نکاحِ متعہ، حُرمت، دلائل اور اعتراضات کا اجمالی جائزہ

نکاحِ متعہ، حُرمت، دلائل اور اعتراضات کا اجمالی جائزہ
مفتی امجد عباس
نوٹ:( یہ ایک علمی مقدمہ ہے،صاحبان علم و ہنر میں سے جو اس مسئلے پرمدلل نگارشات پیش کرنا چاہیں “مکالمہ “سائٹ ان کے لیے حاضر ہے،مگر سطحی اور غیر علمی تحریروں کو اس موضوع کے لیے پذیرائی نہیں ملےگی،مکالمہ بہر حال مناظرانہ فورم ہر گز نہیں ہے۔ ادارہ)
فیس بُک پر، حضرت علامہ قاری محمد حنیف ڈار حفظہ اللہ اور چند دیگر لائقِ احترام دوستوں نے نکاحِ مؤقت (متعہ) کے حوالے سے مختلف پوسٹیں لکھیں۔ عام طور پر میں جوابی پوسٹ کا قائل نہیں ہوں، لوگوں کو اپنے نظریات بیان کرنے کا مکمل حق ہے، میں متنازع مسائل پر تحریریں دیکھ کر آگ بگولا نہیں ہوتا، نہ ہی دھمکیاں لگانا یا بُلاک اور اَن فرینڈ کرنا مناسب جانتا ہوں۔ کچھ دوستوں کا اصرار تھا کہ میں نکاحِ مؤقت کا اجمالی جائزہ لوں۔ مجھے لمبے چوڑے دلائل نہیں پیش کرنے، میں چند بنیادی باتوں پر اکتفاء کروں گا اور اختصار سے اعتراضات کا جائزہ بھی پیش کیے دیتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نکاحِ مؤقت (متعہ) کی عہدِ رسالت میں حلیت پر سبھی مُسلمانوں کا اتفاق ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِس کی اجازت دی۔ اہلِ سنت کے ہاں سات بار تک کی روایات ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فُلاں موقع پر اجازت دی بعد میں روک دیا، پھر فُلاں موقع پر اجازت دی، فُلاں موقع پر منع کر دیا۔ ہمارے دوستوں کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رفتہ رفتہ، جاہلیت کے کاموں سے روکا ،جیسے شراب، پہلے آرام سے کہا نہ پیو، پھر حرام قرار دی، اِسی طرح نکاحِ مؤقت کا حال ہے کہ آخر میں روک دیا۔ جوابی طور پر عرض ہے کہ کیا ایک بار بھی آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے شراب پینے کی اجازت دی؟ قرآن کہتا ہے کہ میرا نبی خباثتوں سے روکتا ہے، پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتا ہے، اگر نکاحِ مؤقت (متعہ) اتنا ہی غلط تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک بار ہی سہی، کرنے کی اجازت کیوں دی؟ جبکہ سبھی کتبِ احادیث و سیرت و تواریخ سے دیکھیے ،آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک بار بھی کسی حرام، غلط اور بدکاری کی کسی صورت اجازت نہیں دی۔
اہلِ سنت کے سبھی گروہوں کی کتبِ احادیث اور شیعہ کتبِ احادیث میں (بشمول صحاح ستہ و کتبِ اربعہ) نکاحِ متعہ کا ذکر موجود ہے، ساتھ میں کئی صحابہ کرام کی گواہیاں موجود ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دور کے شروع تک، متعدد صحابہ کرام نے نکاحِ مؤقت یعنی نکاح متعہ کیا، وہ اِس کی حلیت کے قائل تھے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِس سے روک دیا۔ صرف صحیحین کو ہی دیکھ لیا جائے (یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وقتی، انتظامی نوعیت کا فیصلہ ہو سکتا ہے)
اُمت میں صحابہ کرام کے دور سے اِس نکاح میں اختلاف چلا آرہا ہے، چوتھی صدی ہجری کے مشہور عالم امام ابن منذر (متوفیٰ 318ھ) نے اپنی کتاب “الاجماع”میں ایسے سبھی مسائل کو جمع کیا، جن پر سبھی مسلمانوں کا اتفاق ہے، لکھتے ہیں کہ نکاحِ متعہ کی حُرمت پر اتفاق نہیں ہے۔ یہ شافعی عالم، امام احمد بن حنبل کی وفات کے لگ بھگ پیدا ہوئے، امام بخاری، امام ترمذی، امام ابوحاتم رازی کے شاگرد جبکہ ابوبکر خلال اور ابن حبان کے اُستاد ہیں، اِن کی کتاب”الاجماع”انتہائی مفید اور قدیم کتابوں میں سے ہے۔
نکاحِ مؤقت یعنی نکاح متعہ پر وارد سبھی اشکال، نکاحِ دائمی پر بھی پیش آتے ہیں۔ اِن دونوں میں بنیادی فرق صرف مُدت کا ہے، باقی متعہ کی بھی عدت ہے۔ (ذہن میں رہے اگر مرد کسی عورت سے دائمی نکاح کر لے، بعد میں کسی بھی وقت طلاق دینا جائز ہے، بلکہ طلاق کی نیت سے ہی نکاح کرلے تب بھی جائز ہے) ہاں بعض دیگر حقوق سے بھی عورت محروم ہوجاتی ہے جیسے نکاحِ مسیار میں ہوتی ہے۔نکاح کا مقصد جنسی خواہش کا پورا کرنا اور افزائشِ نسل ہے، تاہم سبھی جانتے ہیں کہ عزل کرنا (جمع کرنا لیکن افزائشِ نسل نہ ہونے دینا) بھی جائز ہے۔ اگر نکاح کا ہدف صرف افزائشِ نسل ہوتا تو کبھی بھی مانعِ حمل کوئی طریقہ، جائز نہ ہوتا۔
احباب کا خیال ہے کہ نکاحِ مؤقت میں عورت کو جنسی خواہش کی تسکین کے بعد چھوڑ دیا جاتا ہے، عرض ہے یہی دائمی نکاح میں بھی ہوسکتا ہے۔ آپ نکاح کیجیے، شبِ عروسی کے بعد، طلاق دیجیے، یہ جائز ہے (ہاں شدید ناپسندیدہ عمل) پھر کسی اور سے نکاح کیجیے، شبِ عروسی کے بعد طلاق دیجیے، یہاں بھی عورت استعمال کے بعد فارغ۔ اب کیا نکاح کے بعد طلاق ہی ناجائز قرار دی جائے؟
اصل بات اتنی ہے کہ معاشرے نے دائمی نکاح کو سماجی تحفظ بخشا ہے، لڑکا اور لڑکی دونوں کے خاندان لاکھوں روپے لگا کر نکاح و شادی کرتے ہیں، ایسے میں جلدی طلاق دینا دونوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اگر صرف شرعی طریقے پر، سادہ انداز میں شادی کی جائے تو طلاق کی نسبت بہت بڑھ جائے۔ مؤقت نکاح یعنی متعہ کو بھی سماجی تحفظ و قبولیت ملتی تو اُس کے ضوابط بھی سماج طے کر کے اُسے بھی تحفظ دیتا۔اب مزید سُنیے، اسلام میں بے شمار لونڈیوں کی اجازت ہے، وہ بھی عورتیں ہوتی ہیں، انسان ہیں۔ اُن سے جنسی تعلق کے لیے نکاح کی حاجت بھی نہیں ہوتی۔ (یہ الگ کہ اب لونڈیاں ختم ہیں، اگر ہوتیں تو یہ احکام بھی لاگو ہوتے)۔ ایک بیوی سے جنسی تسکین بھی ہے، اولاد بھی ہے، اِس کے باوجود مرد بیک وقت چار بیویاں رکھ سکتا ہے۔ ابھی تک کسی فقہ کے مفتی نے اِس عمل کو ناجائز قرار نہیں دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی متعدد شادیوں کے کئی سیاسی، مذہبی اور اخلاقی پہلو تھے، یہ بات واضح ہے کہ شادی کا مقصد صرف شہوت رانی نہیں ہوتا۔ مؤقت نکاح یعنی متعہ سے بھی بیوگان کو تحفظ، اُن کی اولاد کو سہارا دینا جیسے مقاصد پورے کیے جا سکتے ہیں۔ سنیے حافظ ابن قیم جوزیہ نے”اغاثۃ اللھفان”کی جلد اول میں لکھا ہے کہ امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ نکاحِ مؤقت، حلالہ سے 12 وجوہات کی بنا پر بہتر ہے، جن میں سے ایک وجہ نکاحِ مؤقت یعنی متعہ کا پہلے حلال ہونا ہے، جبکہ حلالہ، حلال نہ تھا، نیز کئی صحابہ آخری وقت تک متعہ کے جواز کے قائل رہے جیسے حضرت ابن عباس و حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ۔
چند مزید نکات کی طرف اشارہ کردوں کہ فقہ حنفی میں بالغ لڑکی اور لڑکا، اپنے اولیاء کی اجازت کے بغیر صرف دو گواہوں کی موجودگی میں کسی بھی زبان میں نکاح کر سکتے ہیں۔ آپ ذرا ذہن میں کورٹ میرج کا تصور لائیے، حضرت قاری محمد حنیف ڈار اور دیگر ساتھیو! فقہِ جعفری میں نکاح خواہ مؤقت یعنی متعہ ہو یا دائمی، اولیاء کی اجازت شرط ہے،کورٹ میرج جائز نہیں، ہاں نکاح بھی عربی میں پڑھنا لازم ہے۔آج کے معاشرے میں جہاں بے حیائی اور مخلوط تعلیم عام ہے، فقہ حنفی کی رُو سے بالغ لڑکی اور لڑکا آسانی سے اپنے دو ساتھیوں کے سامنے ایک دوسرے کو قبول کر کے جنسی تسکین کے حصول کے بعد جدا ہوسکتے ہیں، جبکہ دیگر سبھی فقہوں میں لڑکے اور لڑکی کے اولیاء کی رضایت لازم ہے۔ نکاحِ عُرفی، حلالہ اور نکاحِ مسیار کے جواز پر اہلِ سنت کی اکثریت متفق ہے۔ اِن میں اور نکاحِ مؤقت میں ضرور مقایسہ کیجیے گا۔
نوٹ:
عقدِ مؤقت یعنی متعہ، فقہ جعفری میں صرف جائز ہے، لازم ہرگز نہیں، جیسے طلاق جائز ہے لیکن لازم نہیں، پسندیدہ بھی نہیں۔ اسلام میں ایک ہی وقت چار شادیاں بھی جائز ہیں، لیکن مناسب ایک ہے۔ میں عقدِ مؤقت کو انتہائی اضطراری حالات میں ہی مناسب جانتا ہوں۔ خدا توفیق دے تو دائمی شادی ہی کرنی چاہیے، وہ بھی ایک۔ یاد رہے مؤقت نکاح میں اولیاء کا راضی ہونا لازم ہے،مخصوص حالات میں، مجبوری کی صورت میں اِسے کُھل کر کرنا چاہیے، چوری چھُپے یاریاں درست نہیں۔ نکاح کی حکومتی سطح پر یا رائج طریقے پر رجسٹریشن بھی کروانی چاہیے۔
نکاحِ مؤقت پر ضرور تنقید کیجیے لیکن یاد رکھے دائمی نکاح پر بھی زد پڑے گی جیسے کسی سے کہنا کہ اپنی بیٹی مجھے دائمی نکاح کے لیے دیجیے، مجھے جنسی عمل اور افزائشِ نسل درکار ہے۔

Facebook Comments

امجد عباس، مفتی
اسلامک ریسرچ سکالر۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”نکاحِ متعہ، حُرمت، دلائل اور اعتراضات کا اجمالی جائزہ

Leave a Reply