈیپ ویب اور ڈارک ویب پر مشتمل ہے۔

اولذکر ویب ہماری یعنی عام قارئین کی دسترس میں ہے جو دنیا کے ٹوٹل انٹرنیٹ کا فقط چند فیصد ہی ہے۔پھر ڈیپ ویب اور ڈارک ویب کی باری آتی ہے جو دنیا کے سب انٹرنیٹ کا وسیع مگر غیر قانونی اور پوشیدہ ذریعہ ہے۔

آخرالذکر ویبز میں مافیاز اور جرائم پیشہ اداروں اور افراد کے غیر قانونی معاملات کا ڈیٹا اور سنگین نوعیت کی دہشت گرد ایجنسیوں اور تنظیموں کےمعاملات دفن ہوتے ہیں اور ڈیل ہوتے ہیں۔

یہاں منشیات, غیر قانونی جدید اسلحہ, سمگلنگ, کالے دھن کا لین دین اور سب سے بڑھ کر غیر قانونی مطلب اٹھارہ سال سےکم یعنی نابالغ بچےبچیوں اور مردہ اجسام سے جنسی زیادتی کا سٹف بکتا اور بیچا جاتا ہے۔

اگر بالفرض محال ورلڈ وائیڈ  ویب کی مجموعی  مالیت ایک ارب ہو تو ڈیپ ویب کی مالیت اس کا دس گنا ہوگا اور ڈارک ویب کی مالیت اس کا سو گنا ہے۔بالغ افراد کے جنسی سکینڈلز اور خفیہ لمحات کا مواد ورلڈ وائیڈ ویب پر عام دستیاب ہے لیکن اس کی بھی خرید و خروخت ڈارک ویب سےہی کی جاتی ہےگمنام رہنے کی خاطر۔

اب آپ ذرا مشاہدہ کریں کہ پاکستان میں جب سے تھری جی اور آئی ٹی کی تعلیم میں انقلاب آیا ہے اس سے ہم کن سائیڈ ایفیکٹس کا شکار ہوئے ہیں۔فنی تعلیم بری نہیں اور نہ ہی ٹیکنالوجی بری ہے بس اس کا منفی استعمال خطرناک ہے۔جہاں ایتھیکل ہیکنگ کے ہیرو موجود ہیں پاکستان میں وہاں کرمنل ہیکنگ اور ڈارک ویب کے ولن بھی اب موجود ہیں۔

قصور میں جو تین سو سےزائد بچوں سےمنظم جنسی زیادتی کےبعد مواد اکٹھا کیاگیاوہ کروڑوں ڈالر میں اسی ڈارک ویب پر موجود سروسز جیسے کالعدم الفا بے اور پائیریٹس بے کو فروخت کیا گیا۔لین دین کا ذریعہ جدید اور محفوظ ای کرنسی بٹ کوائن ہی رہتی ہے ہر ڈارک اور ڈیپ ویب سودے میں۔

Advertisements
julia rana solicitors

حالیہ سبھی نابالغ جنسی زیادتی کے واقعات کی اگر ہائی پروفائل انٹیلی جنس انویسٹی گیشن کی جائے تو میری بات لکھ لیں کہ ان اور سابقہ سبھی ایسے واقعات کے ڈانڈے ڈارک اور ڈیپ ویب سے جڑے ملیں گے اور ان کے کرتا دھرتا ہمارےنامور سرمایہ کار و سیاست دان اور سرکاری عہدے دار ہی نکلیں گے۔اس سب کے پیچھے یہ سب سے مضبوط منطق اور وجہ ہے۔لیکن اوپر بیان کردہ دیگر وجوہات کو بھی ذہن میں رکھیں۔اپنی کمسن اور معصوم بچیوں کےساتھ ساتھ بالغ بہنوں بیٹیوں اوربہنوں کے علاوہ  ازواج کا بھی خیال  رکھیں۔برا وقت اللہ کسی پر نہ  لائے اور سب کی بیٹیاں محفوظ رہیں۔آمین

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply